تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     01-01-2019

تیل پیدا کرنے والے دو ملک‘ مشکلات میں

کئی ادوار سے جنگ اور پابندیوںکی وجہ سے عراق کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔امن‘ مستحکم معیشت اور ترقی کی جانب پیش رفت مخدوش دکھائی دیتی ہے۔دور دور تک امیدوں کی نئی راہیں کھلتی نظر نہیں آتیں۔جب کوئی نیا راستہ دکھائی دیا‘ دہشت گردی اور امن و امان کی غیریقینی صورتحال ہمیشہ کی طرح آڑے آئی۔امریکہ نے نیوکلیئر معاہدوںسے اختلاف کے پیش نظر ‘ ایران پر پابندیوں کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ ان پابندیوں کا سامناصرف ایران ہی نہیں‘بلکہ اس سے جڑا ہر ملک متاثر ہوگا‘عراق بھی ان میں سے ایک ہے۔ ایرانی وقتاً فوقتاً پابندیوں میں نرمی اور سختی جیسے عمل سے دوچار ہوتے رہے ہیں۔کبھی پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں تو کبھی ختم۔عراق کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔عراق پر پابندیوں نے اس کی تجارت اور معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں‘اس کی وجہ سے ہمسایہ ممالک سے تجارت میں دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔اس میں شک نہیں کہ عراق کا شمار تیل پیدا کرنے والے بڑے ملکوں میں ہوتا ہے۔اس کی تیل اور گیس کی پیدوار ایران کی نسبت کئی گنا زیادہ ہے‘ مگر جنگ اور بدترحالات کی وجہ سے‘ برآمدات و درآمدات میں دشواریوں کا سامنا ہے۔انہی وجوہ کی بنا پر عراق میں انرجی اور تیل کی پیدوار کم ہوتی جارہی ہے اور نئی تنصیبات پر کام سست روی کا شکار ہے۔
عراقی حکومت کی کرپشن کی کارستانیاں ‘ بیورو کریسی کی شہ خرچیاںاور عوامی حالات و واقعات‘ اسے روزبروزتنزلی کی جانب دھکیلے ہوئے ہے۔تیل کی پیدوار میں کمی اور اس کے وسائل نہ ہونے کے برابر استعمال ہو رہے ہیں۔ایران‘ عراق کی نسبت تیل کے وسائل بروئے کار لاتے ہوئے‘ نئے منصوبوں پر کام جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ عراق کی سست روی اور حالات اسے نئے معاشی بحران کی طرف لے جارہے ہیں۔عراق میں انرجی کی غیر یقینی صورت حال کے پیش نظر امریکا ‘سعودی عرب کو ایرانی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنے پرمجبور کر رہا ہے ‘ تاکہ وہ تیل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایرانی وسائل بروئے کار لائے۔عراق ایران سرحد نا صرف ملکی حدود کی درجہ بندی کے لیے استعمال ہوتی ہے ‘بلکہ ایرانی معیشت‘سیاست اور مذہب کا اثر2003 ء سے عراق پر ہے۔عراق کی سیاسی پارٹیاں حالات کی وجہ سے ایران میں قدم جمائے ہوئے ہیں۔عراق کی مارکیٹیں ایرانی مصنوعات سے بھری پڑی ہیں۔اب توعراقی سڑکوں پر ہمیں ایرانی گاڑیاں دوڑتی نظر آئیں گی۔اس بات سے منہ نہیں موڑا جا سکتا کہ کم قیمت اور غیر قانونی تجارت تھوڑا بہت عراقی معیشت کو سنبھالا دئیے ہوئے ہے‘ ورنہ حالات کچھ اور ہی ہوتے۔
ایرانی تجارت کا حجم لگ بھگ 12ارب ڈالر سالانہ کے قریب ہے۔عراقی حکمران اسے مزید بڑھانے اور اپنے تعلقات ایران سے بڑھانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔
عراقی صدر برہم صالح نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ''ایران کے ساتھ تجارت ہمارے تعلقات مضبوط بنائے ہوئے ہے‘‘۔ وہ جانتے ہیں کہ ایران کا مذہبی اور سیاسی اثرورسوخ عراقی عوام میں روز بروز بڑھتا جا رہا ہے‘ وہ کبھی بھی ان کے ملک میں انتشار کی فضا پیدا کرسکتا ہے‘باوجود اس کے وہ تجارتی تعلقات بڑھانے کے خواہاں ہیں۔امریکا کی جانب سے دونوں ملکوں پر تجارتی پابندیاں عائد ہیں۔ امریکا کوبار بار اس بات پر واویلا مچاتے دیکھا گیا کہ دونوں اپنی تجارتی سرگرمیاں بند کریں۔ ایرانی صدر روحانی اس تجارتی حجم کو عالمی سطح اور میڈیا میں دکھائے بغیر بڑھانے پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں اوروہ سالانہ تجارت دوگنا‘ 12 ارب ڈالر سے بڑھا کر 20 ارب ڈالر تک لے گئے ہیں۔اس کا نقصان عراقی حکومت کو ہوا ‘ کیونکہ خفیہ طور پر بغیر ڈیوٹی ٹیکس ایرانی مصنوعات عراقی مارکیٹ میں بھری پڑی ہیں ‘جس کی وجہ سے ان کی معیشت میں خاطر خواہ بہتری نظر نہیں آئی اور لوکل مصنوعات کی خریدوفروخت میں بھی کمی دیکھنے میں آئی۔عراقی حکومت ان پر پابندیاں لگا کر اسے قانونی شکل دینے پر غور کر رہی ہے اور نئی پالیسیاں بنانے کا کام بھی جاری ہے۔ایران عراق تجارت؛ چونکہ امریکی ڈالر سے منسلک ہے‘پابندیوں کی وجہ سے تجارتی معاہدوں میں خلل پیدا ہوتے ہیں ۔ امریکی پابندیاں خصوصاً قدرتی گیس اور تیل کی تجارت پر زیادہ اثرانداز ہوئی ہیں۔لوکل مصنوعات عراقی مارکیٹ میں گھر کیے ہوئے ہیں؛چونکہ ایران اورعراق افواج رکھتے ہیں اور سرحدیں تقسیم کیے ہوئے ہیں۔ایران ماہرین سیاسی و معاشی بصیرت رکھتے ہوئے‘ عراقی میڈیا کے ذریعے اپنی تجارتی برتری برقرار رکھنے کے لیے خصوصی توجہ دے رہا ہے‘ تاکہ عوامی دبائو سے عراقی حکومت کو مجبور کیا جائے اور عوام میں مصنوعات کی آگاہی کو یقینی بنایا جائے۔عراق کی تاریخ ہمسایہ ممالک کے ساتھ جنگوں سے بھری پڑی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ دوسرے ہمسایہ ممالک ‘عراق کے ساتھ تجارت کو بڑا خطرہ سمجھتے ہیں‘مگر عراقی لیڈڑ‘ واشنگٹن کی بجائے دیگر ممالک کو ترجیح دیتے ہیں۔سعودی عرب اور ایران کی تجارتی ا ور خارجہ پالیسیاں سب کے سامنے ہیں‘دونوں اپنی اپنی معیشت کے استحکام کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ایرانی جغرافیہ پر نظر ڈالیں توسعودی عرب اپنی طاقت کے ذریعے اس پر دبائو اور جنگی حالات جیسی کیفیت پیدا کیے ہوئے ہے۔ان حالات میں ایرانی تجارت کا فروغ ناممکن عمل دکھائی دے رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے ایران کو‘ عراقی مارکیٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved