تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     01-01-2019

کشمیر کے پھول اور کلیاں

سکالرز‘ پی ایچ ڈی ڈاکٹرز اور معاشیات جیسے مضامین سے آراستہ نوجوانوں کے علا وہ سینکڑوں کی تعداد میں کشمیری انجینئرز بھارتی فوج کی بربریت کی بھینٹ چڑھتے جا رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر پر 70 برس کے غاصبانہ قبضے اور وحشت و بر بریت کے پہاڑ توڑتی ہوئی سات لاکھ سے زائد بھارتی فوج اور بارڈر سکیورٹی فورسز اب تک 90 ہزار سے زائد کشمیری بچوں ‘عورتوں اور مردوں کو قتل کر چکی ہے۔ اس میں ان مرد وخواتین کی تعداد علیحدہ ہے‘ جن کی زخموں سے چُور لاشیںبھارتی فوج کے عقوبت خانوں سے رات گئے دریائے نیلم میں بہا دی جاتی ہیں۔ بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں اپنے مخبروں کے ذریعے ایسے کشمیری نوجوانوں کی‘ جو بھارتی قبضے کے خلاف مظاہروں اور ریلیوں میں اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے پر امن شرکت کرتے ہیں ‘ بھارتی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیاں ان ریلیوں میں شامل طالب علموں کی ویڈیوز بنانے کے بعد ان کی ''ہٹ لسٹ‘‘تیار کرتی ہے اور پھر ان کے گھروں کی نشاندہی کرنے کے بعد ایک رات اچانک حملہ کرتے ہوئے ‘ان کے گھروں میں ہی انہیں دہشت گرد قرار دیتے ہوئے شہید کر دیتی ہیں۔ اس مشن کو جنرل راوت نے HUNT DOWN کا خفیہ نام دے رکھا ہے اور اس کیلئے سائوتھ کشمیر میں پلوامہ‘ شوپیاں اور اننت ناگ( اسلام آباد) کے اضلاع کو خاص طور پر نشانے پر لے رکھا ہے‘ جبکہ کشمیر کے شمالی حصے میں بانڈی پورہ اور کپواڑہ اور سینٹرل کشمیر میں بٹ گرام کومنتخب کر رکھا ہے۔کشمیر کے ہر پھول اور کلی کو جو مہکنا چاہتی ہے‘ بھارتی فوج اسے کچلنے میں لگی ہوئی ہے۔
بھارتی فوج اور پولیس کے مخبر مقبوضہ کشمیر کی ہر گلی اور محلے سے ایسے نوجوان لڑکوں کی تفصیلات اکٹھا کرنے میں لگی ہوئی ہے‘ جن کے بارے یہ اطلاع ملتی ہے کہ وہ مظاہروں میں شرکت کرتے ہیں یا کچھ عرصے اپنے گھروں سے غائب ہیں‘ چاہے کہیں ملازمت کیلئے انٹرویو یا رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنے کیلئے ہی گئے ہوں ۔ اکنامک ٹائمز کی رپورٹ کے مطا بق‘ اس وقت کشمیر کا ہر دوسرا اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان آزادیٔ کشمیر کے ہراول دستے میں شامل ہوتا جا رہا ہے‘ جس نے بھارتی فوج کو بے حد پریشان کر رکھا ہے ‘کیونکہ اس طرح ہر تعلیمی ادارہ ایک مورچہ بنتا جا رہا ہے۔ آج جب دنیا بھر میں غلامی اور جمہوریت کی باتیں کی جاتی ہیں‘ تو سوشل میڈیا کے اس دور میں کوئی بھی نوجوان خود کو غلام کہلوانا اپنے لئے توہین سمجھنے لگاہے۔ 
لولاب کپواڑہ کے منان بشیر وانی پی ایچ ڈی سکالر ہیں‘ جنہیںانڈین آرمی نے شگند گائوں کے نزدیک ایک جھڑپ میں شہید کیا۔ ڈاکٹر اعجاز الدین خان عربی میں پی ایچ ڈی کر چکے ہیں ۔ سبزار احمد بھٹ جن کے متعلق بھارتی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس کا تعلق حزب المجاہدین سے تھا‘ نے ایم ایس سی باٹنی اور ایم فل امتیازی نمبروں سے پاس کر رکھا تھا ۔سبزار احمد کو اس کے دوست بشیر لشکری کے ہمراہ لشکر طیبہ کا ٹھپہ لگا کر شہید کیا گیا۔ عبد المنان وانی جیالوجی میں پی ایچ ڈی تھے ۔ ڈاکٹر محمد رفیع بھٹ پی ایچ ڈی سوشیالوجی ‘جاوید ملک ایم ٹیک ‘ مسیح اﷲ خان ایم ٹیک ‘ نعیم احمد میر بی ٹیک‘ الطاف ملک ایم ٹیک ‘ جان محمد ایم ٹیک‘ محمد رفیق بی ٹیک‘ افضل شاہ ایم پی ای ڈی ‘ رفیق آہنگار ایم ٹیک‘ عمر احسان ایم ایس سی فزکس‘ اشفاق حسین ڈار ایم اے انگلش‘ محمد یونس ایم اے سوشیالوجی ‘ آصف نذیر بی ای‘ رئیس احمد ڈار بی ای‘ باسط رسول ڈار بی ای‘ مزمل منظور بی ٹیک‘ خورشید ملک بی ٹیک ‘نواز احمد واگے ایم اے اُردو‘ عیسیٰ فاضلی بی ٹیک‘ سید اویس بی ٹیک ‘ سجاد یوسف ایم اے اسلامک سٹڈیز اور میٹرک میں9.6CGPA حاصل کرنے والے15 سالہ فرحان وانی کا بچپن کا دوست مسعود جوبرہان وانی کے قتل کے خلاف سکول اور کالج کے دوسرے لڑکوں کے ساتھ مل کربھارتی فوج کے ظلم و تشدد کے خلاف احتجاج میں شامل تھا۔ اس کے چہرے اور آنکھوں میں پیلٹ گن کے چھرے گھس گئے۔ ہسپتال میں فرحان نے یہ منظر دیکھا تو خوف سے کانپ کر رہ گیا۔ اس کادوست مسعود اور دو درجن کے قریب اس کے سکول کے چودہ‘ پندرہ برس عمر کے بچوں کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور ڈاکٹر بتا رہے تھے کہ ان سب کی آنکھیں پیلٹ گنوں کے برسائے ہوئے کارتوسوں سے مکمل طور پر ضائع ہو چکی ہیں اور اب وہ زندگی بھر کیلئے آنکھوں کی روشنی سے محروم ہو چکے ہیں۔ شدید غصے اور غم سے فرحان کی آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑیاں بہنے لگیں‘ وہ سوچنے لگا کہ ان سب کا قصور کیا تھا؟ کیا ان کے پاس اسلحہ تھا؟ کیا یہ بھارتی فوج پر فائرنگ کر رہے تھے؟کیا یہ دہشت گرد تھے؟کیا اس کا دوست مسعود اور دوسرے ہم جماعت اب کبھی نہیں دیکھ سکیں گے؟ وہ ان کے ساتھ کبھی کھیل نہیں سکے گا؟ 
اس کا جسم غصے اور انتقام کی آگ سے شعلہ بن کر لال انگارہ ہوتا گیا۔ ایک صبح وہ مسجد گیا اور پھر واپس نہ آیا کوئی پندرہ دنوں بعد پولیس نے اس کے والدین سے پوچھ گچھ کرتے ہوئے بتایا کہ آپ کا بیٹا فرحان حزب المجاہدین میں شامل ہو چکا ہے اور وہ ہمیں زندہ یا مردہ مطلوب ہے اور پھر ایک شام بارڈر سکیورٹی فورس کی گاڑی میں فرحان کی لاش اس پیغام کے ساتھ واپس آئی کہ اسے لارنو کے علا قے کوکر ناگ پولیس سے مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا ہے ؟
کپواڑہ کا رہائشی ریسرچ سکالر منان وانی جو علی گڑھ یونیورسٹی سے اپلائیڈ جیالوجی میں PHD کر رہا تھا۔2016 ء میں انٹر نیشنل کانفرنس میںWater, Environment, Ecology And society پر بہترین مقالہ تیار کرنے پر خصوصی ایوارڈ یافتہ تھا‘نے ایک شام منان وانی سے واٹس ایپ پر اپنے پیغام میں صرف اتنا کہا '' معصوم اور نو عمر لڑکوں کی پیلٹ گنوں سے آنکھیں چھیننے والی بھارتی فوج سے جب تک پیلٹ گن کے ایک ایک چھرے کا حساب نہیںلوں گے‘ چین سے نہیں بیٹھوں گا۔میں اس معاشرے اور سوسائٹی میں کس طرح عزت اور سکون سے رہ سکتا ہوں‘ جہاں ہر گلی میں ایک نوجوان اندھی آنکھوں سے یہی سوال کرتا نظر آئے کہ ہمارا قصور کیا تھا۔ منان مانی نے واٹس ایپ پر سوال پوچھا ''کشمیر کے علا وہ بھارت کے اندر اس کے شہری روزانہ جلوس اور مظاہرے نہیں کرتے کیا‘ ان پر بھی کبھی پیلٹ گنوں سے فائرنگ کی گئی ہے؟
وہ خبر کیا تھی ایک بم تھا‘ جس نے سب کو چونکا کر رکھ دیا کہ اننت ناگ کا 20 سالہ ماجد ارشاد خان جو مقبوضہ جموں کشمیر کا بہترین اور چوٹی کا فٹ بالر تھا‘ لشکر طیبہ میں شامل ہو گیاہے۔ مجید ارشاد خان جو اننت ناگ ڈگری کالج میں سیکنڈ ائیر میں کامرس کا طالب علم تھا ‘اسے گزشتہ ایک ماہ سے اپنے بچپن کے جگری دوست یاور نثار کی بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادت کا غم کھائے جاتا تھا۔ اس کے سامنے ہر وقت یاور نثار کا چالیس سے زائد گولیوں سے چھلنی جسم گھومتا رہتا اور جب اننت ناگ میں سکولوں اور کالجوں کے لڑکوں اور لڑکیوں کے جلوس پر پیلٹ گنوں سے بھارتی فوج نے فائرنگ شروع کی تو کشمیر کی مسلمان بیٹیوں کی چیخ و پکار اور خون میں لت پٹ جسموں کو بھارتی فوج کو ٹھڈے مارتے دیکھنے کے بعد منان وانی ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گیا ۔اس کا جسم انتقام اور آزادی کے شعلوں سے جلنے لگا اور اس کے قدم لشکر طیبہ کشمیر کی جانب بڑھنے لگے۔مغربی میڈیا سے متاثر صحافی سیرل المیڈا کو دئیے گئے میاں نواز شریف کے انٹرویو کے وہ مشہور الفاظ یاد آ رہے ہیں : جب آپ کشمیر میں مداخلت کریں گے‘ وہاں دہشت گر دبھیجیں گے‘ تو پھر وہ پاکستان میںبھی دہشت گردی کرائیں گے۔ میاں نواز شریف صاحب‘ فرحان وانی‘ منان وانی اور ماجد ارشاد خان اور ان ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘ ماہرین معاشیات کو کیا ہماری فوج تیار کر کے مقبوضہ کشمیر بھیج رہی ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved