تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     01-01-2019

سُرخیاں، متن، ریکارڈ کی درستی اور ضمیر طالب

سندھ تحریکِ انصاف کی خالہ کا گھر نہیں‘ 
جو چاہیں کرتے پھریں:رضا ربانی
سابق سینیٹ چیئرمین اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ ''سندھ تحریک انصاف کی خالہ کا گھر نہیں‘ جو چاہے کرتے پھریں‘‘ کیونکہ خالہ کا گھر ہوتا ہی اس مقصد کے لیے ہے اور ہم وہیں جا کر جو چاہتے تھے‘ کرتے رہتے تھے اور جن لوگوں کی کوئی خالہ نہیں ہوتی‘ وہ اپنی پھوپھی یا ممانی کے گھر چلے جاتے تھے‘ لیکن انہیں کچھ بھی کرنے کی اجازت نہ ملتی تھی‘ کیونکہ وہ بھی انہیں یہی کہتی تھیں کہ یہ کوئی خالہ کا گھر نہیں ہے اور اگر تمہاری کوئی خالہ نہیں ہے‘ تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے‘ اسی طرح ہماری قیادت بھی بالکل بے قصور ہے؛ حتیٰ کہ اپنی خالہ کے گھر میں بھی جا کر کچھ نہیں کرتے تھے‘ کیونکہ ایسے کام کرنے کے لیے اُنہیں باہر سے یا پھر اپنے گھر میں ہی پورا پورا موقعہ میسر تھا اور اگر موقعہ موجود ہو تو کچھ نہ کرنا‘ ویسے بھی کفرانِ نعمت کی ذیل میں آتا ہے اور نعمت اگر سامنے پڑی ہو تو اس سے استفادہ کرنے کو کس کا جی نہیں چاہتا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک اخباری نمائندے سے گفتگو کر رہے تھے۔
احتساب یکساں اور شفاف نہ ہو تو تناؤ پیدا ہوتا ہے: آفتاب شیر پاؤ
قومی وطن پارٹی کے مرکزی چیئرمین آفتاب احمد خاں شیر پاؤ نے کہا ہے کہ ''احتساب یکساں اور شفاف نہ ہو تو تناؤ پیدا ہوتا ہے‘‘ جو سیاست کے لیے بھی بہت ضروری ہے‘ کیونکہ اگر تناؤ نہیں ہوگا تو سیاستدان ویسے بھی ڈھیلا ڈھالا ہو کر ہی رہ جاتا ہے اور ڈھیلا ڈھالا سیاستدان جو سیاست کرے گا ‘وہ بھی ڈھیلی ڈھالی ہو گی اور اس کا نتیجہ بھی ڈھیلا ڈھالا ہی نکلے گا اور نتیجہ نکلنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ جیسے طالب علم امتحان دے تو اس کا نتیجہ نکلنا بھی ضروری ہوتا ہے اور اگر بُوٹی مافیا کی خدمات حاصل نہ کی گئی ہوں تو نتیجہ بھی ڈھیلا ڈھالا ہی نکلتا ہے‘ اس لیے ہر چیز کس کر رکھنی چاہیے ‘جس طرح کمر ہمت کو کسا جاتا ہے‘ بصورت ِدیگر اس کے لیے کمر کس استعمال کرنی پڑتی ہے‘ ورنہ کمر توڑ مہنگائی اپنا کام دکھا جاتی ہے‘ جبکہ کام کرنے کی نسبت کام دکھانا زیادہ نتیجہ خیز ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز نوشہرو میں ایک فوتیدگی ریفرنس کے موقعہ پر گفتگو کر رہے تھے۔
وزیراعظم دوست ملکوں سے بھیک مانگتا پھرتا ہے: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور ن لیگ کے مرکزی رہنما چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ وزیراعظم دوست ملکوں سے بھیک مانگتے پھرتے ہیں‘‘ کیونکہ بھیک تو دشمن ملکوں سے مانگنی چاہیے اور بھیک مانگ مانگ کر اُنہیں مفلوک الحال کر دینا چاہیے‘ جبکہ بہتر تھا کہ وزیراعظم سعودی عرب‘ چین اور متحدہ عرب امارات سے بھیک مانگنے کی بجائے بھارت سے بھیک مانگتے اور مودی صاحب کھل کر بھیک دیتے بھی‘ کیونکہ جب ان کے جگری دوست نواز شریف معزول اور اندر ہوئے ہیں‘ کیونکہ وہ بھی سمجھتے ہیں کہ ڈیل کے نتیجے میں وہ پھر باہر آ کر چوتھی بار وزیراعظم بن جائیں گے؛ اگرچہ وہ خود ہر جگہ شکستِ فاش سے دوچار ہو رہے ہیں ۔ آپ اگلے روز ن لیگ کے یومِ تاسیس پر گفتگو کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی درستی
برادرم نے اپنے کالم میں خوبصورت شاعر رحمن فارس کے مجموعۂ کلام ''عشق بخیر‘‘ میں سے منتخب اشعار اپنے کالم کی زینت بنائے ہیں۔ کچھ شعر غالباً ٹائپ کی غلطی سے غلط چھپے ہیں‘ مثلاً:
جب خزاں آئے تو پتے نہ ثمر بچتا ہے
خالی جھولی ہے ویران شجر بچتا ہے
اس کے دوسرے مصرع میں خالی جھولی ہے‘ کے بعد کا لفظ چھوٹ گیا ہے۔ ایک اور مصرع ہے جو بے وزن ہے ع
سارے ڈر اس ڈر سے ہیں کہ کھو جائے نہ یار
ایک اور مصرعہ بے وزن ہو گیا ہے‘ یعنی ع
صبح دیکھیں تو اتنا ہی سفر بچتا ہے
ایک اور مصرع ہے جس میں جہان کی بجائے جہاں چھپا ہے‘ جس سے وزن میں گڑ بڑ ہوئی ہے۔ اور اب آخر میں ضمیر طالب:
ہے کوئی کام پہ رکھنے والا
تجربہ عشق کا ہے خوب مجھے
چند لمحے بھی مری چُپ نہیں سُن پایا وہ
زندگی ساری میں سنتا رہا باتیں جس کی
پہلے رفتار محبت کی بڑھائی اور پھر
مجھے چلتی ہوئی گاڑی سے اُتارا اُس نے
تمام لوگ ہیں مصروفِ گفتگو سرِ بزم
یہاں کسی کا مگر ہم سخن کوئی نہیں ہے
پہلے ہم ملتے تھے باتیں کرنے کی خاطر ضمیرؔ
اور پھر خاموش رہنے کے لیے ملنے لگے
آسماں کچھ زیادہ دُور نہیں
کیونکہ میں اب زمیں پر آ گیا ہوں
جس جگہ کی تلاش تھی مجھ کو
میں بھٹک کر وہیں پر آ گیا ہوں
میں اُسے بھول چکا ہوں کب کا
روز یہ سب کو بتاتا ہوں میں
کیوں دلاتا ہے یقیں اتنا روز
تو مجھے لوٹنے والا تو نہیں؟
مجھ میں سختی بڑھی جاتی ہے ضمیرؔ
میں کہیں ٹوٹنے والا تو نہیں
یہ کام روز کا ہے جو میں کرتا ہوں
کہ اُس گلی سے میں نہیں گزرتا ہوں
آج کا مقطع
ظفرؔ میں اس کے تغافل پہ ناامید سہی
مآلِ کار مگر خوش گمانی والا ہوں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved