تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     01-01-2019

’’ونس اِن اے لائف ٹائم‘‘

دنیا لاکھ کہتی رہے کہ انسان اپنے خیالات و حالات کی پیداوار یا نتیجہ ہے‘ حقیقت یہ ہے کہ کم از کم ہمارے یعنی پاکستانیوں کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ ہم اپنے خیالات اور حالات کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے عوامل کا‘ ایک خاص حد تک‘ غیر منطقی نتیجہ ہیں۔ اس سرزمین پر جو کچھ ہوتا ہے‘ وہ دنیا کو حیران اور پریشان کرنے کے لیے انتہائی کافی ہے۔ 
ایک زمانہ تھا کہ قدرت کہ مہربانی سے اتنی بارش ہوتی تھی کہ دریا چھلک پڑتے تھے اور سیلاب میں بہت کچھ بہہ جاتا تھا۔ اب ہمیں بہا لے جانے کے لیے سیلاب کی کچھ خاص ضرورت رہی نہیں۔ ایک طرف سے حالات کے ریلے امڈے آتے ہیں اور دوسری طرف سے رسوم ہیں کہ ہمیں ڈبونے پر تُلی ہوئی ہیں۔ 
پاکستانی معاشرہ آکسیجن پر کم اور رسم و رواج پر زیادہ جیتا ہے۔ سانس لینے کے لیے درکار آکسیجن کم اور کمتر معیار کی بھی ہو تو کوئی غم نہیں۔ ایسی حالت میں بھی ہم کسی نہ کسی طور جی لیں گے‘ مگر ہاں! کسی رسم میں کوئی کمی نہیں رہنی چاہیے۔ بہت سے مسائل اور پریشانیوں کی طرح مختلف رسوم بھی‘ گوگل میپ کا سہارا لیے بغیر‘ ہمیں ڈھونڈ ہی لیتی ہیں اور وقتاً فوقتاً آ دھمکتی ہیں۔ یہ تو ہوا بن بُلائی رسوم کا معاملہ اور اُن رسوم کے بارے میں کیا کہیے گا ‘جنہیں ہم نے بخوشی گلے لگا رکھاہے! 
ایک زمانے سے ہم یہ تماشا دیکھتے آئے ہیں کہ یاروں نے گھر بسانے کے معاملے کو بھی ''لائف ٹائم ایونٹ‘‘ اور ''سپریم ایکسٹرا ویگنزا‘‘ میں تبدیل کر رکھا ہے۔ بہت سوں کے نزدیک گھر بسانا؛ چونکہ انتہائی بنیادی معاملہ ہے اور ایک بار ہی کی کہانی ہے‘ اس لیے تیاری ایسی ہو کہ دنیا دیکھتی ہی نہیں‘ سوچتی بھی رہ جائے۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے ہاں بیشتر شادیوں کے انتظامات کو ''ونس اِن اے لائف ٹائم‘‘ کے فلسفے کی روشنی میں حتمی شکل دی جاتی ہے۔ بیشتر گھروں کا معاملہ یہ ہے کہ شادی کا برسوں انتظار اور اہتمام کیا جاتا ہے۔ متوسط طبقہ تو خیر معاملات کو جھیل جاتا ہے۔ کم آمدنی والے طبقے کی حالت یہ ہے کہ ایک شادی نمٹانے کے لیے لوگ تین سال پہلے سے ''کمیٹیاں‘‘ ڈالنا شروع کرتے ہیں اور شادی کے بعد دو ڈھائی سال بعد تک بھگتان کرتے رہتے ہیں! گویا جان جاتی ہے تو جائے‘ شان و شوکت میں کوئی کسر نہ رہنے پائے۔ 
کسی بھی معیاری فلم کی کامیابی میں اہم کردار ڈرامائی عنصر کا ہوتا ہے۔ ہر وہ فلم کامیاب رہتی ہے‘ جسے دیکھتے ہوئے لوگ بار بار چونکیں اور کہانی کے ہر موڑ پر انگشت بہ دنداں رہ جائیں۔ ہمارے ہاں شادی کی تقریبات کو ڈرامائی لمحات سے سجانے کا رجحان اس طور پروان چڑھا ہے کہ اب تو لوگ فلمیں دیکھنے پر شادی کی تقریبات دیکھنے اور اُن میں شریک ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ 
کراچی اور سندھ کے بہت سے دیگر شہروں اور دیہی علاقوں میں قریشی برادری کی باراتیں بھی قابلِ دید و قابلِ داد ہوا کرتی ہیں۔ باقی معاشرہ صرف دولہا کی گاڑی کو سجاتا ہے‘ قریشی برادری کی بارات میں ہر گاڑی دولہا کی گاڑی کی طرح پھولوں اور برقی قمقموں سے یوں سجی ہوئی ہوتی ہے کہ لوگ دیکھتے رہ جاتے ہیں اور کبھی یہ بارات 35 تا 40 گاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہے! اب آپ ہی بتائیے‘ جہاں یہ سب کچھ ہو رہا ہو‘ وہاں فلموں‘ ڈراموں اور کامیڈی پلیز کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے! 
لڑکوں کی ذہنیت کچھ ایسی بنادی گئی ہے گویا نکاح کے ذریعے کسی کی بیٹی کو حاصل کرنا‘ زندگی کا حصہ بنانا ایک نئی دنیا فتح کرنے کے مترادف ہے! آج ہمارے ہاں بیشتر باراتیں جب تیار ہوکر نکلتی ہیں تو خیال آتا ہے کہ سکندرِ اعظم کی فوج کسی علاقے کو فتح کرنے کے بعد جو جشن مناتی ہوگی ‘وہ بھی شاید اس سے کمتر درجے ہی کا ہوتا ہوگا! اگر سکندرِ اعظم اور اُس کی فوج کو نئی زندگی ملے اور وہ ہمارے ہاں کی باراتیں دیکھ لیں تو جشن ِ فتح منانے کے نئے طریقے بخوشی سیکھیں! 
آئے دن ایسی اطلاعات ملتی رہتی ہیں کہ کسی نے دولہا بننے کے بعد کار میں سوار ہونا گوارا نہ کیا اور پھڑپھڑاتے ہوئے ہیلی کاپٹر کی مدد سے دلہن کے آنگن میں بھڑبھڑاتا ہوا اترا۔ ایک منچلے نے ملک کو درپیش ایک بہت مسئلے کی طرف توجہ دلانے کے لیے اپنی بارات کو خوب استعمال کیا ‘یعنی پٹرول کی بچت کے لیے گدھے پر سوار ہوکر اپنی دلہنیا کے گھر پہنچا! ہمیں نہیں معلوم کہ دلہنیا اصلی گدھے کو پہچان پائی یا نہیں! ہوسکتا ہے کہ دولہا میاں اہلِ وطن کو پٹرول کے حوالے سے باشعور کرنے کے ساتھ ساتھ گھوڑے اور گدھے کا فرق بھی سمجھانا چاہتے ہوں! 
ایک زمانے سے ہم سنتے آئے ہیں کہ رسوم کے معاملے میں بھارت کے بہت سے علاقے اور افریقا کے کئی معاشرے انتہائی عجیب اور پیچیدہ ہیں‘ مگر ہماری رائے کچھ اور ہے۔ شادی ہال کے مین گیٹ پر پہنچنے کے بعد اسٹیج پر براجمان ہونے تک دولہا کو جن رسوم کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ اگر وہ تمام رسوم افریقیوں کی نظر سے گزریں تو شاید وہ بھی شرمندہ ہوکر رہ جائیں! اس مرحلے میں ایسے ایسے اوٹ پٹانگ معاملات نمٹائے جاتے ہیں کہ دیکھ دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ انسان کس حد تک ''سوچ‘‘ سکتا ہے! 
ملتان سے خبر آئی ہے کہ ایک منچلے نے اپنی بارات کی گاڑی کو سجانے میں انتہا سے زیادہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا اور اس حقیقت پسندی کا درشن کرنے والے پہلے حیران ہوئے اور پھر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔ دولہا کی گاڑی عام طور پھولوں اور برقی قمقموں سے سجائی جاتی ہے‘ اگر یہ گاڑی بھی پھولوں اور برقی قمقموں سے سجائی گئی ہوتی تو نئی بات کیا تھی؟ ؎ 
ہوا جو تیز نظر نیم کش تو کیا حاصل؟ 
مزا تو جب ہے کہ سینے کے آر پار چلے! 
جو کچھ دنیا کرتی ہے‘ وہی اگر ملتان کا محمد صدیق بھی کرتا تو حیران کون ہوتا؟ اُس نے اپنے استاد کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے بارات کی گاڑی‘ یعنی کار کو سبزیوں سے سجالیا! لوگوں نے جب اس کار کو دیکھا تو دانتوں تلے انگلیاں داب کر رہ گئے۔ گاڑی پر کہیں لیموں چپکائے گئے‘ کہیں سلاد کے پتے۔ کہیں گوبھی کی بہار تھی تو کہیں مشروم کی۔ خیر گزری کہ بارات سے راستے سے بکریوں کا کوئی ریوڑ نہ گزرا ورنہ رخصتی سے قبل گاڑی کی آرائش و زیبائش رخصت ہو جاتی! 
مرزا تنقید بیگ کہتے ہیں کہ لوگوں کو یہ سب کچھ شغل میلہ لگ رہا ہوگا‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ کار کو سبزیوں سے سجاکر محمد صدیق نے قوم کو آنے والے وقت کے بارے میں بتایا ہے جب گلاب اور موتیا کی طرح لیموں‘ مرچیں‘ ٹنڈے‘ بھنڈی اور دیگر سبزیاں اِتنی مہنگی ہوجائیں گی کہ اُن سے صرف دولہا کی کار سجانے ہی کا کام لیا جاسکے گا۔ 
ایمان کی تو یہ ہے کہ مرزا کی بات نے تو ہمارا دل دہلا دیا۔ بہت مدت کے بعد ہم نے اُن کے منہ سے کوئی ایسی بات سُنی‘ جو مفہوم سے عاری نہ تھی! ہم نے سبزیوں سے گاڑی کو آراستہ کرنے کی خبر سے محظوظ ہوتے وقت اس پہلو پر تو غور ہی نہیں کیا تھا۔ محمد صدیق کی futuristic approach کو ہم سلام کرتے ہیں۔ قوم کو ایسے ہی دولہا درکار ہیں ‘جو اپنے ذاتی معاملات کو بھی مستقبل کی جھلک دکھلانے کے لیے بروئے کار لائیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved