تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     01-01-2019

taken for granted

ناصر افتخار صاحب واپس چیچہ وطنی جا چکے ہیں ۔ ان سے دس روزہ ملاقاتوں میں بہت کچھ بدل چکا ہے اور شاید بہت کچھ بدلنے والا ہے ۔ 
کبھی کبھی انسان کا دل چاہتا ہے کہ وہ عجائبات دیکھے ۔ یہ عجائبات ہمارے اپنے جسم میں موجود ہیں ۔ جو چیز دیکھنے میں بری لگتی ہے ‘ اس میں ضروری نہیں کہ میٹریل کم لگا ہو ۔ اکثر بدزیب عمارتوں میں ضرورت سے زیادہ میٹریل استعمال ہوتاہے ۔ اتنی ہی اینٹیں ‘ سیمنٹ ‘ سریا‘ ٹائلیں ‘ لکڑی اور ہر چیز ۔ خوبصورت عمارتوں کے معمار تو خوشی سے اپنی تعمیرات لوگوں کو دکھاتے ہیں ۔ ''آپ نے ایک بہت بدصورت عمارت تعمیر کی‘‘ یہ کوئی بھی نہیں سننا چاہتا ۔ 
گاڑیاں ڈیزائن کرنے والے انجینئرز بھی ‘حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کہ وہ خوبصورت نظر آئیں ۔ اس مقصد کے لیے انہیں بمپرجیسے پرزے استعمال کرنا پڑتے ہیں ‘ جن کا مقصد بدصورتی کو چھپاناہوتا ہے ۔ انہیں اتار دیں تو گاڑی بد صورت نظر آنے لگتی ہے ۔ 
انسان کو چاہئے کہ کبھی اپنے جسم کا جائزہ لے ۔ اس جسم میں اس قدر خوبصورتی ہے کہ جو ہمارے وہم و گمان سے بھی باہر ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان شروع سے ایک دوسرے کو دیکھتا رہا ہے اور خوبصورت چہرے دیکھ کر اسے حیرت نہیں ہوتی ۔ کسی بھی چیز کی کثرت (Abundance)اسے غیر دلچسپ بنا دیتی ہے ۔ زمین کی کششِ ثقل سے پیدائشی طور پر ہمیں واسطہ ہے ۔ اس لیے یہ بات ہمیں عجیب نہیں لگتی کہ شاخ سے الگ ہونے والا پھل نیچے زمین پہ کیوں جا گرتا ہے‘ بلکہ اگر ہاتھ سے چھوٹنے والی چیز نیچے نہ گرے تو عجیب لگتا ہے ۔ اسی طرح عورت کے بچہ پیدا کرنے پہ ہمیں حیرت نہیں ہوتی ؛حالانکہ انسان یا کسی جاندار کے جسم میں اس طرح کی لیبارٹری موجود ہونا‘ جس میں ایک نیا جاندار تخلیق کیا جا سکے‘ ماں کے پیٹ میں بچّے کے اعضا کی تخلیق انتہائی حد تک حیرت انگیز چیز ہے۔پہلے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی یعنی سینٹرل نروس سسٹم بنتا ہے ‘ پھر اس کے بعد پورے جسم کی ہڈیاں ‘ گوشت ‘ نروز ‘ خون کی نالیاں ‘ جلد‘ ناخن اور بال ۔
ہم ان سب چیزوں کو for grantedلیتے ہیں ؛حالانکہ ان کے پیچھے بہت گہری ڈیزائننگ موجود ہے۔ چہرے کی ایک ایک ہڈی باقاعدہ ڈیزائن کی گئی ہے۔ ان کی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ جلد چڑھنے کے بعد چہرہ خوبصورت لگے ۔ اگر کسی ڈ س آرڈر کی وجہ سے چہرے کی مختلف ہڈیاں missingیا مڑی تڑی ہوں‘ تو صورت اس قدر بھیانک ہو جاتی ہے کہ جو بیان سے باہر ہے ۔ 
جسم کے مختلف اعضا ‘ جیسا کہ آنکھوں میں بہت گہری ڈیزائننگ موجود ہے ۔ ہر عضو کی ایک جگہ ہے ۔ اکثر اعضا کے لیے ایک خانہ (Cavity)ہوتی ہے ‘ جس میں اسے نصب کیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ کھوپڑی میں آنکھوں کے لیے سوراخ موجود ہیں ۔ کان‘ ناک اور گلے میں نالیاں موجود ہیں ‘ جو اندر ہی اندر ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں ۔ ان کے سائز بھی ایک دوسرے کو مدّنظر رکھ کرتشکیل دیے گئے ہیں ۔
ناصر افتخار صاحب نے ایک کمال بات کہی۔ کہتے ہیں کہ انسان بظاہر با اختیار ہے۔ وہ اپنے ہاتھ کو اٹھائے یا نہ اٹھائے‘ اس کی مرضی۔ آنکھ کھولے یا نہ کھولے‘ درخت پہ چڑھے یا نہ چڑھے۔دوسری طرف آپ اپنے جسم کے اندر جا کر دیکھیں ‘ یہ اختیار بخارات بن کے اڑ جاتا ہے ۔ دل نے دھڑکنا ہی دھڑکنا ہے ‘ آپ چاہیں یا نہ چاہیں ۔ کان کے پردے پر توازن کا نظام کام کر ر ہا ہے ۔ آواز کو کان نے دماغ تک ہر صورت بھیج دینا ہے ۔ چاہے‘ آپ اس شخص کی بات سننا چاہیں یا نہیں ۔ اسی طرح دماغ سے پھیپھڑوں ‘ گردوں اور معدے کو اپنا کام جاری رکھنے کی ہدایات ساری زندگی مستقل طور پر ملتی رہتی ہیں ۔ آپ ان میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کر سکتے ۔ واحد اختیار جو انسان کو دیا گیا ہے ‘ وہ آنتوں پر ہے‘ تاکہ وہ اپنے لباس کی صفائی کا خیال رکھ سکے ۔بول و براز سے انہیں خراب نہ کر دے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جب موبائل فون میں ٹچ سسٹم آیا تھا تو ہم لوگ کتنے خوش اور حیران ہوئے تھے۔ اس ٹچ سسٹم تک پہنچنے میں انسان کو پچاس ہزار سال لگے ہیں ۔ مطلب ‘ جب سے اس نے ایجادات شروع کیں ‘ اس کے بعد پچاس ہزار سال‘ لیکن ہمارا مکمل جسم touch systemپر چل رہا ہے ۔سر سے لے کر پائوں تک ہر جگہ جلد میں touchکا احساس موجود ہے ۔ اس کے لیے پورے جسم میں تاروں (Nerves)کی وائرنگ کی گئی ہے ۔ یہ اس لیے کہ انسان پورے جسم کاخیال رکھے۔ کہیں بھی کوئی چیز اسے نقصان پہنچائے تو انسان اس تکلیف والی چیز سے اپنی حفاظت کرے۔ 
یہ Nervesاگر نہ ہوتیں تو انسان کو کسی بھی چیز سے کوئی بھی تکلیف نہ ہوتی ۔ چاہے ‘اسے آرے سے دو ٹکڑے کر دیا جاتا؛ اگر تکلیف کا احساس نہ ہوتا تو انسان کبھی اپنے جسم کا خیال نہ رکھتا ۔ خون بہتا رہتا اور یہ سستی سے لیٹا رہتا اور حتیٰ کہ چلتے چلتے گر کے مر جاتا ۔ اسی طرح بھوک کا احساس بھی انہی تاروں سے دماغ تک جاتا ہے ؛ اگر بھوک کے اس احساس کو ان نروز کے ذریعے دماغ تک پہنچانے کا بندوبست نہ ہوتا تو جانداروں کو بھوک محسوس ہی نہ ہوتی ‘ پھر انہیں خورا ک کی ضرورت اسی وقت محسوس ہوتی ‘ جب خوراک کی کمی سے بلڈ پریشر گر جاتا ‘لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بھوک کا احساس نہ ہو تو بندہ کھا بھی نہیں سکتا‘ لاکھ اسے ضرورت ہو ‘ پھر خورا ک کو lubricateکرنے کے لیے منہ میں لعاب اور خوراک کی نالی سے معدے تک کے راستے کو نم رکھا گیا ہے ۔ خورا ک کی نالی کے مسلز کمزور ہو جائیں تو بندہ خوراک نگل نہیں سکتا ۔
اسی طرح بال بہت حیرت کی چیز ہیں ۔ یہ اگتے رہتے ہیں ۔ بال چہرے کو بدل ڈالتے ہیں ۔ ہڈیوں کے ایک ایک جوڑ میں باریکیوں میں ڈیزائننگ کی گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اٹھنے بیٹھنے‘ لیٹنے اور دوڑنے میں تکلیف محسوس نہیں ہوتی ۔ سخت ہڈیاں ‘ جو کہ جسم کی حفاظت کرتی ہیں ۔ ان کے اوپر گوشت کے مسلز ‘ گوشت کے ان مسلز سے گزرتی ہوئی نروز ‘ یہ سب وہ چیزیں ہیں ‘ جن کے ایک حیرت انگیز باہمی توازن سے ہم اپنے 37ٹرلین خلیات والے جسم کو زندہ رکھتے اور اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں ۔ 
خون ان عجوبوں میں سے ایک عجوبہ ہے ۔ اس خون کی صورت میں مائع پانی پورے جسم میں دوڑ تا پھرتا ہے ۔ اس خون کے ذریعے خوراک پورے جسم کے ایک ایک خلیے تک پوری ذمہ داری کے ساتھ پہنچائی جاتی ہے ۔ یہ خون جب پھیپھڑوں سے گزرتا ہے‘ تو وہ آکسیجن حاصل کرتاہے ‘ جس پہ ہمارا پورا جسم چل رہا ہے ۔ یہی خون گردوں سے گزرتا ہے‘ وہاں اسے فلٹر کر کے زائد مادے جسم سے آنتوں کے ذریعے نکال دئیے جاتے ہیں ؛ اگر آپ جسم کے اندر دیکھ سکیں‘ تو گلے سے لے کر ٹانگوں تک ‘ یہ پورا نظامِ انہضام جسم میں پھیلا ہوا ہے اور یہ کافی وزنی ہوتا ہے ۔ 
آپ کے جسم میں ہر طرف ڈیزائننگ ہی ڈیزائننگ ہے ‘ پھر اس میں جلد اور بال ہیں ‘جو خوبصورتی پیدا کرتے ہیں ۔ اس میں ہڈیاں اور کھوپڑی ہے ‘ جو نازک اعضا کی حفاظت کرتے ہے ‘لیکن ہمیں توپیدائشی طور پر یہ سب کچھ ملا ہوا ہے ۔ اس لیے ہم اس کی قدر نہیں کرتے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved