تماشے ہیں کہ ختم نہیں ہوتے۔ رونق میلہ سیلاب کے مانند ہے۔ شروع ہوتا ہے تو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ بارش کا موسم سال میں ایک بار آتا ہے اور سیلاب لاتا ہے۔ سیلاب آکر، چند بڑوں کو امداد کی مد میں آئے ہوئے کروڑوں بلکہ اربوں روپے کمانے کا موقع فراہم کرکے اور غریبوں کے ارمانوں کی زمین پر مزید خشک سالی پھیلاکر، گزر جاتا ہے مگر تماشوں کا سیلاب ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ اِن ریلوں نے قوم کی نفسیات کو سیم اور تھور کے مسئلے سے دوچار کردیا ہے! الیکشن آیا ہے تو بہتوں کے بھاگ جاگ اُٹھے ہیں۔ گویا الیکشن نہ ہوا، چھینکا ہوا جو بلّیوں کے بھاگوں ٹوٹا ہے! ہر انتخابی مرحلہ قوم کو مست الست رکھنے کا ذریعہ ثابت ہو رہا ہے۔ جنہیں یقین ہو چلا ہو کہ بہتر زندگی بسر کرنا اب ممکن نہیں وہ ہر معاملے میں دل بستگی کا پہلو تلاش کرتے ہیں۔ مِل جائے تو ٹھیک ورنہ تراش لیتے ہیں! انتخابات کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہر مرحلہ سُپر اسٹور کی طرح ہے جس میں سب کو اپنی مرضی کا مال مِل کر ہی رہتا ہے۔ اب ٹکٹوں کی تقسیم ہی کا معاملہ لیجیے۔ اِس ایک تماشے نے پُھول کِھلنے کے موسم میں غضب کے گل کِھلائے ہیں! سیاسی جماعتیں عجیب مخمصے میں ہیں۔ ٹکٹوں کی تقسیم نے جانے کِتنوں کا پَتّہ کاٹ دیا اور ٹکٹ کٹوا دیا ہے۔ جو سیاسی جماعتیں الیکشن کے شیڈول کا اعلان ہونے سے بہت پہلے ٹکٹ الاٹ کردیا کرتی تھیں وہ اِس بار کاغذاتِ نامزدگی منظور ہو جانے کے بعد بھی طے نہیں کر پا رہیں کہ کون اپنا ہے اور کون بیگانہ! مقطع کِس نے دیکھا ہے، یہاں تو مطلع ہی میں سُخن گسترانہ بات آ پڑی ہے! کِسی زمانے میں پی ٹی وی ایوارڈز کی تقریب کے دعوت نامے نصیب والوں کو ملا کرتے تھے۔ ضمیرؔ جعفری مرحوم نے کہا تھا ؎ شہر میں بٹنا ٹی وی تقریب کے دعوت ناموں کا منظر تھا راشن ڈپو پر پبلک کے ہنگاموں کا! اب کے الیکشن ٹکٹوں کی تقسیم نے بھی کچھ ایسا ہی منظر پیدا کیا۔ ٹکٹ بانٹنے کے معاملے نے پیپلز پارٹی، ن لیگ اور تحریکِ انصاف کو یکساں پریشان اور ہراساں کیا ہے۔ ایک طرف پارٹی قیادت کا دِماغ گھوما ہوا ہے اور دوسری طرف متوقع امیدوار پریشان ہیں کہ وفاداری کے معاملے میں حتمی فیصلہ کِس کے حق میں کریں۔ مکلی کے قبرستان والا ضلع ٹھٹھہ پیپلز پارٹی کی اُمیدوں کا مرگھٹ ثابت ہونے پر تُلا ہوا ہے۔ ن لیگ اور تحریکِ انصاف بھی پریشان ہیں کہ ٹکٹوں کی تقسیم کے اسٹیشن سے اپنی ٹرین کو بحفاظت کِس طرح آگے بڑھائیں۔ کئی ہیں جو رُوٹھ کر بیٹھ گئے ہیں۔ بعض نے تو ٹکٹ بھی واپس کردیئے۔ اور یہ بھی نہیں بتایا کہ ٹکٹ کے ساتھ وہ اور کیا چاہتے تھے یا چاہتے ہیں! ٹکٹ نہ ملنے پر کوئی کھمبے پر چڑھ گیا، کِسی نے کنپٹی پر گولی چلانے کی دھمکی دے ڈالی۔ میڈیا والوں کو تو لوگوں کی پریشانی سے محظوظ ہونے اور قوم کو محظوظ ہونے کا موقع فراہم کرنے کا بہانہ چاہیے۔ کوئی بے چارا ٹکٹ نہ ملنے پر احتجاجاً کھمبے پر چڑھا اور ڈی ایس این جی پہنچ گئی لائیو کوریج کے لیے! ایک کیس میں تو یہ بھی ہوا کہ بندہ کھمبے پر چڑھا۔ اور پھر انتظار ہی کرتا رہا کہ کوئی اُتارے یا اُترنے کو کہے۔ مگر لوگوں کو محظوظ ہونے سے فُرصت مِلتی تو اُسے اُتارنے کا سوچتے یا اُترنے کو کہتے! مایوس ہوکر بے چارا خود کو سَچّا پاکستانی ثابت کرتے ہوئے نیچے اُتر آیا! جب بھی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے ٹکٹ فائنل کرنے کے لیے اجلاس کیا، ہنگامہ برپا ہوا۔ پارٹی کارکنوں ہی نے ایسی کیفیت پیدا کردی کہ ع تماشا ختم ہو جائے ہمارا، پھر چلے جانا! پارلیمانی بورڈ جب ٹکٹ الاٹ کرنے بیٹھے تو سب دِل تھام کر بیٹھے۔ اور جب ٹکٹ کا اعلان ہوا تو عجیب ہی کیفیت دِکھائی دی۔ کِسی کی حالت ’’دِل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے‘‘ والی تھی اور کِسی کا دِل خوشی سے باغ باغ ہوگیا۔ ع کوئی جل گیا اور کِسی نے دُعا دی! جن کے دامن میں ٹکٹ کا پُھول کِھلا وہ لپک کر میڈیا سے بَتیانے لگے۔ اور جن کی مُراد بر آنے سے رہ گئی وہ مُنہ پھیر کر، دامن جھاڑ کر چل دیئے۔ ع اپنی بَلا سے بُوم بسے یا ہُما رہے! تاریک راہوں میں وہ مارے گئے جو کشتیاں جلاکر آئے تھے۔ آگے کچھ دِکھائی نہیں دیتا اور پَلٹنے کی گنجائش نہیں۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ یعنی خُدا بھی نہ ملا اور صنم سے وصال کا آسرا بھی گیا! ایسے میں چند ایک ذہین ہیں جو اب تک بچ بچاکر چل رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی تحریکِ انصاف کے وائس چیئرمین ہونے کے باوجود ایک حلقے سے آزاد اُمیدوار ہیں۔ گویا پارٹی کچھ کرنے کے قابل نکلی تو ٹھیک ورنہ بوریا بستر اٹھاکر کِسی بڑی پارٹی میں ڈیرا ڈال لیا جائے گا! مخدوم کو تو خدمت کرانے سے غرض ہے۔ یہ کرے یا وہ کرے! ٹکٹوں کی تقسیم ایسا سِتم ظریف معاملہ ہے کہ بندہ عدلیہ سے از خود نوٹس لینے کی فرمائش کرسکتا ہے نہ الیکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے۔ رہ گئے الیکٹرانک میڈیا والے تو وہ حاضر ہیں۔ اُنہیں تو ایسے مواقع کی تلاش رہتی ہے جن میں بی جمالو کا کردار پوری سہولت، آسانی اور روانی سے ادا کیا جاسکے! اگر پارٹی نے کِسی کو نظر انداز کردیا ہے تو ہرگز مایوس نہ ہو، میڈیا والے نظر انداز نہیں کریں گے! اُس کی دُکھ بھری کہانی تمام ضروری وژوئل اور میوزیکل ٹچز کے ساتھ پیش کی جائے گی۔ قوم کو ہر ’’المیے‘‘ سے باخبر رکھنا آخر کو میڈیا کی ذمہ داری ہے! حالات کو بس اِتنا کرنا ہے کہ کِسی بندر نُما معاملے کو آگے کردے، کوریج کی ڈگڈگی حاضر ہے۔ یہ ڈگڈگی بج رہی ہے، بجتی رہے گی۔ چینلز کا معاملہ تو یہ ہے کہ جو آئے، آئے کہ ہم دِل کشادہ رکھتے ہیں! بتانے والے بتاتے ہیں کہ کئی ایسے بھی ہیں جو ٹکٹ نہ ملنے پر سُکون کا سانس لیتے اور شکرانے کا سجدہ کرتے پائے گئے کہ آبرو بچ گئی! الیکشن لڑتے اور ہارتے تو پَلّے کیا رہ جاتا؟ ٹکٹ سے محروم رہ کر میڈیا پر جلی کٹی باتیں سُنانے کا جو موقع ملا اُسے اُنہوں نے بونس جانا! کئی سیاسی جماعتوں نے بیشتر دیرینہ کارکنوں کو ایسے بونس دینے ہی پر تو اکتفا کیا ہے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved