غصہ، ماضی کو کوسنے دیے چلے جانا اور غیر متعین راستوں پر دوڑتے بھاگتے ہانپ جانا، ان تین عناصر کے سوا اب تک تحریک انصاف کی حکومت نے کیا دکھایا ہے؟ یہ سوال عمران خان کے چاہنے والوں سے پوچھو تو جواباً غصے سے کانپنے لگتے ہیں، بُرا بھلا کہنے لگتے ہیں اور پھر ہانپنے لگتے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ لڑکوں کا انبوہ مسلّط ہو گیا ہے جو تنظیم سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ منزل سے بھی نا آشنا ہے۔ ٹولیاں بنا بنا کر کبھی کسی کی دستار اچھالتے ہیں‘ اور کبھی یونہی چھلانگیں لگا لگا کر داد کی توقع کرنے لگتے ہیں۔ کہتے ہیں جس کے ہاتھ میں ہتھوڑ ا ہو اس کے لیے ہر مسئلہ کیل کی مانند ہوتا ہے ۔ نادانوں کے اس گروہ میں ہر ایک ہتھوڑا بدست فقط ضربیں لگائے جاتا ہے، یہ نہیں جانتا کہ نشانے پر کوئی کیل ہے یا اپنی انگلی۔ گزرے ہوئے ساڑھے چار مہینوں میں ان لوگوں نے ہر اس شخص کو مایوس کیا ہے جس نے ان کی کشتی حکومت کے گھاٹ تک لانے میں مدد کی ہے۔ ہر ادارہ ان سے تنگ، ہر اتحادی ان سے جلا ہوا، ہر افسر ان کی نا سمجھی کا شاکی بے شمار چاہنے والے دانتوں میں انگلیاں دابے سوچ رہے ہیں کہ یہ تھی وہ تبدیلی جس کے خواب دیکھتے ہوئے انہوں نے عمران خان کو ووٹ دیے تھے۔ ہر بات پر کہتے ہیں: وقت دے دیں۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ وقت ہی تو ہے جو ضائع کرتے چلے جاتے ہو اور چار مہینے بعد بھی اتنا نہیں جانتے کہ جانا کس طرف ہے۔ ان کی بے معنی تگ و دو کو دیکھ کر اب یہ دل چاہتا ہے کہ انہیں پکار پکار کر کہا جائے کہ کچھ تو کرو۔
اس حکومت کے وزیروں مشیروں کی مبلغ عقل کا حاصل یہ ہے کہ احتساب کرنے والا کوئی ہے، جس کا ہو رہا ہے وہ کوئی اور ہے اور جہاں سے فیصلے ہو رہے ہیں وہاں ان کا لینا دینا کچھ نہیں‘ مگر یہ لوگ اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش میں احتساب کے پورے عمل کو ہی مشکوک بنا ڈالتے ہیں۔ انہیں یہ علم ہی نہیں کہ احتساب کی یہ روش ملکی معیشت کو ڈبو رہی ہے۔ ہر شخص معیشت کی طرف توجہ دلا رہا ہے اور یہ احتساب احتساب کھیل رہے ہیں۔ نواز شریف کے خلاف عدالت کا فیصلہ آئے یا آصف علی زرداری کے خلاف تفتیش کار کوئی نکتہ تلاش کر لائیں، ان کے بھنگڑے سے لوگ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ آخر احتساب کے ہر مقدمے کا فائدہ تحریک انصاف کو ہی کیوں جاتا ہے۔ ان کے شور شرابے سے احتساب کے عمل پر تو جو حرف آتا ہے سو آتا ہے، لوگ دوسرے اداروں کے بارے میں دریدہ دہنی سے بھی باز نہیں آتے۔
ہر مخالف پر کوئی مقدمہ بننے پر جھومر ڈالنے والے انہی لوگوں نے (سرِ دست) یک طرفہ تفتیش کی بنیاد پر سندھ حکومت گرانے کا خواب دیکھ لیا‘ اور اس کی تعبیر تلاش کرنے چل پڑے۔ کچھ لوگ‘ جنہیں قدرت کی ستم ظریفی نے اس ملک کے معاملات کا نگران بنا دیا ہے، پیپلز پارٹی کو للکارنے لگے۔ انہی جیسوں کے مشورے ہوں گے کہ وفاقی کابینہ نے ہر اس شخص کے ملک چھوڑنے پر پابندی لگا دی‘ جسے تفتیش کاروں نے یک طرفہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے معاملے میں ملوث پایا تھا۔ حد یہ ہے کہ وفاقی کابینہ میں کوئی ایک بھی ایسا نہ ہوا‘ جو بتاتا کہ آصف علی زرداری اور فریال تالپور تو پہلے ہی اپنے پاسپورٹ عدالت میں جمع کرا چکے ہیں‘ اور رہ گیا بلاول تو وہ کیا اس ملک سے دوڑے گا، جہاں اس کے نانا نے جانتے بوجھتے پھانسی کا پھندا گلے میں ڈال لیا تھا، جہاں اس کی ماں مرنے کے لیے چلی آئی تھی، جہاں اس کے باپ نے گیارہ برس جیل کاٹی۔ انجام اس قصے کا یہ ہوا کہ اب ساری تحریک انصاف شکست کھا کر دھول میں پڑی ہے۔ فواد چودھری صاحب‘ جو کراچی اس لیے بھیجے جا رہے تھے کہ سندھ حکومت کو بحیرۂ عرب میں ڈبو آئیں، منمنا منمنا کر ٹیلی ویژن پر بیٹھے وزیر اعلیٰ سندھ سے استعفیٰ طلب کر رہے ہیں۔ شہریار آفریدی‘ جو آگے بڑھ بڑھ کر زرداری ، بلاول اور مراد علی شاہ کے نام ای سی ایل میں شامل کرا رہے تھے، سپریم کورٹ پہنچے تو معافی تلافی کے سوا کوئی قانونی جواز ہی پیش نہ کر سکے۔ سنا ہے کسی صاحبِ عقل نے تحریک انصاف کے سیانوں کو سمجھایا تھا کہ سندھ کی حکومت گرانے سے پہلے تحریک انصاف خود وفاق اور پنجاب میں حکومت سے محروم ہو جائے گی۔
مضبوط بلدیاتی نظام کے نعرے کی بھی سن لیں۔ بڑی دھوم دھام سے پنجاب میں جو نیا بلدیاتی نظام لانے کی تیاریاں جاری تھیں وہ سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کے مشورے کے بعد رک گئی ہیں۔ انہوں نے سمجھایا کہ حکومت نے اب تک جو کارنامے دکھائے ہیں، ان کی بنیاد پر بلدیاتی الیکشن میں جانا سیاسی خود کُشی ہو گا اور چار پانچ ضلعوں کے سوا پنجاب بھر میں ن لیگ الیکشن آرام سے جیت جائے گی۔ یہ سُن کر پنجاب حکومت کے تو اوسان ہی خطا ہو گئے۔ بھاگم بھاگ ادھر ادھر رابطے کیے تو تین اضلاع کی ضلع کونسلوں کے چیئر مینوں نے تحریک انصاف میں شمولیت کی ہامی بھری مگر شرط یہ رکھی موجودہ بلدیاتی اداروں کی مدت پوری ہونے سے پہلے انہیں نہیں توڑا جائے گا۔ یہ شرط منظور کر لی گئی اور یہ تین لوگ اپنے ساتھ دس مزید لے آئے۔ ان لوگوں نے پنجاب کے وزیر بلدیات کے ساتھ تصویر بنوائی اور اپنے اپنے گھروں کو ہو لیے۔ گویا اب یہ تو طے ہے کہ بلدیاتی قانون جو بھی بنے اس پر عمل درآمد آئندہ دو سال نہیں ہونے کا۔ چلیے نئے بلدیاتی نظام کو بھول جاتے ہیں لیکن موجودہ بلدیاتی اداروں کو رقم کی فراہمی کیسے ہو گی، اس پر سب خاموش ہیں۔ ضلع کونسلیں، میونسپل کارپوریشنیں، میونسپل کمیٹیاں حتیٰ کہ یونین کونسلیں تک پیسے نہ ملنے کی وجہ سے سسک رہی ہیں۔ کہیں پر کوئی کام نہیں ہو رہا اور وجہ صرف یہ کہ تحریک انصاف کے فلسفۂ جمہوریت کے مطابق ن لیگ والوں پر مشتمل بلدیاتی ادارے مضبوط نہیں کیے جا سکتے۔ گویا پنجاب کے عوام کو اس بات کی سزا دی جا رہی ہے کہ انہوں نے بلدیاتی انتخابات میں ن لیگ کو ووٹ کیوں دیا تھا۔ یہ ہے ہمارے نئے پاکستان میں تبدیلی سرکار کی جمہوریت اور بلدیاتی اداروں سے وابستگی کی حالت!
عام طور پر کسی حکومت کے بارے میں اچھائی یا برائی کا فیصلہ کرتے ہوئے تین برس لگتے ہیں۔ دو ہزار آٹھ سے تیرہ تک پیپلز پارٹی کی حکومت سے پہلے تین سال تک یہ توقع برقرار تھی کہ شاید اب یہ کچھ کر لے، مگر تیسرے سال کے آخر میں اس کا فیصلہ ہو گیا اور حکومت عملی طور پر ختم ہو گئی۔ بقیہ دو سال اس نے اس لیے گزارے کہ کوئی اسے گرانا نہیں چاہتا تھا۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کا کوئی شخص کسی بڑے منصوبے کی بات کرتا تھا تو سننے والے ہنسنے لگتے تھے۔ دو ہزار تیرہ سے اٹھارہ تک ن لیگ کی حکومت نے آخری دن تک کیسے بھی کیا‘ لیکن اپنا یہ تاثر برقرار رکھا تھا وہ کچھ کر سکتی ہے اور اسی تاثر کے وجہ سے وہ نا مساعد حالات میں بھی تقریباً تحریک انصاف جتنے ہی ووٹ لے گئی۔ تحریک انصاف نے چونکہ توقعات اور امیدوں کے مینار کھڑے کر دیے تھے، پھر خود ہی سو دنوں کا پیمانہ مقرر کر کے عوام کو مایوس کر دیا، اس لیے اس کے پاس وقت بھی کم ہے۔ دو ہزار انیس کے آخر تک اس کے پاس موقع ہے کہ کچھ کر دکھائے۔ اس عرصے میں کچھ نہ ہوا تو اس کا حال وہی ہو جائے گا‘ جو پیپلز پارٹی کا ہوا تھا، یعنی جتنا بھی جیے گی سسک سسک کر جیے گی۔
تحریک انصاف والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں وقت بدل رہا ہے۔ اب یہاں چالاکیاں کر کے حکومت بنائی تو جا سکتی ہے، چلائی نہیں جا سکتی۔ یہ دو ہزار انیس ہے، اس میں بہت کچھ بدلنے والا ہے۔ یہ سال تحریک انصاف کے لیے پہلا بھی ہو سکتا ہے اور آخری بھی۔