تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     02-01-2019

’’آج‘‘…104 شائع ہوگیا

کراچی سے اجمل کمال کی ادارت میں شائع ہونیوالے جریدے ''آج‘‘ کا 104 واں شمارہ شائع ہوگیا ہے۔ اس کا شمار ملک بھر سے شائع ہونیوالے عمدہ اور معیاری ترین جریدوں میں ہوتا ہے‘ بلکہ سب سے آگے نکلتا ہوا۔ تازہ شمارہ محمد عمر میمن کی یاد میں ہے۔ آغاز حسن بلاسم کی کہانیوں سے کیا گیا ہے ‘یعنی ''لاش کی نمائش اور دیگر عراقی کہانیاں‘‘ جن کا انگریزی سے ترجمہ ارجمند آراء نے کیا ہے ۔اس کے بعد ہندی شاعر کنور نارائن کی نظمیں ہیں ‘جن کا ترجمہ خود اجمل کمال نے کیا ہے ۔اس کے علاوہ جیم عباس‘ ظہیر عباس اور اسلم پرویز کی کہانیاں ہیں۔ مضامین میں محمد نعیم کے قلم سے ''محمدی بیگم‘ ایک شعلہ مستعجل اور جادو نگار مسٹر رینارڈس اور اُردو نثری فکشن کا ارتقائ‘‘ ہیں ‘جن کا ترجمہ بھی ارجمند آراء نے کیا ہے۔ نظموں میں عارفہ شہزاد اور ادریس بابر ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پرچے میں غزلوں کا گزر نہیں‘ تاہم اس کی تلافی ہمیشہ عمدہ نظمیں کرتی آئی ہیں۔ پہلے عارفہ شہزاد کی یہ نظم دیکھیے:
جرم آنکھوں کے
عکس نیلے نہیں/ عکس رنگین ہیں/ جرم آنکھوں کے کب اتنے سنگین ہیں/ پردہ عکس سے ایک نیلا تموج جو بہنے لگے/ کون سے راز کہنے لگے؟/ خشک ہوتے گلے میں کیا گھلنے لگے/ دل کی ہر ایک دھڑکن سماعت ہے/ جسم کا رواں رواں بصارت میں کیسے ڈھلے/ شہد آگیں زبانیں ہیں ‘متلاشی کن ذائقوں کی/ رگیں ساری کھنچنے لگیں/ انگلیاں جستجو پر ہیں‘ آمادہ.../ ہاتھ آسودگی کا پتا کرنے پائیں/ تو سب عکس بے سود ہیں!/ آخری منزلوں ہی سے پہلے مسافر/ جو تھک جاتے ہیں/ عکس جم جاتے ہیں/خار بن کر جو/ چبنے لگیں ‘عکس آنکھوں میں تو... پردہ عکس کو نوچیے/ کوسیے اس گھڑی کو/ بسر ہوگئی‘ جو گناہِ بے لذت کو/ چکھتے ہوئے/ اگلی شب بکتے جھکتے ہوئے/ پھر نئی آس پر/ نیلے عکسوں کا جادو جگا دیکھیے/ ہوسکے تو یہ عادت چھڑا دیکھیے!
اور اب کنور نارائن کی دو نظمیں:
تیونیشیا کا کنواں
تیونیشیا میں ایک کنواں ہے/ کہتے ہیں اس کا پانی/ دھرتی کے اندر ہی اندر/ اس پوتر کنویں سے جڑا ہے/ جو مکہ میں ہے/ میں نے تو یہ بھی سنا ہے/ کہ دھرتی کے اندر ہی اندر/ ہر کنویں کا پانی/ ہر کنویں سے جڑا ہے۔
تاریخی فاصلے
اچھی طرح یاد ہے/ تب تیرہ دن لگتے تھے‘ ٹرین سے/ سائبیریا کے میدانوں کو پار کر کے/ ماسکو سے بیجنگ تک پہنچنے میں/ اب صرف سات دن لگتے ہیں/ اسی فاصلے کو طے کرنے میں.../ ہوائی جہاز سے سات گھنٹے بھی نہیں لگتے/ پرانے زمانے میں برسوں لگتے تھے/ اسی دوری کو طے کرنے میں/ صدیوں کا جغرافیہ نہیں/ ان کا سمے بدلتا ہے/ کتنا تاریخی لگتا ہے‘ آج/ تجھ سے ملنا اس دن۔
اس پرچے کی خاص الخاص چیز ادریس بابر کی 36 مختصر نظمیں ہیں۔ ہر نظم دس مصرعوں پر مشتمل ہے‘ اسی لئے وہ اسے عشرہ کہتے ہیں۔ کچھ عشرے دیکھیے:
ع نالی وڈ
ہمارے ہیرو کا نام تاجی اور عمر دس‘ بسکہ سیدھا سادہ/ہماری ہیروئن... عرف راجی... کی عمر... نو سے ذرا زیادہ / وہ آٹا گوندھ آئے‘ پھر بٹائے گی‘ کچھ پکانے میں ہاتھ ماں کا/ یہ بالی وڈ کی کلیشے فلموں سے بڑھ کے دیتا ہے‘ ساتھ ماں کا/ مقامی نائی کا نائب ِسلطنت ہے یہ‘ ذکر تک نہیں ہے/ کچھ اس کی تاریخی حیثیت کی فرشتے کو فکر تک نہیں ہے/ وہ عصرکے بعد حاجن آنٹی سے سائنس کا قاعدہ پڑھے گا/ وہ بھائی کی نوکری کی نیت سے سورئہ مائدہ پڑھے گا/ چمک میں آنکھوں کی ایچی سن کے کسی بھی چوہے سے کم نہیں ہے/ وہ کیمرے کی طرف مڑے گا/ یوں جیسے دنیا میں غم نہیں ہے۔
ع کانووکیشن
ہوتے جاتے ہیں پیدا/ پل بڑھ جاتے ہیں/ لکھ پڑھ لیتے ہیں/ کسی نہ کسی طرح/ لے کے بیٹھتے ہیں عشق/ د‘ور رہتے ہیں ناکام/ کر جاتے ہیں ڈگری/ کسی نہ کسی طرح/ ڈھونڈ لیتے ہیں ‘جاب/ مل جاتے ہیں ‘شوہر/ بیویاں۔
ع پوچھتے ہیں تمہارا گھر کہاں ہے؟
میرا بستہ میرا گھر ہے‘ کتابوں‘ پنسلوں کاپیوں سمیت/ یا میرا پروفائل‘ مکمل‘ باتصویر‘ تصدیق شدہ‘ اسناد سمیت/ گھر ہے میرا پگڈنڈی‘ وہ سڑک اور اس پار ریلوے لائن/ گھر کیا جاسکتا ہے‘ ہر دس منٹ بعد آتی ٹرین کے دل میں‘ مگر بس یہ ایک گھڑی پیچھے ہوگا/الحمراء میں آنکھوں سے خالی ایک اور نمائش‘ گھر ہے میرا/ پھر تم ہونا میرا گھر/ سب سے پہلے سب سے آخر میں/ جیسا تیسا خود میں بھی تو گھر ہوں اپنا/ یہ خاموش گٹارتمہارا‘میرا گھر ہے‘ پیارے فٹ پاتھ پر چلتے شخص/ بائی دا وے‘ تمہارا گھر کہاں ہے؟
لاہور میں
اپنے ٹور پہ‘ اپنی ٹور میں رہتا ہوں/ شاہدرے تک مغلیہ دور میں رہتا ہوں/ گھومتا پھرتا ہوں‘ لکشمی کے آگے پیچھے/ میانی صاحب چھپ کے گور میں رہتا ہوں/ جولائی کی تنہائی میں پر جلتے ہیں/چڑیا گھر کے سنگل مور میں رہتا ہوں/ شہر کی بے ترتیب ٹریفک ‘پاس بھی‘ راس بھی/ مال کے باہنگم سے شور میں رہتا ہوں/ کوئی فلیٹ پہ کوئی گھر‘ کوئی بنگلے میں/ ایک اکیلا میں لاہور میں رہتا ہوں۔
رسالے کی قیمت ایک سال میں چار شمارے 95 روپے ہے۔
آج کا مقطع
ظفرؔ ‘سفر ہی وہ لاحاصلی کا تھا سارا
سو‘ واپس آ کے محبت کی گرد جھاڑی ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved