ہمارے ملک میں سال میں دو مرتبہ چھٹیاں ہوتی ہیں۔ موسم گرما کی چھٹیاں قدرے طویل اور اس کے مقابلے میں موسم سرما کی چھٹیاں کافی مختصر ہوتی ہیں۔ موسم سرما کی چھٹیوں کا آغاز دسمبر کے آخری عشرے اور اختتام جنوری کے پہلے عشرے میں ہو جاتا ہے۔ 14 ‘15 روز کے لیے طلباء کالج اور سکول جانا چھوڑ دیتے ہیں۔ بالعموم دیکھا گیا ہے کہ موسم سرما اور گرما کے تعطیلات کے دوران وقت کو ضائع کر دیا جاتا ہے اور فقط گپ شب‘ دعوتوں ‘ دوستوں سے میل ملاپ‘ شاپنگ سنٹروں اور سیر گاہوں کی طرف آتے جاتے ہوئے وقت کو گنوا دیا جاتا ہے۔عام طور پر یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ چھٹیوں کے دوران وقت اور توانائیوں کے ضیاع کی وجہ سے طالب علم سستی کا شکار ہوجاتا ہے اور جب وہ دوبارہ اپنے تعلیم ادارے کا رُخ کرتا ہے تو اس میں محنت کرنے کی استعداد پہلے کے مقابلے میں کم ہو چکی ہوتی ہے اور اس کا دل تعلیمی سرگرمیوں میں پہلے کے مقابلے میں کم لگتاہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو جن نعمتوں سے نوازا ہے ‘ان میں سے وقت ایک بہت بڑی نعمت ہے اور ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے۔ دنیا کی عارضی زندگی میں وقت کو ضائع کر دینے والے لوگ ناکام اور نامراد ہو جاتے ہیں‘ جبکہ وقت کا صحیح استعمال کرنے والے لوگ دین اور دنیا کے شعبوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ جب ہم انبیاء علیہم السلام کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان عظیم ہستیوں نے وقت کے ہر لمحے کو قیمتی جانا؛ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کے لوگوں کو صبح وشام اللہ کی توحید کی دعوت دیتے رہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی دعوت توحید کی سربلندی کے لیے اپنے وقت کو وقف کیے رکھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے منصب نبوت پر فائز ہونے کے بعد پوری شد ومد سے فرعون کی رعونت‘ ہامان کے منصب‘ شداد کی جاگیراور قارون کے سرمائے کا مقابلہ کیا اور آپ لمحہ بھر کے لیے بھی اپنے مشن سے پیچھے نہ ہٹے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی تسلسل کے ساتھ اللہ کے دین کی دعوت دی۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت بھی ہمارے لیے بہت بڑی مثال ہے۔ آپ نے بھرپور دعوتی زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ سماجی‘ سیاسی اور گھریلومعاملات کو نہایت احسن انداز میں چلایا۔انبیاء علیہم السلام کے بعد خلفاء راشدین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ سیدناصدیق اکبر‘ سیدنا فاروق اعظم‘ سیدنا عثمان غنی اورسیدنا علی المرتضی رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنی زندگیوں کو اللہ کی عبادت کے ساتھ ساتھ ‘ عدل وانصاف کے قیام اور رعایا کی خدمت کے لیے وقف کیے رکھا۔ نتیجتاً خلافت راشدہ کا دور آج بھی سنہری حروف کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ ماضی قریب میں بانی ٔپاکستان حضرت محمد علی جناح نے بھی ہمیں جہد مسلسل کا سبق دیا اور لازوال جدوجہد والی زندگی گزار کر ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔ کئی عشروں تک مسلسل جدوجہد کرکے انہوں نے اپنی قوم کو اس بات کا سبق دیا کہ اپنی منزل کے حصول کے لیے انسان کو مسلسل تگ ودو کرتے رہنا چاہیے۔
اس وقت ہمارے اور دیگر عصری معاشروں کا المیہ ہے کہ انسانوں کی بڑی تعداد اپنے وقت کو ضائع کر بیٹھتی ہے۔ نتیجتاً انہیں خود بھی وقت جیسی عظیم نعمت کی ناقدری کی وجہ سے بعد ازاں کٹھنائیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں اپنے وقت کو عام دنوں میں بھی منظم اور مربوط انداز میں گزارنا چاہیے اور زندگی کے نظام الاوقات کو ضرور مرتب کرنا چاہیے اور دین اور دنیا میں ایک توازن کو پیدا کرنے کی جستجو جاری رکھنی چاہیے‘ لیکن تعطیلات میں خصوصیت سے اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ ان ایام میں کچھ فائدہ مند چیزوں کو حاصل کیا جا سکے۔ تعطیلات میں کیے جانے والے چند اہم کام درج ذیل ہیں:
1۔ عبادات میں تندہی: انسان کو تعطیلات کے ایام میں عبادات کو پہلے سے زیادہ تندہی کے ساتھ انجام دینا چاہیے اور اپنی تخلیق کے اصل مقصد ‘یعنی عبادت کو احسن انداز میں نبھانے کی کو شش کرنی چاہیے۔ فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نوافل کا بھی اہتمام کرنا چاہیے اور فرصت کے ان ایام کو غنیمت جان کر اللہ تبارک وتعالیٰ سے بکثرت اپنے مستقبل اور دینی اور دنیاوی عروج اور کامیابی کے لیے دعا مانگنی چاہیے۔ یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ ہماری دعاؤں کو سننے والے ہیں اور ان دعاؤں کی وجہ سے وہ ہماری جائز تمناؤں کو قبول ومنظور فرما لیتے ہیں۔ دعاؤں کے نتیجے میں اللہ کی رحمت اور فضل انسان کے شامل حال ہو جاتی ہے اور آئندہ آنے والی زندگی میں کامیابیوں کے امکانات میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتاہے۔
2۔ کتاب وسنت کی تعلیم کو حاصل کرنا: انسان تعلیمی اداروں میں مصروفیات کے دوران کتاب وسنت کی تعلیمات کو کما حقہ حاصل نہیں کرپاتا ‘ لیکن چھٹیوں کے ایام اس حوالے سے انتہائی فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں کہ انسان قرآن مجید کے کچھ حصے کے معانی اور مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ یقینا موسم سرما کی چھٹیاں مختصر ہوتی ہیں اور ان میں بہت زیادہ علم کو حاصل تو نہیں کیا جا سکتا‘ لیکن سورہ احزاب‘ سورہ نور‘ سورہ حجرات جیسی سورتوں کے معنی اور مفاہیم پر غور کرکے انسان دین‘ معاشرت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار سے متعلق معلومات کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اسی طرح احادیث مبارکہ کو بڑی تعداد میں پڑھنا‘ اگر ممکن نہ بھی ہو تو بھی حدیث کی کتاب کے کسی ایک باب اور سیرت النبی ﷺ کے کسی ایک پہلو کا مطالعہ ان ایام میں احسن طریقے سے کیا جا سکتا ہے۔
3۔ علماء اور سکالرز کی صحبت کو حاصل کرنا: چھٹیوں کے ایام میں انسان کسی بڑے عالم کے لیکچر اور صحبت سے بھی فیض یاب ہو سکتا ہے۔ عام دنوں میں تعلیمی مصروفیات کے سبب ان سے استفادہ کرنے کے امکانات کم ہوتے ہیں‘ لیکن ان ایام میں اپنے شہر میں موجود کسی بڑے عالم دین کے پاس جانا ‘ اس کے لیکچرز کو سننا اور اس سے سوال وجواب کرکے اپنے علم کو بڑھانے کا کام بھی احسن طریقے سے انجام دیا جا سکتا ہے۔ کئی مرتبہ انسان مطالعہ سے وہ کچھ حاصل نہیں کر پاتا ‘جو صاحب علم شخصیات کی مجلس سے حاصل کر لیتا ہے۔
4۔تاریخ کا مطالعہ: تاریخ کا مطالعہ انسانوں کے اتار چڑھاؤ کے اسباب کو سمجھنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ چنانچہ ان ایام میں مشاہیر میں سے کسی ایک عظیم ہستی کی سیرت وکردار کا مطالعہ کرنا یقینا انسان کی قوت عمل اور جذبے کو بڑھانے کا باعث ہے۔ سلطان محمود غزنوی‘ صلاح الدین ایوبی‘ ٹیپو سلطان اور ان جیسی دیگر شخصیات کے کردار کا مطالعہ کرنے سے انسان اپنی تاریخ اور اقدار سے ہم آہنگ رہتا ہے اور انسان میں کٹھن حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے۔
5۔ غریب اور لاچار انسانوں کے کام آنا: چھٹیوں کے ایام میں خدمت خلق کا فریضہ بھی انجام دیا جا سکتا ہے۔ عام ایام میں انسان دکھی انسانیت کے کما حقہ کام نہیں آ سکتا لیکن فرصت کے ایام میں اپنے علاقے اور گردوپیش میں رہنے والے کمزور ‘ محروم‘ بیمار اور معذور لوگوں کی عیادت کرنا اور ان کے حالات سے آگہی حاصل کر کے ان کے مسائل کو نمٹانے کی کوشش کرنا بھی چھٹیوں کے مقاصد میں سے ایک بڑا خوبصورت مقصد ہے۔
6۔ بزرگ رشتہ داروں سے ملاقات: ان ایام میں انسان اپنے ان رشتہ داروں سے ملاقات کے لیے وقت نکال سکتا ہے۔ جن سے ملاقات کیے ہوئے ایک طویل عرصہ بیت چکا ہو۔ چنانچہ انسان کو فرصت کے ان ایام کو غنیمت جانتے ہوئے اپنے بزرگوں کی صحت اور معمولات سے آگہی حاصل کرکے ان کی دعاؤں کو سمیٹنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
یقینا وقت کی تنظیم کرنے والے لوگ دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کو سمیٹنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ہمیں تعطیلات کے ایام کو بھی گنوانے کی بجائے ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے‘ تاکہ ہم تعطیلات کے بعد پہلے سے زیادہ علمی اور عملی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہو کر اپنی درس گاہوں میں داخل ہو اور ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ان لوگوں میں شامل نہ ہوںکہ جو وقت کو ضائع کرنے کی وجہ سے سستی‘ کاہلی اور غفلت کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔