سب سے پہلے اہل ِوطن کو وزیراعظم پاکستان عمران خان کے لیے دعائے خیر کرنی چاہیے‘جو متزلزل حمایت کے ساتھ ہمہ گیر محاذ کھول بیٹھے ہیں‘ اس بکھرے ہوئے معاشرے کو سدھارنے میں لگے ہیں جبکہ مختلف سیاست دان‘ اپنے حصے کی دولت سمیٹنے والے بیوروکریٹس‘ بیرون ملک سیاہ سرمایہ بھیجنے والے‘ غرض پاکستان کو کاٹ کر کھانے پر تلے ہوئے شر پسند‘ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے ۔یہ سب متحدہ محاذ بنا کر وزیراعظم کے خلاف ہر طرح کی خرابی پیدا کرکے انہیں الجھائے رکھنا چاہتے ہیں۔پاکستان ایک ملک ہے ‘جس کے وجود کی کانٹ چھانٹ کر کے یہ ہر طرف سے لگنے والے زخموں کو چاٹتے ہوئے اس کا خون چوس رہے ہیں۔عرصہ دراز کے بعد خدا نے ایک لیڈربھیجا اور کروڑوں عوام اپنے ملک کی بھلائی اور خیر خواہی کے لیے ‘دن رات محنت کرنے میں مصروف ہیں‘لیکن شاید ہی کسی ثمر آور پیڑکا پھل عوام کو نصیب ہوا ہو۔
کل ہی چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے اپنے دل کے پھپھولے ،جو اکثروہ پھوڑتے رہتے ہیں ‘اپنے صدمے کی شدت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا '' پورے جہاز اور ریلوے انجن غائب ہیں ‘پوچھیں تو کہتے ہیں زیادتی ہوئی‘‘ انہوں نے اپنے مسائل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ '' پلی بارگین نہ ہوتی تو کوئی ادارہ رقم واپس نہ لا سکتا دولت لاہور سے اسلام آباد‘ پھر خلیجی ممالک اور وہاں سے امریکہ پہنچتی ہے ‘یہ چوری ڈکیتی کے کیس نہیں کہ پندرہ دن کے ریمانڈ میں تفتیش کر سکیں‘ ڈریکونین لاء کہنے والوں کو قانون کا پتا نہیں ‘‘۔یہی تو مصیبت ہے ‘جسے لوٹ مار کی علت ہو‘ وہ قوم کی دولت‘ قیمتی سرمایہ اور بیرونی ممالک سے خط کتابت کیساتھ جہاں سے بھی وطن کو زخم لگایا جا سکتا ہو‘و ہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔کیا یہ ایک مجبور قوم کی بے بسی نہیں کہ اربوں روپوں کی لوٹ مار کرنے والے ‘نا جائز سرمایہ دنیا بھر میں پھیلا لیتے ہیں‘ لیکن ہماری تمام قانونی مشینری‘ تحقیقاتی افسران اورپاکستان کی تمام بڑی عدالتوں میں سراغ لگانے والے اعلیٰ درجے کے ماہر وکلا معززجج صاحبان کے سامنے جرائم کا سراغ لگانے کی کوششیں کرتے ہیں‘ لیکن کچھ حضرات ملک کی دولت کے لاکھوں کروڑوں لوٹنے والوں کا پلہ کہاں پکڑنے دیتے ہیں ؟ کروڑوں کی فیس لینے والے بیرسٹر وں‘ وکیلوں اور بیرونی دنیا کے ماہرین قوانین کے سامنے کس کی چلتی ہے ؟ انتظامی مشینری کے مختلف حوالے ‘سرکاری ریکارڈ ‘عوام اور عدلیہ کی جستجو ‘عوامی حقوق کیلئے آسانی سے ریاست کے حق میں ریکارڈ اور شواہد کہاں ہاتھ لگنے دیتے ہیں؟ میری طرح سراغ رسانوں سے مدد لینے والوں کی امیدوں کے نتائج کب نکلتے ہیں۔
قومی احتساب بیورو چیف نے کل ہی ایسی حیرت انگیز مثالیں عوام کے سامنے رکھیں کہ عوام کے لیڈر ‘ میڈیا کے کارکن ‘ جستجو کرنے والے مخلص سیاسی ورکرز‘ دولت لوٹنے کی ہنر مندی کے آگے کسی کی نہیں چلنے دیتے ۔کیا آپ کو تعجب نہیں ہوتا کہ پورے پاکستان کے قانون کا تحفظ کرنے والے ‘ بھاری رقوم وصول کرکے عالمی سطح کا علم اور بہترین دماغ ‘محض دولت کی خاطر نا جائز مقدموںکو جیت جاتے ہیں‘ لیکن سچائی کے حق میںعدل و انصاف کی بارگاہ میں آواز بلند نہیں ہونے دیتے ؛ اگر انتظامیہ ایسی ہی ہے‘ قوانین ایسے ہی ہیں اور انصاف کے خریدنے والے اتنے ہی طاقتور ہیں تو کوئی کتنا ہی طاقتور ہو‘انصاف کی سچائی کا بس ان کے سامنے نہیں چلے گا۔کل ہی ایک ٹی وی چینل پر لامحدود وارداتوں کی مثالیں خبروں میں سامنے آئیں تو میں یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکا۔آج ہی ایک سیاسی لیڈر نے چند روز آرام سے سوچ وبچار کے بعد ‘اپنا فیصلہ سنا دیاکہ میں قید کی سزا کو چیلنج کروں گا ۔پارٹی کے کارندے جوش وخروش سے میدان میں اترنے کی تیاریاں کر رہے ہیں اور لوہے کے چنے چبانے والا آہنی ارادوں والاوطن پرست اور عوام دوست لیڈر اپنے ارادوں پر قائم نظر آتا ہے‘ مجھے طاقتور طبقوں کے ارادے بھی کمزور نہیں لگتے۔ دولت کی طاقت جب ہوس کو پورا کرنے پر تل جائے ‘کوئی اسے روک نہیں سکتا۔
قیام پاکستان کے وقت جب قبائلی علاقوں سے پٹھان اور پختون کشمیر میں لوٹ مار کے لیے جا گھسے توان کا رخ قابض بھارتی ا فواج کی طرف نہیں تھا۔وہ آبادیوں میں داخل ہو گئے اور یہ دیکھے بغیر کہ یہاں مسلمان اور غیر مسلم سب آباد تھے اپنا مشن جاری رکھا‘پختونوں کے دستے کسی محاذ کی طرف نہیں گئے تھے‘ انہوں نے نہتے دیہاتیوں اور شہریوں کی طرف رخ کر دیا‘ بھارت کی مسلح افواج گھات لگائے بیٹھی تھیں۔ کشمیر کا چھوٹا سا ہوائی اڈاتھا۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تائو اپنی فوجیں سری نگر میں اتارنا شروع کر دیں۔جو حیرت انگیز بات میں کرنا چاہتا ہوں ‘وہ یہ ہے کہ کشمیر پر بھارتی قبضہ دکھ کسی کو نہیں تھا۔ پاکستان میں اس وقت مکانوں اور زمینوں پر قبضے کیے جارہے تھے ‘بہت پہلے میںیہ درد ناک بات لکھ چکا ہوں ‘اسے یاد نہیں کرنا چاہتا‘جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے‘ دعا گو ہوں کہ پاکستان جیسا ہے ‘ویسا ہی قائم اور سلامت رہے ‘یہی ہم سب کی دعا ہے ۔