تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     03-01-2019

سیّد عامر سُہیل کی تازہ نظمیں

نظمیہ
ماند محبت/ کیا گُدڑی کیا‘ چاند محبت/ ماند محبت/ آگ نہ رووے/ پانی پانی جھاگ نہ رووے/ آگ نہ رووے/ کُلیہ کیا ہے/ عشق تمہارا حُلیہ کیا ہے/ کُلیہ کیا ہے/ دھڑ کو مجھ میں/ آؤ آ کر بھڑ کو مجھ میں/ دھڑ کو مجھ میں/ راج کماری/ مقناطیسی نیند سے ہاری/ راج کماری/ متر چرائیں / کیسے تیرا عطر چرائیں/ متر چرائیں/ دل وہمی ہے/ درد کی کیا گہما گہمی ہے/ دل وہمی ہے/ صد مو صدمو/ مٹی مٹی اے ہم قدمو/ صدمو صدمو/دن چڑھتا ہے/ جب جوبن میں رس پڑتا ہے/ دن چڑھتا ہے/ خواب ہولڑ کی/ تم کتنی نایاب ہو لڑکی/ خواب ہو لڑکی/ قسموں جیسی/ ہندوستان کی رسموں جیسی/ قسموں جیسی/ دیہاتی ہو/ کتنا سپنوں میں آتی ہو/ دیہاتی ہو/ سونپ یہ آنسو/ خنجر خنجر گھونپ یہ آنسو/ سونپ یہ آنسو/ لہجہ تیکھا/ مُلک نے دو ہونٹوں سے سیکھا/ لہجہ تیکھا/ نیند غلافی/ رُک رُک کریو عشق تلافی/ نیند غلافی/ دجلے اندر/ ہفت سمندر/ دجلہ شاہی/خیف سپاہی/ لب کُھلتے ہیں/ رنگت کاہی/ غزہ کی پٹی/ بنا بیاہی/ درد کے بستر/ شب خاکستر/ چپ اکلوتی/ آنکھ کے نشتر/ اے تم کیا ہو /حمص عشاء ہو/ کیا کرتے ہو غافل عشقو/ میں آتا ہوں دکھی دمشقو!
نظمیہ
دیئے کی آنکھیں/ کھلیں گی اپنے کیے کی آنکھیں/ دیئے کی آنکھیں/ سلامتی ہے/ یہ رات کتنی علامتی ہے/ ملامتی ہے/ کہ چھیڑتا ہوں/ میں اپنا سینہ اُدھیڑتا ہوں/ کہ چھیڑتا ہوں/ چہکتی نافو/ دَیا کرو/ زر کے لحافو/ چہکتی نافو/ میں عام عامرؔ/ میں ایک اپنی نیام عامرؔ/ میں عام عامرؔ/ خدا کو شکوہ/ گلی گلی ہر عشاء کو شکوہ/ خدا کو شکوہ!
دُعا
مرے ہاتھ میرا قبیلہ دُعا/ مرے ہونٹ میرا وسیلہ دُعا/ میں راتوں کو رازوں کے پہرے میں ہوں/ کنوئیں میں ہوں اور سب سے گہرے میں ہوں/ مری پشت پر کوئی دجلہ نہیں/ مرے خون کا کوئی بدلہ نہیں/ عطا کائناتوں کے نقشے تمہیں/ وہ ربِّ سماوات بخشے تمہیں!
قذافی کا پستول
قذافی اور نیفے میں/ یہ سونے کی ٹرافی/ رات کی باچھیں نہیں کھلتیں/ سمندر سے تری باتیں نہیں ملتیں/ سفر سپنوں سے خالی ہے/ (قذاقی کے لیے ہر شہر گالی ہے) قذافی بجھ گئی ‘مٹی اضافی/ میں ہرن مینار پر فتوے نہیں جڑتا/ ہرن مینار شیخ الشرم کے اندر نہیں پڑتا/ وہی نیفہ جو سونے کے کسی پستول سے/ شب خون جنتا تھا/ معمر آستینوں سے وہی باندھا نہیں جاتا/ قذافی کا جنازہ اتنا اوپر ہے کہ واں/ مخلوق کاکاندھا نہیں جاتا/ خدا ‘ناراض ہے ‘شاید قذافی سے/ خیابانِ حلب‘ اُردن چھلک اُٹھے معافی سے/ خدایانِ حلب‘ اُردن‘ مدھر مخمورعامرؔ/ عابدہ پروین کی بے درد کافی سے۔
نظم
چولستان غزل سکتی ہو/ جل سکتی ہو/ دُھوپ سے چہرہ مل سکتی ہو/ جل سکتی ہو/ یادوں یادوں‘ بھادوں بھادوں/ گرتی اور پگھل سکتی ہو/ جل سکتی ہو/ پیار میں عامرؔ‘ پانی کی اس دھار میں عامرؔ مروا رید اگل سکتی ہو/ جل سکتی ہو/ تم جو مینا زاد ہو لڑکی/ چاروں کھونٹ رمل سکتی ہو/ جل سکتی ہو/ کتنی بار کہا ہے تم سے/ اپنی اور پھسل سکتی ہو/ جل سکتی ہو/ ہر ہر گھاٹ کنول سکتی ہو/ جل سکتی ہو/ جل سکتی ہو‘ تم سینے پہ چل سکتی ہو/ جل سکتی ہو/ جل اور گنگا جل سکتی ہو/ جل سکتی ہو!
تنہائی کی حمد
کسی بھی گوشہ ہائے خواب سے ہے/ بیش قیمت میری تنہائی/ قسم ہے‘ آدم و خوا کی پہلی آشنائی کی/ مرے ہمراہ تم ہوتیں/ تو میں/ تسموں سے دُنیا باندھ لیتا!
حیف کی حمد
حیف رفتار مری/ رات کو یلغار مری/ میرے شب خون سے گریے کو نمی ملتی ہے/ خواب ہے خواب میں تصویر بنی ملتی ہے/ صبحِ صادق کی قسم اور حوادث کی قسم/ تجھ میں دفنا کے بدن قوسِ قزح کرنا ہے/ میں نے ملکوں کی جوانی سے مسح کرنا ہے۔
نظمیہ
میں دیر گیری/ میں میرؔ کے وقت کی اسیری/ میں دیر گیری/ غروب تانوں/ کبھی تو میں اپنی بات مانوں/ غروب تانوں/ خدا سے خالی/ بدن ہوئے ہیں عشاء سے خالی/ زبر ہے کوئی/ چراغ کتنے اچھالتی ہے/ خبر ہے کوئی!
نشانی
نشانی ہے بیٹھک/ مری پسلیوں سے پرانی ہے بیٹھک! یہاں باپ کی چارپائی پڑی تھی/ یہاں شاعری ہاتھ باندھے کھڑی تھی۔
نظمیہ
اُس کی سانسوں میں جلتی اگر بتیو! مجھ سے وعدہ کرو‘ پھول کی پتیو/ اُس کا دل بھول کے بھی دُکھانا نہیں/ اُس کے لب حفظ کر کے بھلانا نہیں!
نظمیہ
رات کے پہروں میں‘ تپتی ہوئی دوپہروں میں/ یاد آتی ہو بہت‘ یاد بہت آتی ہو/ جتنے رخسار ہیں دُنیا کے پری خانے میں/ آج شامل ہیں تری یاد کے ظہرانے میں/ یاد آتی ہو بہت‘ یاد بہت آتی ہو! 
آج کا مقطع
زباں کو سر پہ اٹھائے بھی ہم پھرے ہیں‘ ظفرؔ
سخن کیا ہے زباں پر سوار ہو کر بھی

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved