تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     03-01-2019

اتنی بھی کیا جلدی ہے

2018کا آخری سورج قصہ پارینہ بن چکا‘ لیکن جاتے جاتے سیاست کے سمندر میں پھر تلاطم خیز موجیں اُٹھا گیا ہے۔بمشکل العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کیسز کا فیصلہ آیا۔توقع تھی کہ اب کچھ عرصہ آرام سے گزر جائے گا‘ لیکن یہ توقع عبث ہی رہی۔نیا طلاطم سندھ میگا منی لانڈرنگ کے حوالے سے جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آنے سے پیدا ہوا ہے۔لگتا نہیں کہ یہ طوفان آسانی سے تھمے گا کیوں کہ اس کو لے کر سندھ حکومت کو گرانے کی باتیں تواترسے سامنے آرہی ہیں تو جواباً مرکز میں تبدیلی کی حکمت عملی ترتیب دی جارہی ہے۔جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد سے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے قانونی نہیں تو کم از کم اخلاقی بنیادوں پر ہی مستعفی ہونے کے مطالبات سامنے آرہے ہیں۔یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا‘ فی الحال اس بات کو یہیں چھوڑتے ہیں۔اس سے پہلے تھوڑی سی بات جے آئی ٹی رپورٹ کی بابت کرلی جائے‘ تو بات سمجھنے میں آسانی رہے گی۔سندھ میگا منی لانڈرنگ کیس میں ستائیس جلدوں ‘ ایگزیکٹوسمری اور ان کے ساتھ 95ضمیموں پر مشتمل جے آئی ٹی کی رپورٹ میں کرپشن کے ایک بہت بڑے نظام کو افشا کرنے کا دعوی کیا گیاہے۔رپورٹ کہتی ہے کہ آصف علی زرداری اوراُن کی ہمشیرہ فریال تالپور کے نام پر بے شمار جائیدادیں ہیں ‘جو گوشواروں میں ظاہر نہیں کی گئیں‘ مثلاً:ان دونوں کے اندرون سندھ میں تقریباً120بڑے فارم ہاؤسز موجود ہیں۔حوالہ اور ہنڈی کی آڑ میں کثیر سرمائے کی منی لانڈرنگ کی گئی۔120فرنٹ مینوں کے ذریعے گیارہ سالوں تک کرپشن کا نظام چلایا جاتا رہا ۔ ایسا نظام‘ جس نے نا صرف سندھ کے خزانے کو خالی کردیا‘ بلکہ اس کے ذریعے متعدد عام آدمیوں پر دباؤ ڈال کر اُن کی زمینوں اور مکانات پر قبضے کیے گئے یا انہیں اپنی جائیدادیں اونے پونے داموں فروخت کرنے پر مجبور کیا گیا۔اسی حکومت عملی کے تحت بلاول ہاوس کراچی کے اردگرد متعدد جائیدادیں حاصل کرکے اُنہیں بلاول ہاؤس کا حصہ بنا لیا گیا۔ اسی نظام سے پیپلزپارٹی کے کرتا دھرتاؤں کے یوٹیلٹی بلز ادا کیے جاتے اور اُن کے سفری اخراجات برداشت کیے جاتے ۔اس عرصے کے دوران عملاً صوبے کو اومنی گروپ چلاتا رہا اوربہت کچھ ‘اس گروپ کے کہنے پر ہی ہوتا تھا۔جعلی اکاونٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منتقلیاں ہوئیں۔رپورٹ میں آصف علی زرداری‘ اُن کی ہمشیرہ فریال تالپور اور صاحبزادے بلاول بھٹوزرداری کا ذکر تو ہے ہی‘اس کے ساتھ ایان علی‘ یونس قدوائی‘ عبدالجبار اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی بابت بھی بے شمار راز افشا کیے گئے ہیں۔رپورٹ مرتب کرنے کے دوران جے آئی ٹی نے 885افراد کو طلب کیا‘ جن میں سے 767حاضر ہوئے۔انہیں کے بیانات اور اپنی تحقیقات کی روشنی میں جے آئی ٹی نے میگامنی لانڈرنگ کے حوالے سے 24کلیدی ملزمان کو نامزد کیا ہے۔ یہ رپورٹ اب سپریم کورٹ میں جمع کرادی گئی ہے۔رپورٹ کے ایک حصے کو خفیہ رکھتے ہوئے اُسے افشا نہ کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
بادی النظر میںیہ رپورٹ ہمارے ملک میں جاری ساری کرپشن کے دریاؤں اوران میں نہانے والوں کو سامنے لاتی ہے‘ لیکن دوسری طرف یہ صرف رپورٹ ہے۔بلاشبہ جے آئی ٹی نے ان ثبوتوں کو حاصل کرنے میں بہت عرق ریزی سے کام لیا ہوگا۔ صرف تین ساڑھے تین ماہ کے عرصے میں اتنی تفصیلی رپورٹ مرتب کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔دوسری طرف اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ابھی ان باتوں کا ثابت ہونا باقی ہے۔ابھی اس رپورٹ پر قانونی کارروائی شروع ہوگی اور اگر جے آئی ٹی رپورٹ میں سامنے لائے جانے والے الزامات حقیقت ثابت ہوئے تو اُس کے بعد سزا کا مرحلہ آئے گا۔ہمارے قانونی نظام کے تحت اِن سب باتوں کو ثابت کرنے کے لیے طویل عرصہ درکار ہوگا۔اس دوران ماضی میںبے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے ہونے والے احتساب اورپھر اُس کے نتائج کی باز گشت بھی سنائی دے گی۔ایس جی ایس اور کوٹیکنا کمپنیوں کو بحری تجارت کی انسپکشن کا ٹھیکہ دینے کے تناظر میں 1997ء میں نواز حکومت نے ان دونوں کے خلاف احتساب کا ڈول ڈالا تھا۔ان دونوں کے خلاف ریفرنس دائر کیے جانے سے پہلے احتساب بیورو کے سیف الرحمن نے دعویٰ کیا تھا کہ اس ٹھیکے میں بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری نے تقریباً 58لاکھ ڈالر کے کک بیکس لیے ہیں۔اس دوران نواز حکومت ختم اور مشرف حکومت برسراقتدارآگئی‘ لیکن ان ریفرنسز کا بھوت بے نظیر ‘ زرداری سے چمٹا رہا۔نئی حکومت نے بے نظیر اور زرداری کے خلاف مزید نئے ریفرنس بھی دائر کیے ۔ کیسز چلتے رہے ۔ان پر قوم کا پیسہ بہایا جاتا رہا‘ لیکن جب مشرف کو سیاسی شخصیات کی ضرورت پڑی تو بیک جنبش قلم این آراو دے دیا گیا۔سب کو پاک دامنی کا سرٹیفکیٹ مل گیا اور نا صرف سیاسی شخصیات‘ بلکہ فوجداری مقدمات میں ملوث بے شمار ملزمان کو بھی این آراو سے فائدہ ملا۔اب یہ کون پوچھتا کے مشرف صاحب آپ نے کس اختیار کے تحت این آراو دیا اور اگر ایسا کرنا ہی تھا تو پھر اتنے طویل عرصے تک کیوں قوم کو گول گول گھماتے رہے۔پرویز مشرف نے نواز حکومت کے اقتدار کی بساط لپیٹی تو حسب روایت شریف برادان اقتدار کے ایوانوں سے آن کی آن میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ گئے۔حسب ِدستور ان کے خلاف متعدد مقدمات بھی قائم کردئیے گئے‘ لیکن جب دوست ممالک نے مداخلت کی تو شریف برادران کو باعزت سعودی عرب پہنچا دیا گیا۔وقت نے کروٹ لی تو بے نظیر بھٹو قاتلانہ حملے میں شہید ہوگئیں اور آصف علی زرداری ایون صدر کے مکین بن گئے۔
یہ ہے‘ احتساب کے نام پر جاری کارروائیوں کا مختصر سا پس منظر‘ جس کی لپیٹ میں پہلے شریف برادران آئے اور اب بھٹوز کے آنے کے آثار پوری طرح سے ظاہر ہورہے ہیں۔گویا ماضی میں تمام تردعوں کے باوجود کچھ ثابت کیا جاسکا اور شاید اب بھی بلی تھیلے سے باہر نہیں آسکے گی۔ نواز شریف تو جیل جاچکے اور باقی بچے بھٹوز تو اُن کے لیے بھی حالات بہت دگرگوں صورت اختیار کرچکے ہیں۔ بکھری بکھری سی مسلم لیگ ن اور دباؤکا شکار پیپلزپارٹی بھلا حکومت کے لیے کیا مشکلات پیدا کرسکیں گی۔ گویا گلیاں خالی ہوں گی اور ان میں مرزایار آزادانہ گھومے پھرے گا ۔یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں کسی بھی حکومت کے لیے اپوزیشن کبھی بھی قابل قبول نہیں رہی ۔ ہرہرحکومت نے کوشش کی کہ اپوزیشن کو دبا کررکھے‘ لیکن اس حوالے سے موجودہ حکومت کچھ زیادہ ہی پھرتی کا مظاہرہ کررہی ہے‘اسی پھرتی کے نتیجے میں جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آتے ہی سندھ حکومت گرانے کی قبل ازوقت باتیں کرنا شروع کردی گئیں۔انہیں پھرتیوں سے کام لیتے ہوئے جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آتے ہی آصف علی زرداری‘ فریال تالپور اور بلاول بھٹو زرداری سمیت 172افراد کے نام ای سی ایل میں ڈال دئیے گئے ۔ ای سی ایل میں نام ڈالے جانے کا معاملہ جب سپرپم کورٹ تک پہنچا تو وہاں سبکی اُٹھانا پڑی۔ سپریم کورٹ نے بجا طور پر یہ استفسار کیا کہ قانونی تقاضوں کو پورا کیے بغیر‘ کیونکہ ان افراد کے نام ای سی ایل میں ڈال دئیے گئے۔سپریم کورٹ نے خفگی کا اظہار کیا تو معاملے کا ازسرنو جائزہ لینا شروع کردیا گیا۔جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آتے ہی سندھ میں گورنرراج کی باتیں بھی سامنے آنا شروع ہوگئیں۔اس پر بھی سپریم کورٹ کی طرف سے ناراضی کااظہار کیا گیا‘ یہاں تک کہہ دیا گیا کہ اگر ایسی کوئی حرکت کی گئی تو ایک سکینڈ میں گورنرراج کے نفاذ کا حکم نامہ معطل کردیا جائے گا۔اس پر اٹارنی جنرل کو عدالت میں کہنا پڑا کہ ایسا کچھ نہیں؛ حالانکہ ایسا تھا۔اس تناظر میں وزیراطلاعات فواد چوہدری نے اپنا طے شدہ دورہ کراچی ملتوی کردیا۔ توجیح اس کی یہ پیش کی کہ میں جہاں بھی جاتا ہوں‘ وہاں کا سیاسی درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے‘ اس لیے میں نے کراچی جانے سے اجتناب کیا ہے۔کوئی تو پوچھے کہ بھئی سیدھی طرح کیوں نہیں کہتے کہ حالات ناموافق ہوجانے کی وجہ سے دورہ منسوخ کیا گیا‘ ورنہ تیاری تو مکمل تھی ۔یہ سب کچھ جو جے آئی ٹی کی رپورٹ کے تناظر میں کیا جارہا ہے‘ بہرطور یہ ملک کے لیے بہتر ہے‘ نہ جمہوریت کے لیے۔ کوئی بھی ذی شعور ایسا نہیں ہوگا‘ جو کرپشن کی روک تھام کے عمل کی مخالفت کرے‘ لیکن محض رپورٹ کی بنیاد پر سب کچھ زیروزبر کردینے پر کمربستہ جانا احسن بات قرار نہیں دی جاسکی‘جو کچھ بھی سامنے آیا ہے‘ اُس کو ثابت ہولینے دیں‘جب ثابت ہوجائے گا تو پھر شاید حکومت کو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی‘ کیوں پھر عدالتی فیصلے ہی سب کچھ کردیں گے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ بیک وقت اتنے محاذ کھول لینے کی بجائے فی الحال تمام توجہ شفاف احتساب اور گڈ گورننس پر مرکوز رکھی جائے۔ اتنی بھی کیا جلدی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved