تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     03-01-2019

لو ’’شمع ‘‘ہوئی روشن…!

ایک بار پھر اُسی کھیل کی طرف قدم بڑھائے جارہے ہیں ‘جس نے عشروں سے اس ملک کو اپنے منحوس شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ یہ کھیل ہے اکھاڑ پچھاڑ کا‘ اپنا معاملہ ختم ہونے پر کسی اور کو بھی کھیلنے نہ دینے کا۔ اہلِ سیاست نے طے کر رکھا ہے کہ جب بھی معاملات درستی کی طرف جانے لگیں گے تو انہیں گھسیٹ کر خرابی کی طرف واپس لایا جائے گا اور اس وقت تو کیفیت یہ ہے کہ معاملات خرابی ہی کی حدود میں ہیں۔ ایسے میں انہیں مزید خرابی کی طرف لے جانا؟ یہ تو انتہا ہے۔ 
تین چار ماہ سے قوم کو بہت کچھ بتایا جارہا ہے۔ انکشافات پر انکشافات ہو رہے ہیں‘ جو باتیں قوم کو پہلے ہی معلوم ہیں‘ انہیں نمک مرچ لگاکر اس طور بیان کیا جارہا ہے‘ گویا کوئی نیا انسائیکلو پیڈیا لانچ کیا گیا ہے۔ جن لوگوں نے ملک پر قرضوں کا بوجھ لاد دیا‘ انہیں زیر دام لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حکمرانی کے نام پر مزے لوٹنے والوں کو احتساب کے پنجرے میں بند کرنے کی کوشش نئی ہے‘ نہ حیرت انگیز اور اس کوشش کے بھی جاری ہے۔ نئے آنے والوں نے وہی کیا ہے‘ جو نئے آنے والے کیا کرتے ہیں۔ جانے والوں کو تمام خرابیوں کا ذمہ دار قرار دے کر معاملات کو ایک نیا رنگ دے کر یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اب جن کے ہاتھوں میں اقتدار و اختیار ہے وہی حقیقی نجات دہندہ ہیں اور اگر قوم نے دیدۂ بینا کے توسط سے اُنہیں نہ پہچانا تو مکمل تباہی کے گڑھے میں جا گِرے گی۔ 
سندھ میں گڑبڑ کے آثار ہیں۔ پیپلز پارٹی کو مسلسل تیسری بار اقتدار میں آنے کا موقع ملا ہے۔ اس موقع سے وہ کس قدر فائدہ اٹھاتی ہے اور کس حد تک لاپروائی برتتے ہوئے اپنی پوزیشن کو مزید خراب کرتی ہے‘ یہ بحث کا الگ موضوع ہے۔ اس وقت معاملہ یہ ہے کہ سندھ میں پی پی پی کی حکومت کو گرانے کی کوششیں شروع ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ تحریکِ انصاف نے سندھ میں اُن عناصر کو جمع کرنا شروع کردیا ہے ‘جو دو عشروں کے دوران پیپلز پارٹی سے نالاں رہے ہیں اور اب اُس کے خلاف جانے کو تیار ہیں۔ 
یہ سب کیوں ہو رہا ہے‘ کچھ واضح نہیں ہو پارہا۔ کسی صوبائی حکومت کو گرانے یا گورنر راج نافذ کرنے کی کوشش کرنے کا یہ کون سا موقع ہے؟ ایک طرف آصف زرداری کی گرفتاری کا عندیہ دیا جارہا ہے اور دوسری طرف سندھ میں پیپلز پارٹی کے لیے شدید ترین نوعیت کی مشکلات پیدا کیے جانے کے آثار ہیں۔ اس وقت درست اندازہ لگانا مشکل ہے کہ سندھ میں حکومت کی تبدیلی کا حقیقی مقصد کیا ہوسکتا ہے۔ اندازے لگانے پر کوئی پابندی نہیں۔ قیاس آرائی سے کس نے روکا ہے؟ بعض حلقے اس رائے کا اظہار کر رہے ہیں کہ سی پیک کے لیے راہ ہموار کرنے کی غرض سے ''کانٹوں‘‘ کو ہٹایا جارہا ہے۔ یہ حلقے میڈیا کے لیے جاری کی جانے والی ہدایات کو بھی اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ میڈیا کو کنٹرول کرنا لازم ہوگیا تھا ‘تاکہ سی پیک اور پائپ لائن میں موجود دیگر منصوبوں کے حوالے سے مخالفت و مخاصمت کی فضاء کو قابو میں رکھا جاسکے۔ 
یہ بات آسانی سے سمجھ میں آنے والی نہیں کہ سی پیک کے نام پر کیا کیا ہو رہا ہے اور مزید کیا کیا ہوگا۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ اب سی پیک کو ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ ڈیڑھ عشرے تک قومی سلامتی کا بہانہ کام آتا رہا۔ قومی سلامتی یقینی بنانے کے نام پر جو کچھ بھی کیا جاتا تھا اُس کے حوالے سے کسی کو ''انگشتِ استفسار‘‘ کھڑی کرنے کی اجازت نہ تھی۔ کبھی کبھی صورتِ حال واقعی ایسی نازک بھی ہوئی کہ قومی سلامتی کے نام پر کیے جانے والے ہر اقدام کو قبول کیے بغیر چارہ نہ تھا۔ جو کچھ قوم کے لیے ناگزیر ہو وہ ضرور کیا جانا چاہیے‘ مگر سب کچھ اس ایک مقصد کی نذر نہیں کیا جاسکتا۔ 
سی پیک کے نام پر کیے جانے والے اقدامات اگر شہری آزادیوں کو سلب کرنے کی منزل تک پہنچ جائیں تو شور ضرور اٹھے گا اور اٹھنا بھی چاہیے۔ سی پیک کی راہ ہموار کرنے کے نام پر انتہائی منفی نوعیت کے اقدامات کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ پی ٹی آئی کو اقتدار میں آئے ہوئے اب چار ماہ ہوچکے ہیں‘ مگر اب بھی بہت کچھ ہے جو غیر یقینیت کی دُھند میں لپٹا ہوا ہے۔ ایک طرف کرپشن کے خلاف اور احتساب کے نام پر کارروائیاں کی جارہی ہیں اور دوسری طرف ایسے اقدامات بھی کیے جارہے ہیں‘ جن سے عام آدمی کی مشکلات ہیں کہ دوچند ہوئی جاتی ہیں۔ ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کے نام پر اب تک زیریں متوسط طبقے کی گردن ناپی گئی ہے اور غریبوں کا جینا مزید مشکل ہوگیا ہے۔ بے روزگاری کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ صنعتی سرگرمیوں میں وہ بات نہیں‘ جن سے بات بن سکے۔ انتہائی دولت مند طبقے کا؛ البتہ کچھ زیادہ نہیں بگڑا‘ جن سے زیادہ وصولی کی جانی چاہیے ‘وہ اب تک پُرسکون ہیں اور جو محدود آمدن میں گزر بسر کرتے ہوئے پریشانیوں سے دوچار ہیں ‘انہیں مزید پریشان کیا جارہا ہے۔ 
ایسے میں منتخب حکومتوں کو ہلانے کا عمل؟ یہ تو کسی طور برداشت کیا جانے والا عمل نہیں۔ پہلے بھی یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے اور اس کا شدید خمیازہ قوم نے بھگتا ہے۔ اب پھر ایسا ہوا تو بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی اور حالات بتا رہے ہیں کہ اب کی بار خرابیوں پر قابو پانا ایسا آسان نہ ہوگا‘ جیسا سمجھا جارہا ہے۔ بہت کچھ بدل چکا ہے اور دوسرا بہت کچھ ہے‘ جو بدلنے والا ہے۔ ایسے میں قدم قدم احتیاط کو اوّلین ترجیح کا درجہ حاصل ہونا چاہیے۔ 
پی ٹی آئی کی حکومت کو ساری توجہ معیشت اور بالخصوص مالیات پر مرکوز رکھنی ہے۔ سندھ میں حکومت کی بزور تبدیلی اس مرحلے پر کسی بھی اعتبار سے قابلِ قبول سمجھا جانے والا معاملہ نہ ہوگا۔ حقیقی احتساب کا حق عوام کو ہے‘ جو بیلٹ بکس کے ذریعے رائے دیتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے معاملے میں یہی ہوا ہے‘ جو لوگ کاندھوں پر بٹھاتے تھے ‘اُنہی نے ''سٹیک ہولڈرز‘‘ کو جھٹک کر گِرا بھی دیا۔ اہلِ کراچی نے نیا مینڈیٹ دیا ہے اور یہ مینڈیٹ ہر صورت قبول کیا جانا چاہیے۔ 
ایک ڈیڑھ ہفتے سے سندھ میں جو آنیاں جانیاں لگی ہوئی ہیں‘ وہ تشویش میں مبتلا کرنے کے لیے انتہائی کافی ہیں۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کو ''بروئے کار‘‘ لانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ سندھ بھر کے پی پی پی مخالف عناصر کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش نئی ہے‘ نہ حیرت انگیز۔ یہ عمل پہلے بھی ہوا ہے اور خرابیاں چھوڑ کر گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کے منصب پر جام صادق علی‘ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم اور لیاقت جتوئی کا فائز ہونا ایک ایسے عمل کا نتیجہ تھا‘ جو کسی بھی اعتبار سے جمہوری قرار نہیں دیا جاسکتا تھا۔ مصنوعی معاملہ مصنوعی اور منفی نتائج ہی پیدا کیا کرتا ہے اور ان تینوں صاحبان کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ 
مینڈیٹ لینے والوں کا احتساب ضرور کیا جانا چاہیے‘ تاہم اس معاملے میں اصول اور منطق دونوں کو نظر انداز کرنے سے گریز کیا جائے تو اچھا۔ سندھ میں حکومت کی تبدیلی خرابیوں کو بڑھاوا دے گی۔ ہم جہاں کھڑے ہیں اُس موڑ پر ایسا کچھ نہیں ہونا چاہیے ‘جس کی بنیاد پر کہا جائے کہ ع
لو شمع ہوئی روشن‘ لو آ گئے پروانے 
اکھاڑ پچھاڑ کی شمع روشن کرنے کی بجائے اب قومی استحکام کے چراغوںکو خدمت کا موقع دیا جانا چاہیے‘ تاکہ غیر یقینیت اور غیر حقیقت پسندی کا اندھیرا دور ہو اور قوم کو معاملات صاف صاف دکھائی دیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved