تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     03-01-2019

سب سے بڑی حقیقت

اگر انسان کبھی گہرائی میں سوچے‘ اپنی اور دوسروں کی زندگی کا جائزہ لے تو ایک منہ چڑاتی حقیقت اس کا راستہ روک لیتی ہے ۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ انسان چاہے‘ جتنا بھی دولت مند‘ طاقتور اور ذہین کیوں نہ ہو جائے‘ وہ دنیا میں اپنی زندگی کو ایک خاص حد سے زیادہ آرام دہ کبھی بھی نہیں بنا سکتا۔ چاہے آپ ملازموں کی فوج ظفر موج پال لیجیے۔ ایک خاص حد کے بعد یہ ملازم الٹا آپ پہ بوجھ اور ذمہ داری بن جائیں گے۔ ایک شخص آپ کے پاس کام کررہا ہے‘ یہ اس کی مجبوری ہے ‘لیکن دماغ تو اسے بھی خدا نے آپ جیسا ہی دیا ہے ۔ وہ اپنی ذہانت سے‘ اپنی حد کے اندر رہتے ہوئے آپ کے لیے کچھ نہ کچھ مسائل پیدا کرتا رہے گا‘ جو آپ کی طبیعت پہ ناگوار گزریں گے ۔
یہ تلخ حقیقت بادشاہوں کو بھی معلوم تھی ۔ آپ ظہیر الدین بابر کی خودنوشت پڑھ لیجیے ۔ شیبانی خان سے مقابلے سمیت کئی مقامات پہ وہ آپ کو بے بس نظر آئے گا ۔ کئی لحاظ سے تو بادشاہ اور بھی زیادہ مجبور ہوتے ہیں ۔ ان کی بیویاں اور اولادیں اپنی اپنا قد بڑھانے اور دوسروں کا کانٹا صاف کرنے کی کوشش میں ہمیشہ محلاتی سازشوں میں مصروف رہتی ہیں ۔ وہ یہی سوچتا رہ جاتاہے کہ ان میں سے مخلص کون ہے اور دشمن کون ۔ 
خدا نے یہ دنیا بنائی ہی اس طرح سے ہے کہ آپ ایک خاص حد سے زیادہ اس سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے ۔ایک خاص حد سے زیادہ آرام اس میں حاصل نہیں کر سکتے ۔ آپ زیادہ سو کر یا زیادہ کھا کر دیکھ لیں ۔ الٹا طبیعت خراب ہونے لگے گی ۔ انسان جسمانی کام نہ کرے تو عجیب طرح کا بوجھل پن اس پہ طاری ہونے لگتا ہے ۔ 
اس زمین پہ انسان کو آزمائش کے لیے اتارا گیا ہے ۔ اپنی پچاس یا سوسالہ زندگی میں اسے بہرحال آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے ۔ وہ امیر ہے یا غریب‘ ذہین ہے یا کم عقل ‘ مرد ہے یا عورت اس آزمائش سے وہ بچ نہیں سکتا۔ یہ آزمائش کس شکل میں اترتی ہے ؟ سب سے پہلے یہ ما ں باپ‘ بیوی بچوں ‘ بہن بھائیوں کی صورت میں اترتی ہے ۔ ماں باپ سے یہ شکوہ پیدا ہوتاہے کہ وہ دوسرے بھائی یا بہن کی حمایت کرتے ہیں ۔ اس کی ہر چیز کی تعریف کرتے ہیں ‘ جب کہ مجھے نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ ماں باپ لاکھ اس کا یہ احساس ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ لیکن دوسرا بھائی یا بہن ہوتی ہی اس قدر لائق اور خوش مزاج کہ لامحالہ اسے زیادہ ستائش ملتی ہے ۔ 
جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے ‘ اپنے بھائی کی کامیابیوں اور بہن کی خوبصورتی اس کے لیے ایک احساسِ کمتری بن جاتی ہے ۔ بہنوں میں سے ایک کے رشتے آرہے ہوتے ہیں‘ دوسری کے نہیں۔ ایسا بھی ہوتاہے کہ دیکھنے ایک کو آتے ہیں ‘ پسند دوسری کو کر جاتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں سوائے غمزدہ ہونے کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ دوسری طرف بھائی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہا ہوتاہے ‘ جبکہ یہ بمشکل پاس ہو رہا ہوتاہے ۔ وہ کرکٹ ٹیم کا کپتان ہوتاہے ‘ اسے بلّا پکڑنا بھی نہیں آتا ۔ 
زندگی آگے بڑھتی ہے ۔ بھائی کو اچھی نوکری یا اچھا کاروبار ملتاہے ۔ ادھر یہ بمشکل اپنے اخراجات پورے کر رہا ہوتاہے ۔ بھائی کے بچّے شکل و صورت ‘ ذہانت اور کھیل کود میں اس کے بچوں کو قریب بھی نہیں آنے دیتے ۔ بھائی کی جگہ کزن بھی لے سکتاہے ۔ 
ا دھر اس کی سنیے۔ اس کی سہیلی کا شوہر اس سے میٹھی میٹھی باتیں کرتاہے ۔ اس کے نخرے اٹھاتا ہے ‘ جب کہ اس کا اپنا شوہر سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتا ۔ یہاں پہنچ کر اس کی خوبصورتی اور اعلیٰ تعلیمی کارکردگی ایک معمولی شکل و صورت والی ‘ اوسط تعلیمی کارکردگی والی اپنی سہیلی کے سامنے دھری کی دھری رہ جاتی ہے ۔ اس کا نفس ہمیشہ اس کے زخموں کو کریدتا رہتاہے ۔
سیاستدانوں کا حال دیکھیں تو وہ اس سے بھی برا ہے ۔ ایک دوسرے کا گلا دباتے رہنا ان کی مجبوری ہوتی ہے ۔ یہ ان کی بقا کا مسئلہ ہوتاہے ۔ ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ حریف سیاستدان کی چالوں کوناکام بنانے اور اس کے خلاف اپنی چال چلنے میں صرف ہوتاہے ۔ میاں محمد نواز شریف جلا وطن کیے گئے‘ پھر کئی سال کی کوشش کے بعد واپس آئے۔ اس کے بعد اقتدار تک پہنچے‘ لیکن عمران خان نے ایک لمحہ بھی انہیں اس اقتدار سے لطف اندوز ہونے نہیں دیا۔ دوسری طرف عمران خان کو اگرچہ اقتدار مل ہی گیا‘ لیکن اس سے پہلے اذیت کے طویل مہ و سال تھے ۔ 14اگست 2014ء سے دھرنا شروع ہوا اور یہ ناکام ہوا۔سول نافرمانی کی تحریک ناکام ہوئی۔ سپریم کورٹ کے قائم کر دہ کمیشن نے قرار دیا کہ دھاندلی نہیں ہوئی۔ یہ تو پھر پنامہ لیکس کی پٹاری کھلی‘کئی عالمی لیڈروں کو اقتدار اور سیاست سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کپتان نے دبائو بڑھایا اور اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔ 
لیکن کیا وہ واقعی کامیاب ہو گیا ؟ یا اس کی آزمائش جاری ہے ؟ کیا دنیا بھر میں جن لوگوں کو اقتدار ملتا رہا ہے‘ وہ ہمیشہ باقی رہنے والی کامیابی حاصل کر سکے ؟ کیا دنیا بھر کے حکمران ہمیشہ اپنا تختہ الٹ جانے کے خوف سے لرزتے نہیں رہتے۔ عام لوگوں کے پاس تو ہوتا ہی کچھ نہیں ‘ جس کے چھن جانے کا خوف ان کی نیندیں اڑا دے ۔ حکمران کے پاس تو بہت کچھ ہوتاہے ۔ جس پہ ذمہ داری نہیں ہوتی‘ اسے احتساب کا ڈر نہیں ہوتا۔ وہ اپنی مرضی سے اٹھتے بیٹھتے ہیں ۔ حکمران سونے کے ایک پنجرے میں قید کر دیا جاتاہے۔ وہ اپنے ملاقاتیوں کا تعین کرنے کا حق نہیں رکھتا‘بلکہ حکومتی معاملات چلانے کی خاطر اکثر ناگوار لوگوں سے ملنا پڑتا ہے ۔ وہ اپنی گاڑی چلا کر بازار نہیں جا سکتا۔ ایک عجیب قسم کی چاپلوس مخلوق اس کے اردگرد اکھٹی ہو جاتی ہے ۔ مال و دولت سمیت ہر طرح کی ترغیبات اسے ہر وقت میسر ہوتی ہیں ۔ یہ چاپلوس اس کا دماغ خراب کر دیتے ہیں ؛حتیٰ کہ وہ وقت آتاہے کہ جب حکمران ایک اور ہی ذہنی فضا میں جینے لگتاہے ۔ حقائق کی دنیا سے بہت دور ‘ حتیٰ کہ پھر وہ ایسی غلطیاں کرنے لگتاہے کہ جو اسے تاریخ کے قبرستان میں دفن کر ڈالتی ہیں ۔ 
صرف ایک فیصد حکمران ہوتے ہیں ‘ جو ہر لمحہ اپنے اوپر نگران رہتے ہیں اور اپنے حواریوں پر ا س سے بھی زیادہ کڑی نگاہ رکھتے ہیں ۔ذرا سی خرابی دیکھتے ہیں تو بے رحمی سے اصلاح کا عمل شروع کرتے ہیں ‘ جو خوشامد کرنے والے کو اپنے دربار سے چلتا کر دیتے ہیں ۔ جو تاریخ کا مطالعہ رکھتے ہیں ۔ جو نفس کی ترغیبات پہ نظر رکھتے ہیں ۔ 
بیشتر صورتوں میں تو حکمران آہستہ آہستہ نا مقبول ہی ہو جاتے ہیں ۔انسانی عقل کا معاملہ ایساہے کہ اگر یہ خواہش سے آزاد نہ ہو تو ایک بالکل ہی محدود دائرے کے اندر کام کرتی ہے ۔ اس کی دور اندیشی کی صلاحیت بالکل کند ہو جاتی ہے ۔ دوسری طرف جب eventsہو رہے ہوتے ہیں تو اس وقت یہ عقل بالکل بھی اندازہ نہیں کر سکتی کہ کسی واقعے کا دیرپا نتیجہ کیا نکلے گا۔ آپ کو ڈان لیکس والا معاملہ یاد ہوگا۔ اپنی طرف سے انہوں نے کچھ اور ہی منصوبہ بنایا تھا۔‘نتائج اس کے بالکل برعکس نکلے ۔ 
بات دور نکل گئی ۔بہرحال دنیا کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اس دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا گیا ہے اور وہ یہاں اپنے قیام کو ایک خاص حد سے زیادہ آرام دہ نہیں بنا سکتا۔ جتنا جلدی آپ اس حقیقت کو سمجھیں گے‘ اتنا ہی آپ کے اندر صبر پیدا ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved