تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     04-01-2019

خون کے چھینٹے

تقریبات لازم ہیں کہ تفریح کے مواقع میسر آئیں۔ سیکھنے سکھانے اور صحت مند رجحانات کو فروغ دینے کا امکان ہو تو سونے پر سہاگہ۔ خون کے چھینٹے اڑانے کا خطرہ کیوں مول لیا جائے؟
ایک سے ایک دانا نیوز ایڈیٹر، اس کے بعد بھی اخباری صنعت نے دیکھا۔لیکن پھر دوسرا عباس اطہر نصیب نہ ہوا۔ سیلاب آیا تو سرخی جمائی: بہتے بہتے دریا بہک گیا۔ راولپنڈی سے لاہور آتے ہوئے، گوجرانوالہ کے قریب اساطیری اداکار سلطان راہی قتل ہوا تو عنوان یہ رکھا: سلطان راہی راستے میں مارا گیا۔ صحافت اور سیاست کی تاریخ میں ہمیشہ باقی رہنے والی ان کی مشہور سرخی تو وہ ہے، آج بھی ، جس کا حوالہ دیا جاتا ہے ''اُدھر تم، اِدھر ہم‘‘ ۔ یہ مینار پاکستان پر ذوالفقار علی بھٹو کے خطاب کا خلاصہ تھا، جس میں ڈھاکہ کا قصد کرنے والے ارکان اسمبلی کو لیڈر نے دھمکی دی تھی: میں ان کی ٹانگیں توڑ ڈالوں گا۔ ٹانگیں تو کیا ٹوٹتیں، ملک ٹوٹ گیا اور باقی ماندہ پہ وہ حکمران ہو گئے ۔
سرما کا زور ٹوٹنے لگتا ہے تو شاہ جی کی ایک اور سرخی یاد آتی ہے ''قصور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور لاہور میں بسنت خون کے چھینٹے اڑاتی گزر گئی‘‘
جنرل پرویز مشرف سے پہلے بھی بسنت ایک پر امن تہوار نہ تھا۔ چھتوں سے بچے گرتے اور مائوں کی گودیں اجڑ تیں۔ پتنگ لوٹنے کی وحشت میں نوجوان ٹریفک حادثات کا نوالہ بنتے۔ تقریب کی شب آئندہ سحر ہمیشہ سوگوار ہوتی۔ میلوں ٹھیلوں کا لاہوریوں کو ایسا جنون ہے کہ کوئی دن میں بھول جاتے اور پھر وہی ہائو ہو۔
فرار! زندگی فرار چاہتی ہے، مگر کس قدر؟ تفریحات ایک ضرورت ہیں مگر کس قیمت پر؟
جنرل پرویز مشرف کو فکر لاحق تھی کہ پاکستان کا ایک خوشگوار تاثر ابھارا جائے۔ خاص طور پہ مغرب میں، نائن الیون کے بعد پاکستان کو ایک انتہا پسند ملک کے طور پہ پیش کیا جا رہا تھا۔ رفتہ رفتہ، بتدریج، یہ ایک خونیں دن ہو گیا۔ قدیم روم کے ان اکھاڑوں کی طرح، بدنصیب قیدی جن میں بھوکے شیروں کے آگے ڈال دیئے جاتے۔ کلاشنکوف سے فائرنگ، رقص و سرود اور بادہ نوشی۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ وحشت کو آزادی عطا کر دی جائے تو اور بھی بڑھتی ہے۔ پھر، حیوانیت میں ڈھل جاتی اور ہل من مزید کا تقاضا کرنے لگتی ہے۔
شاعر نے کہا تھا: کوئی حد نہیں ہے کمال کی، کوئی حد نہیں ہے جمال کی۔ وحشت کی بھی کوئی آخری انتہا نہیں ہوتی۔ درندگی سی ہو جاتی ہے اور درندگی کی انتہا کیا؟
یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ تبدیلی سرکار کو یکا یک بسنت منانے کی سوجھی کیا؟ عمران خان کا اس تہوار سے بس اتنا سا تعلق ہے کہ یوسف صلاح الدین ان کے ہم جماعت ہیں۔ کبھی کبھی اس دن وہ ان کے ہاں جایا کرتے۔ لگ بھگ پندرہ برس ہوتے ہیں بنی گالہ والے گھر کے صحن میں ٹہل رہے تھے۔ اچانک بولے: کل بسنت کے لیے، میں ''حویلی‘‘ جائوں گا۔ عرض کیا: بالکل نہیں جانا چاہئے۔ مراد یہ تھی کہ ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ کو کسی ہنگامے کا حصہ نہ بننا چاہئے جو محض لا ابالی پن کا اظہار ہو۔ کوئی اور دلیل نہ سوجھی تو کہا: میرا دوست ہے، میں نے اس سے وعدہ کیا ہے۔جہاں تک یاد پڑتا ہے، یہ بھی کہا: تم جانتے ہو کہ میں خرافات میں شریک نہیں ہوتا۔ گزارش کی: ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے، فرمان یہ ہے کہ تہمت والی جگہ سے گریز کرنا چاہئے۔ میری طرف موصوف نے غور سے دیکھا اور ٹل گئے۔
ایک تنازعہ اس سے پہلے اٹھا تھا۔ شوکت خانم ہسپتال میں بھارتی اداکاروں کو مدعو کرنے پر۔ ناچیز نے اس پر احتجاج کیا اور احتجاج بھی اخبار میں۔ کچھ زیادہ سخت الفاظ میں: بھارتی بھانڈوں، ڈوموں اور میراثیوں کے بغیر بھی ہم جی سکتے ہیں۔ کراچی سے، اس کا فون آیا:تم تو بہت بپھرے ہوئے ہو۔ اس پر کیا مہم چلائو گے۔ کہا : جی ہاں!
ظاہر ہے کہ اعتراض کرنے والا فقط میں نہ تھا۔ جی ایچ کیو سے ایک صاحب نے فون کیا کہ اس کالم کی سینکڑوں کاپیاں انہوں نے تقسیم کی ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہمیشہ کے لیے یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔
عمران خان ذہنی ریاضت کرنے والا آدمی نہیں۔ بات اسے سمجھانی پڑتی ہے۔ ارد گرد کے لوگوں کا بہت اثر وہ قبول کرتا ہے۔ یہی اس کے اندازِ فکر کا بنیادی نقص ہے۔ اب وہ مصاحبوں میں گھرا ہے۔ حکمرانوں کا المیہ یہی ہوتا ہے۔
شنید یہ ہے کہ حکومت کی عدم مقبولیت پر اسے تشویش ہے۔ راوی کے بقول کابینہ کے ایک اجلاس میں بھی، بحث ہوئی کہ خلق خدا کو بہلانے کے لیے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔ بسنت منانے کا فیصلہ غالباً اسی کا شاخسانہ ہے۔ کچھ بھلے کام بھی ہوئے۔ مثلاً بے گھروں کے لیے پناہ گاہیں، ہسپتالوں میں لواحقین کے سائبان۔
حکمرانی اگرچہ کارِ دگر ہے۔ یہ سماج کے بنیادی امراض سے نمٹنے کی منصوبہ بندی اور اہم ترین ترجیحات کو بروئے کار لانے کا نام ہے۔ باقی شاعری ہے ، کتھارسس یا دفع الوقتی۔
بد قسمتی سے ادنیٰ مشیروں نے اس کے گرد گھیرا ڈال رکھا ہے۔
پرسوں، کامران شاہد کے پروگرام میں اس موضوع پہ مختصر سی بحث رہی۔ سلیم بخاری صاحب کے مطابق یہ ایک ہندوانہ تہوار ہے۔ آسانی سے ان کی رائے مسترد نہیں کی جا سکتی کہ وہ ثقافتی تاریخ کا ادراک رکھتے ہیں۔ با ایں ہمہ ایک تہوار کے طور پر مسلم پنجاب نے بہت پہلے اسے قبول کر لیا تھا۔
مشکل دوسری ہے اور بہت بڑی ہے۔ دھاتی تار سے شاہراہوں پہ گردنیں کٹتی ہیں اور بہت سفاکی کے ساتھ۔ پولیس کی تربیت یوں بھی کم ہے۔ ڈیڑھ کروڑ کی آبادی میں لاکھوں آدمی پتنگ اڑا رہے ہوں تو یہ بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہے۔ دھاتی تار کا تو ذکر ہی کیا کہ بجلی کے نظام سے الجھتی اور سات آٹھ ارب روپے کا دھچکا لگاتی ہے۔ پرانے شہر میں سالہا سال بتانے والے اخبار نویس عدنان عادل کا کہنا ہے کہ اس روز برتے جانے والے اکثر دھاگے قاتل ہیں۔ سلیم بخاری کے بقول، کروڑوں کے بھارت سے درآمد کیے جاتے ہیں۔
تہوار کی رپورٹنگ کرنے والے اخبار نویسوں کا کہنا ہے کہ خونی تار بنانے والوں کو تلاش کرنا ممکن نہیں۔ چند ایک پکڑے بھی جائیں تو باقی بچ نکلیں گے۔ یہ معاشرے کے مزاج کا مسئلہ ہے۔ تعلیم اور ارتقاہی سے تہذیبِ نفس ممکن ہے۔ گنوار کو ملنے والی آزادی حیوانیت کا روپ دھارتی ہے۔ اس خیال سے بھی وہ اتفاق نہیں کرتے کہ چند کھلے میدانوں کو مختص کر دیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ باقی ماندہ ڈور اور پتنگیں پھینک نہ دی جائیں گی۔ پھر چھتوں پہ چڑھ کر وہ تماشا کریں گے۔ اندیشہ ہے کہ پانچ سات گردنیں ضرور کٹیں گی۔ پھر ایسی لعن طعن حکومت پہ ہو گی کہ وہ منہ چھپاتی پھرے گی۔
تو کیا موسم بہار کا تہوار نہ منایا جائے؟ کیوں نہیں، لاہور میں کبھی ایک ''ہارس اینڈ کیٹل شو‘‘ ہوا کرتا تھا۔ بے شمار تقریبات کا مجموعہ، مثلاً نیزہ بازی کے مقابلے۔ گھوڑوں کا رقص، طرح طرح کے تماشے۔ دہشت گردی بڑھی تو دوسری چیزوں کے ساتھ یہ بھی سمیٹ دیا گیا۔ پھر سے اس کا احیا ممکن ہے، بلکہ راولپنڈی، ملتان، گوجرانوالہ، فیصل آباد، ملتان اور بہاولپور میں بھی۔ پورے ہفتے پر پھیلا ہوا جشن۔ کبڈی اور کُشتی کے مقابلے۔ جہاں کہیں ممکن ہو کشتی رانی کے بھی۔ موسیقی اور مشاعرے۔ سلطان باہو، بلھے شاہ، وارث شاہ، خواجہ غلام فرید اور میاں محمد بخش کا عارفانہ کلام۔ اساتذہ اور نو آموز شائقین کے لیے مواقع کا اہتمام۔ فٹ بال، والی بال اور ہاکی‘مرتے ہوئے کھیلوں کو زندہ کرنے کی تدابیر۔ ہزار رستے، صنعت کار، شاعر اور شائقین خود ڈھونڈ لیں گے۔
پولیس افسر کہتے ہیں کہ کھیل کے میدان آباد ہونے لگیں تو جرائم کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ایک نامور کھلاڑی کے اقتدار میں کھیلوں کے فروغ کی منصوبہ بندی کیوں نہیں؟ 
گھٹن ہے، جبر ہے، ادبار کا موسم ہے۔ تقریبات لازم ہیں کہ تفریح کے مواقع میسر آئیں۔ سیکھنے سکھانے اور صحت مند رجحانات کو فروغ دینے کا امکان ہو تو سونے پر سہاگہ۔ خون کے چھینٹے اڑانے کا خطرہ کیوں مول لیا جائے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved