تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     16-04-2013

تبدیلی

مذہبی سیاستدانوں نے اقبالؒ اور قائد اعظمؒ کو دقیانوسی ملّا بنا کر ‘ ان کا تاریخی کردار مسخ کرنے کا سلسلہ تو شروع کر ہی رکھا ہے۔ حکمران اور سیاسی جماعتیں بھی اس کھیل میں ملائوں سے پیچھے نہیں۔ ہر سیاسی پارٹی اپنی انتخابی مہم میں‘ کسی نہ کسی طریقے سے قائد اعظمؒ کو گھسیٹ لاتی ہے۔ فوجی حکمران اور سیاسی لیڈر اس معاملے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ہر سیاسی لیڈر نے قائد اعظمؒ کی جماعت مسلم لیگ کو‘ اپنے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا اور چاروں آمروں کے مقاصد کا قائد اعظمؒ کے اصولوں سے دور کا واسطہ نہیں تھا۔ ابھی تک ایک سابق آمر کی یادگار قائد اعظمؒ سے منسوب ہے۔ ایک اور سیاسی جماعت ‘ ان دنوں اپنے انتخابی پراپیگنڈے میں اقبالؒ اور قائد اعظمؒ دونوں کو گھسیٹ لائی ہے۔ اس کے اشتہاروں میں‘ ان دونوں قومی شخصیتوں کے ساتھ پارٹی لیڈر کی تصویر بھی چپکا دی جاتی ہے۔ اس عجیب و غریب کمبینیشن کو دیکھ کر ایک صاحب نے پوچھا کہ’’ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ سے ان صاحب کا کیا واسطہ؟ اقبالؒ ایک عظیم مدبر اور شاعر تھے۔ قائد اعظمؒ برصغیر کے مایہ ناز قانون دان اور لیڈر تھے۔ ان صاحب کو سیاست میں آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے اور ان کا کوئی کارنامہ بھی سامنے نہیں آیا۔ یہ ایڑیاں اٹھانا تو کیا؟ مینارپاکستان پر چڑھ کر بھی کھڑے ہو جائیں‘ تو ان شخصیتوں کے قدوقامت کو چھو تک نہیں سکتے اور چند ٹکے خرچ کر کے‘ ان کی برابری کر رہے ہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’آپ برابری یا ہمسری کے چکر میں نہ پڑیں۔ یہ پاکستان کے ساتھ رشتے کے حوالے سے اپنی تصویر چھپوا رہے ہیں۔‘‘ سوال ہوا۔ ’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ ’’علامہ اقبالؒ نے پاکستان سوچا۔ قائد اعظمؒ نے بنایا اور انہوں نے کمایا۔ان تینوں کا واسطہ بہرحال پاکستان سے ہے۔‘‘ انتخابی مہم میں اس وقت سب سے نمایاں نام تبدیلی کا ہے۔ تبدیلی کا بڑھ چڑھ کر نام لینے والوں کو وہم ہو گیا ہے کہ لوگ ان کے نعرے سے متاثر ہو کر ‘ انہیں انتخابات میں جوق در جوق ووٹ دیں گے۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ہر شخص تبدیلی کا خواہش مند ہے۔ بیشک ہر کوئی اپنی زندگی میں تبدیلی چاہتا ہے۔ یہ پاکستان ہی نہیں‘ دنیا کے ہر شہری کی خواہش ہے۔ لیکن ہر شخص کے نزدیک تبدیلی کا ایک اپنا مفہوم ہوتا ہے۔ باراک اوباما نے جب اپنے پہلے الیکشن میں تبدیلی کا نعرہ لگایا‘ تو اس کا ایک امریکی مفہوم تھا۔ امریکی قوم اس وقت عراق اور افغانستان کی جنگوں سے تنگ آئی ہوئی تھی اور عوام کی خواہش تھی کہ اس تباہ کن جنگی پالیسی سے جان چھڑائی جائے اور امریکی معیشت پر ان بے مقصد جنگوں سے جو تباہ کن اثرات پڑ رہے ہیں‘ ان سے نکلنے کی فیصلہ کن پالیسی مرتب کی جائے۔ اوباما نے اس امریکی خواہش کو سمجھتے ہوئے‘ تبدیلی کا نعرہ دیا اور عوام کو باور کرا دیا کہ وہ امریکہ کو اس بے مقصد جنگ سے جلد نکال لیں گے اور پھر انہوں نے آتے ہی امریکی افواج کو عراق کے میدان جنگ سے نکالنے کا وعدہ پوراکرنے کے اقدامات شروع کر دیئے۔ آج امریکہ کے جنگ لڑنے والے فوجی‘ واپس اپنے ملکوں میں جا چکے ہیں۔ یہ تھا تبدیلی کا وہ نعرہ‘ جس نے امریکہ میں صدر اوباما کو صدارتی الیکشن میں شاندار کامیابی سے ہمکنار کیا۔ دوسرے الیکشن میں انہیں اس نعرے کی ضرورت نہیں پڑی۔ لیکن ہمارے ہاں تبدیلی کے نعرے کے کا کوئی متعین مفہوم عوام کے سامنے نہیں رکھا گیا۔ محض تبدیلی کہہ دینے سے کوئی متعین مفہوم سامنے نہیں آتا۔ تبدیلی کا لفظ ازخود مجرد ہے۔ ’’دنیا نیوز‘‘ پر کامران شاہد کے ٹاک شو میں‘ اس موضوع پر بات ہوئی‘ تو کہا گیا کہ جس طرح قائد اعظمؒ اور بھٹو نے قوم کو بیدار کیا تھا‘ اسی طرح تبدیلی کے نعرے سے بھی عوام متحرک ہو چکے ہیں۔ مجھے عرض کرنا پڑا کہ قائد اعظمؒ ہوں یا بھٹو‘ ان کے نعرے مجرد نہیں تھے۔ حصول پاکستان کا نعرہ ایک ٹھوس زمینی حقیقت رکھتا تھا۔ اس کا نقشہ تصور میں واضح طور سے آ جاتا تھا۔ ایک ایسی قوم جو بھاری اکثریت کے دبائو میں رہنے پر مجبورہو‘ اگر اسے ایک آزاد وطن کا تصور دے دیا جائے‘ تو اس سے خوبصورت اور دلکش کوئی نعرہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ہر شخص تہذیبی رشتوں میں جڑے ہوئے اپنے لوگوں کے ساتھ‘ ایک آزاد وطن میں رہنے کی تمنا رکھتا ہے۔ جس میں کسی دوسری قوم کا اس پر غلبہ نہ ہو۔ بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دے کر تین بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کا خواب دکھایا تھا۔ روٹی کا لفظ کہنے کے بعد مزید کسی تشریح کی گنجائش نہیں رہتی۔ اس ایک لفظ کے ساتھ بھرے پیٹ کی تمام تر آسودگی سمٹ کر ذہن میں آ جاتی ہے۔ اسی طرح کپڑا اور مکان ہے۔ آپ کو کسی عام آدمی کے لئے ان تینوں الفاظ کی تشریح نہیں کرنا پڑتی۔ وہ خود اپنے تصور میں ان تینوں چیزوں کو لا کر ایک اچھی اور خوشحال زندگی کا خواب دیکھ سکتا ہے۔ بھٹو نے یہی خواب دکھایا تھا۔ لیکن جب صرف تبدیلی کا لفظ آتا ہے‘ تو وہ اپنے ساتھ کوئی حقیقی یا مادی تصور لے کر نہیں آتا۔ اس کے ساتھ تبدیلی کا ایک متعینہ مفہوم دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر تبدیلی حکومتی پالیسی میں آناہے‘ تو اس کی وضاحت ایک نعرے کی شکل میں ہونی چاہیے۔ عام آدمی کی زندگی میں آنا ہے‘ تو اس کا خاکہ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ علیٰ ہٰذالقیاس‘ جب تک تبدیلی کے ساتھ اجتماعی خوابوں کی تکمیل کا کوئی واضح نقشہ سامنے نہیں رکھا جاتا‘ تبدیلی کے کشادہ لفظ کو ایک نعرے کی صورت میں عام آدمی کی تمنائوں سے منسلک نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی یہ کسی جماعت یا لیڈر کی علامت بن سکتا ہے۔ جیسا میں عرض کر چکا ہوں‘ امریکہ کے مخصوص حالات میں تبدیلی کا مطلب بے مقصد بیرونی جنگوں کا خاتمہ تھا اور یہ ہر امریکی شہری کی خواہش اور تمنا تھی۔ یہاں تبدیلی کے ساتھ کوئی متعینہ مفہوم عوام کے سامنے نہیں رکھا گیا۔ صرف تقریریں کی جاتی ہیں اور یہ اسی طرح کی ہوتی ہیں‘ جیسے دوسرے لیڈرکرتے رہتے ہیں۔ یہ تصور بھی گمراہ کن ہے کہ ہر ہیرو‘ لیڈر بن سکتا ہے۔ بے شک ہیروورشپ ‘ عوامی جذبات کے بے اختیارانہ اظہار کی طرف لے جاتی ہے اور لوگ اپنی محبت اور عقیدت کے مرکز کو ایک نظر دیکھنے کے لئے بے تاب ہوتے ہیں۔ لیکن اظہارمحبت اور عقیدت کے بعد‘ جذبات کی تسکین ہو جاتی ہے۔ ضروری نہیں کہ لوگ ہیرو کو ووٹ دے کر اسے اپنی تقدیر کا مالک بھی بنا ئیں۔ ٹیکنالوجی کے اس زمانے میں سب سے بڑے اور مقبول ہیرو‘ فلم انڈسٹری نے پیدا کئے ہیں۔ برصغیر کی تاریخ میں جو دو عظیم ہیرو ابھی تک سامنے آئے ہیں‘ ان میں سے ایک دلیپ کمار ہیں‘ جو سیاست کی طرف گئے ہی نہیں اور دوسرے امیتابھ بچن ہیں‘ جو بھارتی قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہو گئے تھے۔ مگر چند ہی روز میں انہوں نے اپنے آپ کو ملک بھر کے منتخب قانون سازوں کے درمیان تنہا پایا‘ تو استعفیٰ دے کے گھر چلے گئے۔ عمران خان بے شک کرکٹ کے کھیل میں ہمارے ملک کے ہیرو ہیں۔ لیکن کوئی بھی اس حیثیت میںسیاسی یا انتخابی طاقت نہیں بن سکتا۔ اس کا ثبوت عمران خان کی ابتدائی سیاسی زندگی میں انہیں مل چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلسل سیاسی جدوجہد جاری رکھ کر‘ انہوں نے اس شعبے میں اپنی ایک حیثیت بنائی ہے اور اس حیثیت میں‘ ان کی ہیروورشپ مدد گارضرور ثابت ہو رہی ہے۔ انہوں نے بعض مقبول منفی نعرے اپنا کر ‘عوام خصوصاً نوجوانوں کی توجہ بھی حاصل کی ہے۔ گویا موجودہ سیاسی لیڈروں‘ ان کی کرپشن اور ریاستی بدانتظامی سے عوام کی بیزاری اور نفرت کے ابھرے ہوئے جذبات کا رخ عمران خان نے اپنی طرف موڑنے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ لیکن ناراض لوگوں کے ساتھ آگے چل کر وہ کیا کریں گے؟ وہ اجتماعی خوابوں کی تکمیل کا کوئی واضح خاکہ ابھی تک سامنے نہیں لا سکے۔ لیڈرشپ کی صلاحیتوں کا پہلا مظاہرہ‘ ٹکٹوں کی تقسیم پردیکھنے میں آیا۔ اس پر میں تبصرہ نہیں کروں گا۔ جولوگ عمران خان کو ولی اللہ کا درجہ دیتے ہیں‘ ان کے لئے میں دعا گو ہوں۔ مگر جہاں تک سیاسی حقائق کا تعلق ہے‘ یہ اولیاء کا میدان نہیں اور نہ ہی آئین کی شق 62 اور 63 کے معیار پر پورا اترنے والا کوئی شخص سیاست میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ میں نے ایک ابھرتی ہوئی سیاسی حقیقت کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسے مخالفت سمجھنے والے حسب روایت مجھے گالیاں دیں گے اور اسے ایک مطالعہ سمجھنے والے‘ اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کریں گے‘ جس کی میں نے نشاندہی کی ہے۔ انتخابی مہم کی تیز رفتار میں تین ہفتے کسی کمی کو پورا کرنے کے لئے بہت ہوتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved