سندھ خصوصاً کراچی احتساب کے ریڈار پر آ چکا ہے۔ زرداری اینڈ کمپنی کے بعد اب ''خدمتِ خلق فاؤنڈیشن‘‘ کا پول بھی کھل چکا ہے۔ چندوں، بھتوں، لوٹ مار، دادا گیری، قتل و غارت اور دیگر ذرائع سے سمیٹے ہوئے حرام مال سے ''دیوتا سمّان‘‘ وطن دشمن قائد کو پالنے والے ایم کیو ایم کے پچاس سے زائد سرکردہ رہنما اس ریڈار کی زد میں ہیں۔ ایم کیو ایم وفاق میں حکومتی حلیف اور شریک اقتدار ہے‘ جبکہ مملکتِ خدا داد کے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کا نام بھی اسی ریڈار پر ہے۔ وزیر قانون بھی اپنے قائد کی اطاعت گزاری میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ بابر غوری، خالد مقبول صدیقی، وسیم اختر، رؤف صدیقی، ارشد وہرہ سمیت کئی اہم شخصیات اپنے قائد کو لوٹ کے مال سے پالتی رہیں اور آج مکافاتِ عمل کی تصویر نظر آ رہی ہیں۔ آج نہیں تو کل وہ اپنے اعمال کی کھیتی ضرور کاٹتی نظر آئیں گی۔
جب قانونِ فطرت حرکت میں آتا ہے تو ساری احتیاطیں، پیش بندیاں، حکمتِ عملیاں، چالاکیاں اور ہوشیاریاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ ریاست کے قانون کو گھر کی باندی سمجھ کر انگلیوں پر نچوانے والوں کے لیے وہی قانون گلے کا پھندہ بن جاتا ہے‘ پھر وکالتیں اور عدالتیں بھی پناہ دینے سے انکاری ہو جاتی ہیں کیونکہ ''آسمانی فیصلوںکے آگے... زمینی وکالتیں نہیں چلتیں‘‘۔
کراچی کے عوام کو سلام ہے کہ جنہوں نے کئی دہائیوں تک اس عذابِ مسلسل کو جھیلا۔ سیاسی مصلحتیں ہوں یا اقتدار کی بھوک‘ ہر حکمران نے اس ناسور کو گلے سے لگایا اور جو ظلم کمایا‘ وہ آج سب کے سامنے ہے۔ ماضی کے سارے حکمران اس کے شریک جرم ہیں‘ جس کا ایک ایک نوالہ کراچی کے معصوم عوام کے خون کے چھینٹوں سے تر ہے۔ کتنا خون بہایا گیا؟ کتنی ماؤں کی گود اُجاڑی گئی؟ کتنے سہاگ دن دیہاڑے خون میں نہلائے گئے؟ کتنی بہنوں کے بھائی آج تک گھر نہیں لوٹے؟ کتنے بچوں کو یتیمی کا روگ لگایا گیا؟ نواز شریف ہو یا بے نظیر... پرویز مشرف ہو یا آصف علی زرداری سب کے ہاتھ کراچی کے خون میں رنگے ہوئے ہیں۔ کراچی کی بربادی اور تباہی کے سبھی ذمہ دار ہیں۔
خدا اِن سے پوچھے جنہوں نے جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں لگائے گئے اس زہریلے اور جان لیوا پودے کو بھر بھر مشکیں ڈال کر پروان چڑھایا... ایم کیو ایم کو پروان چڑھانے والے آج کس حال میں ہیں؟ مکافاتِ عمل کا سلسلہ جاری ہے اور سارے کردار اپنا انجام اپنی آنکھوں سے ہی دیکھ رہے ہیں... اگر کمی ہے تو عبرت پکڑنے والوں کی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت وقت چشم کشا اور چونکا دینے والے حقائق منظرِ عام پر آنے کے بعد اپنی حلیف جماعت ایم کیو ایم کو کب تک اپنے گلے سے لگائے رکھتی ہے؟ مصلحتوں اور مجبوریوں کا یہ سفر جاری رہے گا یا حکومت اس طوق کو گلے سے اُتار پھینکے گی؟ ویسے بھی وطن دشمن کے سہولت کاروں اور پیروکاروں کو کیا نام دینے چاہئیں؟ انہیں کس نام سے پکارا جائے؟ کیا یہ کہہ دینا کافی ہو گا کہ وہ اب تائب ہو چکے ہیں اور اپنے وطن دشمن قائد سے لا تعلقی اختیار کر چکے ہیں؟ ہرگز نہیں... سو جواز، توجیہات اور بہانے گھڑ لیں لیکن اب نہیں... مصلحتوں اور مجبوریوں کی سیاست کی قیمت اب عوام کے جان و مال سے نہیں چکائی جائے گی... حکمرانوں کو ایم کیو ایم کے شریک جرم سیاست دانوں اور حکومتوں سے سبق اور عبرت لینا ہو گی۔ جنہوں نے مصلحتوں اور مجبوریوں کو گلے کا ہار بنایا تو وہی مجبوریاں اُن کے گلے کا طوق بن گئیں۔
جنرل آصف نواز جنجوعہ نے جب کراچی میں آپریشن شروع کیا تھا تو سب سے پہلے ''حاکمِ وقت‘‘ نواز شریف کو اپنے اقتدار کے لالے پڑ گئے تھے... عقوبت خانوں کی دلخراش داستانیں جب منظرِ عام پر آئیں تو ہر دردِ دل رکھنے والا لرز کر رہ گیا... نہیں لرزے تو مجبوریوں اور مصلحتوں کے مارے سیاستدان نہیں لرزے... کیسا کیسا انمول ہیرا ایم کیو ایم کے غضب کا نشانہ نہیں بنا۔ کیسی کیسی قد آور شخصیات کی آواز ہمیشہ کے لیے بند کر دی گئی اور پھر ''جعلی بیمار‘‘ اور وطن دشمن کو کس طرح ملک سے فرار کروایا گیا... اس درد ناک ماضی کو کون جھٹلا سکتا ہے۔
اب وقت آن پہنچا ہے کہ موجودہ حکمران بھی ہوش کے ناخن لیں... دن دیہاڑے اور تاریک راتوں میں ناحق مارے جانے والے معصوم شہریوں کو اقتدار کے تسلسل اور استحکام کی بھینٹ چڑھانا بھی ایک اور سانحہ ہو گا... اور آنے والا مؤرخ ایک بار پھر لکھے گا کہ کراچی کے عوام کا ناحق بہایا گیا خون اقتدار کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ مملکتِ خدا داد کے طول و عرض میں کوئی ایسا قابلِ ذکر سیاستدان نہیں جو اپنی مجبوریوں کے آگے گھٹنے ٹیک کر اس وطن دشمن کے در پر نہیں گیا۔ بڑے بڑے جمہوریت کے علم بردار اور عوام کے غم میں مرے جانے والے سیاستدان اپنے وسیع تر مفاد میں مفاہمت اور تعاون کی بھیک کے لیے سوالی بن کر اس کے در پر حاضری دیتے رہے‘ اور اس تعاون کے عوض شہر قائد میں چشمِ فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جس نے آنکھ اٹھائی... وہ پھر سر اُٹھا کر نہ چل سکا... سیاسی مفاہمت اور تعاون کے نتیجے میں ہونے والے یہ گٹھ جوڑ کراچی کے عوام کے لیے عذابِ مسلسل ہی بنا رہا۔ حکمرانوں نے ایم کیو ایم کو سیاسی تعاون کے عوض ''لائسنس ٹو کِل‘‘ دئیے رکھا۔ یعنی شہر قائد کے عوام وطن دشمنوں کے رحم و کرم پر ہی رہے۔
عوام ایم کیو ایم کے ہاتھوں اپنے ہی شہر میں محصور ہو کر رہ گئے تھے۔ کسی بڑے سے بڑے کاروباری کی مجال نہ تھی کہ وہ بھتے کی پرچی پر مطلوبہ رقم بروقت نہ پہنچائے اور جس نے مزاحمت کا سوچا بھی‘ وہ اگلے جہان بھیج دیا گیا۔ کسی سرکاری افسر یا اہلکار کی کیا حیثیت کہ وہ اُن کی منشاء کے مطابق کام نہ کرے... ایم کیو ایم کے مد مقابل الیکشن لڑنا تو موت کو کھلی دعوت دینے کے مترادف تھا۔ ماسوائے بڑی سیاسی جماعتوں کے... کوئی عام شہری الیکشن لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اُسے سیدھا سیدھا پیغام بھیجا جاتا کہ ''بیٹھنا ہے یا لیٹنا ہے‘‘...؟ مطلب ہمارے حق میں بیٹھ جاؤ وگرنہ قبر میں لِٹا دئیے جاؤ گے۔ اس میں تھوڑا بہت قصور کراچی کے عوام کا بھی ہے کہ انہوں نے شہرِ قائد میں رہتے ہوئے ہی اپنا قائد بدل ڈالا... پھر جیسا قائد ویسا سلوک بھی ہوا... جبکہ کراچی والوں کے پاس اس کی اپنی اپنی توجیہات اور وضاحتیں ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ جان بچانا فرض تھی تو کوئی کہتا ہے‘ مال بچانا لازم تھا۔
خیر جو بھی ہوا بہت ہی بُرا ہوا۔ شہر قائد کی بربادی اور لوٹ مار میں ان کے اپنے ہی شہر کا میئر بھی ''رنگے ہاتھ‘‘ لیے پھر رہا ہے اور اس نے بھی اپنے قائد کی تابعداری میں جو کیا بُرا کیا... بلکہ بہت ہی برا کیا... اسی طرح ایم کیو ایم کے دیگر قائدین بھی جھوٹے سچے جواز تراشے پھر رہے ہیں... کچھ بہ آسانی فرار ہو چکے ہیں تو کچھ یہاں رہ کر نیا جال اور نیا بیانیہ لیے سرگرم ہیں۔
جناب وزیر اعظم! قوم آپ سے بے تحاشا اُمیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ کیا فیصلے کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں آپ پر کڑی آزمائش کے ساتھ بھاری ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بد بو دار روایت اور مفاہمت کی سیاست کے تابوت میں آخری کیل ٹھوک دیں... تمام مجبوریوں اور سیاسی مصلحتوں سے بالا تر ہو کر فیصلے کریں اور ایم کیو ایم کو پروان چڑھانے اور بلیک میل ہونے والے سیاست دانوں اور حکمرانوں سے سبق حاصل کریں۔ مصلحتوں سے بالا تر فیصلوں کا عوام یقینا خیر مقدم کریں گے۔