جھگڑا جب طول پکڑنے لگا تو بیوی بولی:چراغ لے کر بھی ڈھونڈو گے تو میرے جیسی بیوی نہیں ملے گی۔''لیکن یہ تمہیں کس نے بتایا کہ میں دوبارہ بھی تمہارے جیسی عورت سے شادی کروں گا‘‘ خاوند بولا۔حق بات بھی یہی ہے کہ اگر پہلے ہی جیسی خاتون سے دوسری شادی کرنی ہو تو بہتر یہی ہے کہ پہلی ہی پر قناعت کی جائے، یعنی صبر کر لیا جائے۔ بیویوں کی تعداد کے بارے میں ثقہ رائے تو یہ ہے کہ ایک بھی زیادہ ہوتی ہے۔ البتہ پہلی بیوی بالکل ہی ناکارہ ہو جائے تو دوسری کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ تاہم پہلی بیوی بالعموم اتنی ناکارہ ہوتی نہیں جتنی بظاہر دکھائی دیتی ہے ‘کیونکہ جہاں تک دکھائی دینے کا تعلق ہے تو انگریزی محاورے کے مطابق دوسرے کی بیوی زیادہ خوبصورت لگتی ہے، بلکہ بعض اوقات ہوتی بھی ہے۔ ایک شخص بازار میں پریشان پھر رہا تھا کہ ایک دوست سے اس کی مڈ بھیڑ ہو گئی جس نے پوچھا کہ کدھر پھر رہے ہو۔ تو اس نے جواب دیا کہ ہم شاپنگ کے لیے آئے تھے‘ لیکن میری بیوی بھیڑ میں کہیں گم ہو گئی ہے، اُسے ڈھونڈ رہا ہوں، تو پہلے نے پوچھا کہ تمہاری بیوی کا حلیہ کیسا ہے، تو اس نے بتایا کہ منہ پر چیچک کے داغ ہیں رنگ سیاہ ہے اور موٹی بھی ہے تو دوست نے پوچھا کہ تمہاری بیوی کیسی ہے تو اس نے کہا کہ دراز قد، گوری رنگت، سمارٹ اور بے حد خوبصورت۔ تو پہلا بولا:''میری بیوی پر لعنت بھیجتے ہیں اور دونوں مل کر تمہاری بیوی کو ڈھونڈتے ہیں!‘‘
کہتے ہیں کہ ماؤں کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے، تاہم اس جنت کے مالک کی رائے کافی مختلف پائی گئی ہے۔ ٹی وی اور بیوی چونکہ ہم قافیہ ہیں اس لیے پرانی فلموں کی طرح بیویاں بلیک اینڈ وائٹ ہی میں نظر آئیں گی۔اول تو کوئی شخص بقائمی ہوش و حواس ایک بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری بیوی لانے پر تیار نہیں ہو سکتا بلکہ پہلی بیوی لانے کے نتیجے میں ہی اس کے ہوش و حواس قائم ہونا کافی حد تک مشکوک ہو چکے ہوتے ہیں ‘اس لیے بہتر ہے کہ پہلی کی بجائے دوسری شادی کی جائے تاکہ شوق بھی پورا ہو جائے اور پہلی بیوی سے بھی مستقل طور پر نجات حاصل رہے۔ اگرچہ پہلی بیوی سے گلوخلاصی کے لیے ایک نئی قسم کا وٹہ سٹہ بھی شامل ہے جس پر حال ہی میں ایک جوانمرد نے عمل بھی کر کے دکھا دیا ہے۔ ہماری مُراد کوٹ غلام کے ماشکی فقیرا سے ہے جس نے ایک اخباری اطلاع کے مطابق ایک شخص کو ایک بیل کے بدلے اپنی بیوی دے دی تفصیل کے مطابق فقیرا کا بیل مر گیا جس کے باعث اسے لوگوں کے لیے پانی کی فراہمی میں کافی دشواری کا سامنا تھا۔ فقیرا نے ایک دوسرے ماشکی سے بیل اُدھار مانگا جس نے انکار کر دیا۔ بیل خریدنے کے لیے فقیرا کے پاس رقم نہ تھی جس نے حال ہی میں دوسری شادی کی تھی۔ دوسرے ماشکی نے بیل کے عوض اُس کی پہلی بیوی مانگی۔ فقیرا راضی ہو گیا۔ بہرحال، ضرورت ایجاد کی ماں ہے، جسے بیل کی ضرورت تھی، اسے بیل مل گیا اور جسے بیوی درکار تھی اسے بیوی مل گئی۔ چنانچہ اس میں گھاٹے کا تو سوال ہی نہیں ہے، یعنی ؎
اے دل تمام نفع ہے سودائے عشق میں
اک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں
بلکہ اک بیل کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں، بلکہ بیوی حاصل کرنے کے بعد بھی دوسرے ماشکی کو ایک تو بیوی اوپر سے وہ بھی پرانی ملی کہ اس سے تو پرانا گُڑ ہی بہتر ہوتا ہے۔ بہرحال، نیا نو دن، پرانا سو دن کے مصداق دوسرے ماشکی کو یہ پرانی بیوی ہی زیادہ سازگار لگی ہوگی۔
ایک ضیافت میں ایک مہمان نے میزبان سے پوچھا''وہ جو ٹی وی کے پاس بدصورت عورت کھڑی ہے۔ وہ کون ہے؟‘‘۔''میری بیوی ہے‘‘ میزبان نے جواب دیا ۔اس پر مہمان بولا''معاف کیجئے گا، مجھ سے غلطی ہوئی!‘‘۔''آپ سے نہیں، غلطی تو مجھ سے ہوئی ہے‘‘ میزبان بولا۔عرض کرنے کا مقصد یہی ہے کہ آدمی شادی کرتے وقت تو غلطی کر سکتا ہے، بیوی کی ادلا بدلی کے وقت نہیں کیونکہ آپ ایک غلطی سے خود نجات حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض بیویاںضرورت سے زیادہ ہی سرد مہر واقع ہوتی ہیں۔ اسی طرح ایک صاحب نے اپنے دوست سے پوچھا ''یار بیوی کو رام کرنے کا کوئی طریقہ تو بتاؤ؟‘‘،''اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ بیوی حسین نہ بھی ہو تو اُس کے حُسن کی تعریف کرتے رہو‘‘ دوست بولا۔وہ صاحب گھر گئے، تو بیوی آٹا گوندھ رہی تھی۔ وہ بولے ''بہت خوبصورت لگ رہی ہو!‘‘،''کیا کہا؟‘‘ بیوی سر اُٹھا کر بولی۔''خدا کی قسم بالکل حُور لگ رہی ہو‘‘ وہ صاحب بولے۔یہ سُن کر بیوی نے رونا شروع کر دیا۔ موصوف کہنے لگے کہ میں نے تمہاری تعریف کی ہے اور تم نے رونا شروع کر دیا ہے! اس پر بیوی بولی''روؤں نہ تو اور کیا کروں، بڑی بیٹی نے ڈنر سیٹ توڑ دیا ہے، چھوٹی نے سلائی مشین میں انگلی دے کر زخمی کر لی ہے اور بیٹا سکول میں بستہ گُم کر آیا ہے۔ اُوپر سے آپ شراب پی کر آ گئے ہیں!‘‘
بیوی بیمار پڑ جائے تو ایک تو گھر کا سارا نظام ہی درہم برہم ہو جاتا ہے اور دوسرا رفیقۂ حیات کے بچھڑنے کا خدشہ، ایک صاحب کی بیوی کی علالت نے جب بہت طول کھینچا تو وہ اپنے میاں سے کہنے لگی''میں سوچ رہی ہوں کہ اگر میں مر گئی تو تمہارا کیا بنے گا‘‘، تو میاں بولے''اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر تم نہ مریں تو پھر میرا کیا بنے گا؟‘‘ اس لیے بیوی بیمار پڑ جائے تو شوہر طوعاً و کرہاًاس کا علاج بھی کرواتا ہے اور اس اندھیرے میں دُور سے اسے ایک اُمید کی کرن بھی دکھائی دیتی ہے جس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دُنیا واقعی اُمید پر قائم ہے!
آج کا مطلع:
آگے ہی بڑھنا ہے،اب پیچھے تو ہٹ جانا نہیں
جو بھی کر لیں آپ،ہم نے باز تو آنا نہیں