فوجی دستوں کی واپسی معمولی بات نہ تھی۔یہ بات امریکہ کی سنجیدگی کو بھی ظاہر کرنے لگی کہ وہ فوجیوں کی بحفاظت واپسی کا خواہاں ہے۔کوئی فریق اس جنگ میں شدت نہیں چاہتا ۔طالبان رہنما‘امریکہ کے فوجی انخلا ء کو مثبت سمجھ کر دو قدم آگے بڑھے۔ہمسایہ ممالک ایران‘روس‘چین اور پاکستان‘ افغانستان میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔تمام ممالک امریکی افواج کا انخلاء چاہتے ہیں‘مگر یہ واپسی حقیقی ہونا چاہیے‘ کیونکہ اس سے قبل باراک اوباما انتظامیہ بھی اعلان کر چکی تھی۔ سوائے ‘ بھارت کے سارے ممالک ا فغانستان میں امریکی موجودگی اور اثرورسوخ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ٹرمپ انتظامیہ نے فوجی انخلاء کا اعلان تو کر د یا ‘ دوسری جانب وسطی ایشیا پر اپنی دھاک بٹھانے کے عزم سے پیچھے نہ ہٹنے کا اشارہ ہی کافی ہے۔انخلاء کا فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ پر گھائو تو ہے‘ مگر وہ افغان حکام اور خلیل زاد سے مسلسل رابطے میں ہے اور مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے۔اس فیصلے کے چند دنوں بعد افغان صدر‘ اشرف غنی کی جانب سے بیان بھی سامنے آیا ‘جس میں انہوں نے طالبان اور مخالف قوتوں کے درمیان دو لکیریں کھینچتے ہوئے کہا کہ جنگ بندی کا فیصلہ‘ امن قائم کرنے کے لیے کیا گیا ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم سارے فیصلے قبول کریں۔ ٹرمپ کا فیصلہ ان کا ذاتی ہے ۔
امریکہ اور چین کے تنازعات اتنے مردہ نہیں کہ ان کا ذکر نہ کیا جائے۔مسئلہ صرف واشنگٹن یا بیجنگ کے درمیان تجارت کا نہیں‘کئی اور بھی ہیں ۔تنازعات تین دہائیوں سے چلے آرہے ہیں‘خاص طور پر جب امریکہ نے تائیوان کی احتجاجاًحمایت کی تھی۔تائیوان اور چین کے درمیان سمندری حدود پر کئی دہائیوں سے متنازعہ موضوع بحث رہا ہے۔امریکہ اس تنازعہ میں بلاوجہ فریق بنا ہوا ہے۔چینی صدر شی جن پنگ نے پہلے ہی اپنی عسکری قیادت اور پارٹی رہنمائوں کو اعتماد میں لیا ہوا ہے کہ اگر امریکہ کوئی بھی شدت پسندانہ قدم اٹھائے گا تو اس کانہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا‘بلکہ اسے سبق بھی سکھایا جائے گا ۔ امریکہ‘ چین اور روس کو اپنا سب سے بڑا حریف قراردے چکا ہے ۔ گزشتہ چند سال سے دہشت گردی کی کارروائیوں میں کمی دیکھنے کو آئی۔چین نے تین کینیڈین نژادافراد کو قانون کی پاسداری نہ کرنے پر تحویل میں لیا‘جس کے رد عمل میں کینیڈا نے الیکٹرونکس کی عالمی کمپنی کے مالک مینگ واژو کو گرفتار کیا ۔جواز یہ بنایا گیا کہ انہوں نے ایران پر امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کی ہے اور ان کی کمپنی کے پروڈکٹس کو امریکہ میں بین کردیا گیا۔
حقیقی طور پرچین کھل کر جنگ عظیم کا اعلان یا براہ راست لڑنے پر آمادگی ظاہر نہیں کرنا چاہتا‘مگرامریکہ کے ساتھ خفیہ طور پر دو دو ہاتھ کرنے پر مضطرب رہا ہے۔چین کی پہلی ترجیح ہمسایہ ممالک سے روابط اچھے کرکے‘ امریکہ کے اس علاقے پر اثرورسوخ کو ختم کرنا ہے۔امریکہ اور اس کے اتحادی اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے اور علاقے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے اقدامات کررہے ہیں اور سر جوڑے بیٹھے ہیں۔چینی اور امریکی تنازعات خطے میں پریشان کن حالات پیدا کیے ہوئے ہیں۔دو بڑی طاقتوں کا گتھم گتھا ہونا یقینا کوئی خوشی کی خبر نہیں ۔چین‘ شمالی کوریا پر لگی پابندیوں پر نرمی کوسنجیدگی سے لے رہاہے‘وہیں شمالی چینی سمندر پر اصل توجہ مرکوز بھی کیے ہوئے ہے۔دو دہائیوں سے چین اور امریکہ کے لیے یہ مسئلہ درد سر بنا ہوا ہے ۔دونوں طرف کے جہاز اس علاقے میں گشت کر تے رہے ہیں۔بیجنگ اس بات پر زور دیتا آرہاہے کہ 90فیصد حصہ اس کا ہے۔ ملا ئیشیا ‘فلپائن اور ویت نام ان علاقوں میںمصنوعی جزیرے بنائے ہوئے ہیں۔چین کا ہمیشہ یہ بیانیہ رہا ہے کہ وہ ایک بڑی سمندری حدود رکھتا ہے۔یقیناان علاقوں میں مصنوعی جزیرے بنانا ایک غیر قانونی عمل ہے۔امریکہ اس بات پر زور دیتا آرہا ہے کہ اگر چین ان علاقوں میں اپنے مزید مصنوعی جزیرے بناتا ہے‘ تو عالمی تجارت کی آمدورفت میں خلل پیدا ہو گا‘ جس کی مالیت سالانہ 5ارب ڈالر کے قریب ہے۔چین اور امریکہ کے درمیان گزشتہ سال کے آخر میں کئی تجارتی معاہدے ہوئے‘توقع کی جانے لگی کہ ان معاہدوں کی بدولت دونوں ممالک میں کشیدگی کم ہوگی۔قلیل عرصے میں اس کا کم ہونا زمینی حقائق کے منافی ہے۔
2018ء اور2019ء سعودی عرب‘ ایران‘ اسرائیل اورامریکہ کے باہمی تعلقات میں واضح تصویر نہیں کھینچ رہے۔پہلے تین ایرانیوں کے خدشات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کو مزید پابندیوں کاسامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ 2015ء کے نیوکلیئر معاہدے ختم ہونے کے بعد ہر طرف سے ایران پر دبائو بڑھا۔اس دباو ٔکی بنا پر ریاض نے بھی ایران کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیں۔سعودی شہزادے محمد بن سلمان کا رویہ ڈھکا چھپا نہیں ۔ انہوں نے ایران پر لیبیا ‘عراق اور یمن کی طرز پر چڑھائی کرنے کا عندیہ دیا۔اسرائیل‘ شام پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے ۔ وہاں انہیں ایرانیوں کو نشانہ بناتے ہوئے دیکھا گیا۔دوسری جانب لبنان میں اسے حزب اللہ کی جانب سے خدشات ہیں کہ وہ اسے نقصان پہنچا رہی ہے۔
امریکہ کے لیے اصل پریشانی کا سبب نیوکلیئر معاہدے کے ختم ہونے کے بعد پابندیوں کے باوجود‘ دوسرے ممالک کا تہران کے ساتھ تجارت جاری رکھنے کا عمل ہے ۔ امریکی پابندیاں ایران کو یورپی ممالک ‘چین اور روس کے قریب بھی کیے ہوئے ہیں۔ایرانی حکام لگاتار ان ممالک سے روابط بڑھانے لگے ہیں۔ایران کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے بیانات داغ چکا ہے؛اگر امریکہ زیادہ دبائو بڑھاتا ہے‘ تو وہ عراق میں موجود امریکی فوجیوں کو نشانہ بناتا ہے۔ان کاخاص طور پر نشانہ وہ علاقے ہوتے ہیں‘ جہاں امریکی قیام پذیر ہیں ۔ ایران اور سعودی عرب‘ وسطی لبنان اور یمن میں پراکسی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں ۔یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔حوثیوں کے میزائل سعودیہ کے شہری علاقوں اور سمندر میں ان کے جہازوں کو نشانہ بناتے ہیں۔تنازعہ گمبھیر ہوتا جا رہا تھا ۔فی الوقت جنگ بندی پر اکتفاہوا۔شام میں اسرائیل بغیر کسی منظم جنگ کے شام میں ایرانیوں کو نشانہ بناتا رہا۔ ایرانی بھی اس بات سے بخوبی واقف ہیں ۔ان کے پھیلائے ہوئے پائوںمسائل پیدا کر رہے ہیں‘ مگر حقائق جاننے کے باوجود ‘وہ یہ خطرہ اٹھائے ہوئے ہیں۔گزشتہ سال قتل ہونے والے صحافی جمال خشوگی کے بعد کی صورتحال ‘امریکہ کا سعودی عرب پر دبائو اور یمن کے حوالے سے سعودی عرب پر تنقید‘ ایران کے لیے نئی بات تھی۔حالات نئی سمت جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ 2018ء میں بشار الاسد کو ایرانیوں اور روسیوں کی حمایت نے کافی سہارا دیا۔مخالفین سے لڑائی میں اس کی پوزیشن واضح ہوئی اوراسلامی ریاست کے خلاف جنگ میں کمی دیکھنے کو ملی۔ (جاری)