تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     06-01-2019

چھیالیس سال کا لمحہ

نماز عصر ادا کی جا چکی تھی، جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن کراچی سے آئے تھے، شاہ خالد کے معالج ڈاکٹر غلام اکبر خان نیازی بھی موجود تھے۔ لیاقت بلوچ، منفرد دانشور احمد جاوید، الخدمت کے سربراہ عبدالشکور، برادران حفیظ اللہ نیازی اور وحید چودھری، ڈاکٹر فرید پراچہ، ڈاکٹر حسین احمد پراچہ، مولانا مودودی کے بڑے اور چھوٹے صاحبزادے سید عمر فاروق اور خالد فاروق، میاں طفیل محمد کے فرزند ارجمند احسن اور جماعت اسلامی کے کئی سرد و گرم چشیدہ رہنما بھی تشریف فرما تھے۔ پنجاب سکول کی جوہر ٹائون برانچ میں ایک جدید آڈیٹوریم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے نام سے منسوب کیا جا رہا تھا۔ سید منور حسن نے تختی کی نقاب کشائی کی اور آڈیٹوریم حضرات و خواتین سے بھر گیا۔ مختصر تقاریر کا دور شروع ہوا۔ برادرم عبدالشکور گفتگو کر رہے تھے کہ میرے فون کی گھنٹی بجی، کراچی سے میرے بھتیجے عمران شامی کی آواز تھی۔ اختر پھوپھا انتقال کر گئے ہیں... اس کے ساتھ ہی اسلام آباد سے میرے بھانجے ڈاکٹر محمد اویس اختر کا پیغام موصول ہوا، ماموں، ابو اس دنیا میں نہیں رہے۔ اختر صاحب کی طبیعت تو خراب تھی، وہ اسلام آباد میں اپنے بیٹے کے پاس گئے ہوئے تھے، جہاں الشفا میں ان کا ہرنیا کا آپریشن ہوا تھا۔ دو ہی روز پہلے انہیں صحت کا مژدہ سنا کر ہسپتال سے رخصت کر دیا گیا تھا۔ بلڈ پریشر، شوگر، ہارٹ بیٹ سب معمول کے مطابق تھے کہ اچانک دل بیٹھ گیا۔ میرے بھانجے بحریہ ٹائون میں رہائش پذیر ہیں، میری ہمشیرہ انہیں لے کر ہسپتال پہنچی تو مسلح افواج کے امراض دل کے ہسپتال کا پروانہ تھما دیا گیا، وہاں پہنچے سے پہلے ہی حرکت قلب بند ہو چکی تھی... چند لمحوں میں عبدالشکور صاحب نے بات ختم کر لی، تو وقاص صاحب نے میرا نام پکارا، فوراً حواس کو مجتمع کیا، تقریب کو ذاتی غم سے بد مزہ کرنا مناسب نہیں تھا، سو چند الفاظ میں بات سمیٹ دی۔ سٹیج سے اترتے ہی مَیں بغلی دروازے سے گھر روانہ ہو گیا، تاکہ مرحوم کے سفر آخرت اور اس میں شرکت کی تفصیلات طے کی جا سکیں۔ موسم خراب اور سفر دشوار تھا، لیکن میت ساہیوال لا کر سپرد خاک کرنے کا فیصلہ ہوا کہ وہیں مرحوم کی رہائش گاہ تھی۔ چھیالیس سال پہلے شیخ محمد اختر کی شادی میری ہمشیرہ روبینہ سے ساہیوال ہی میں ہوئی تھی۔ گزرے ہوئے ماہ و سال کی فلم آنکھوں کے سامنے چلنے لگی۔
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے 16 دسمبر 1971ء کے سانحے کے بعد اقتدار یوں سنبھالا کہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر آغا جنرل محمد یحییٰ نے اپنی ٹوپی ان کو پہنا دی۔ وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے اور تا دمِ تحریر آخری سول چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیئے گئے۔ جنرل یحییٰ صدارت کا منصب بھی سنبھالے ہوئے تھے، اس لئے ذوالفقار علی بھٹو صدر بھی قرار پائے۔ یوں پاکستان میں گزشتہ ایک سال سے جاری انتقال اقتدار کا ''معمہ‘‘ حل ہو گیا۔ یہ وہ ملک تو نہیں تھا جس کے انتخابات دسمبر 1970ء میں ہوئے تھے۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا تھا، اور مغربی پاکستان، جسے نئے صدر نے نیا پاکستان کہہ کر پکارا، ایک الگ ملک کے طور پر اپنے وجود کا احساس دلانے میں کامیاب تھا۔ بھٹو صاحب نے اپنی اولین تقریر میں تعمیر نو کا عزم ظاہر کیا، اور افسردہ دلوں کو نیا حوصلہ دینے کی کوشش کی، لیکن مارشل لاء کے خاتمے کے لئے کوئی واضح تاریخ نہ دے سکے... اپنے پہلے نشریئے ہی میں انہوں نے نیشنل پریس ٹرسٹ کے انگریزی روزنامے ''پاکستان ٹائمز‘‘ کے چیف ایڈیٹر زیڈ اے سلہری کو ان کے عہدے سے برطرف کرنے کا حکم بھی صادر فرما دیا... زیڈ اے سلہری مرحوم، چوٹی کے اخبار نویسوں میں شمار ہوتے تھے اور بھٹو مرحوم کے مخالف سمجھے جاتے تھے۔ اس فوری فیصلے نے واضح کر دیا کہ نئے حکمران صبر اور حوصلے سے کام لینے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ اس سے ان کے حلقہ اختلاف میں سردی کی ایک لہر سی دوڑگئی۔ مَیں ان دنوں ہفت روزہ ''زندگی‘‘ کا ایڈیٹر تھا اور مدیر ''اردو ڈائجسٹ‘‘ جناب الطاف حسن قریشی کے زیر نگرانی اپنے فرائض ادا کر رہا تھا۔ ہفت روزہ زندگی انتخابی مہم کے دوران بھٹو صاحب کا ناقد رہا تھا، اور ان کے اسلوب سیاست سے اختلاف کے حوالے سے اس کی آواز انتہائی پُر زور تھی۔ بھٹو صاحب کا مارشل لاء ہمیں منظور نہیں تھا۔ جنرل یحییٰ خان اور ان کے ٹولے کے خلاف مقدمے کا مطالبہ بھی پورے شد و مد سے کیا جا رہا تھا۔ نئی حکومت کے ساتھ بن نہیں پا رہی تھی۔ عبدالحفیظ پیرزادہ کے پاس وزارت اطلاعات کا چارج تھا۔ پھر یہ مولانا کوثر نیازی کے پاس آیا، ابتدائی چند ماہ ہمارے لئے کٹھن ثابت ہوئے۔ ہفت روزہ ''زندگی‘‘ اور ماہنامہ ''اردو ڈائجسٹ‘‘ کے پبلشر اور ایڈیٹر الطاف حسن قریشی، ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اور راقم الحروف مارشل لاء کے تحت گرفتار کر لئے گئے۔ 
سرسری سماعت کی فوجی عدالت نے ہمیں ایک ایک سال قید اور بھاری جرمانوں کی سزائیں سنائیں۔ یاد پڑتا ہے کہ مجھے تین لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا تھا، چند ہفتے کوٹ لکھپت جیل میں گزارے، اس کے بعد ہمیں صوبے کی مختلف جیلوں میں منتقل کر دیا گیا۔ میرا قرعہ سیالکوٹ جیل کے لئے نکلا، باقاعدہ ہتھکڑی لگا کر وہاں پہنچا دیا گیا... چند ہی روز گزرے تھے کہ ساہیوال سے ''ملاقات‘‘ آئی، یاد نہیں آ رہا کہ والدہ مرحومہ والد صاحب کے ساتھ آئی تھیں یا دفتر کے کسی رفیق کے ہمراہ، بلند حوصلے کے ساتھ ان کی دعائیں وصول کیں۔ میری چھوٹی بہن روبینہ کا رشتہ ساہیوال کے ایک سینئر وکیل شیخ سردار محمد کے چھوٹے بیٹے شیخ محمد اختر سے طے ہوا تھا۔ میں ایک سال کی سزا کاٹ رہا تھا، اس لئے مشورہ طلب بات یہ تھی کہ بہن کی رخصتی کے لئے انتظار کیا جائے یا جلد اس فرض سے سبکدوش ہو جایا جائے۔ ڈبڈباتی آنکھوں کے ساتھ اصرار کیاکہ شادی میں تاخیر نہ کی جائے۔ کیا خبر کب رہائی ہوتی ہے، اور ہوتی بھی ہے یا کسی اور مقدمے میں دھر لیا جاتا ہے... بڑے مقاصد کے لئے مصروف جہد ہوں تو ذاتی معاملات اور جذبات سے اوپر اٹھ جانا چاہئے... چند ہی روز بعد میری بہن کی شادی کی تقریب ساہیوال میں منعقد ہوئی، اور وہ اپنے، اس گھر کو پیاری ہو گئی‘ جسے سسرال کہتے ہیں۔ دولہا شیخ محمد اختر کے تایا شیخ خورشید (غالباً) متحدہ پنجاب کے پہلے مسلمان تھے جو ڈپٹی کمشنر کے منصب پر فائز ہوئے۔ قائد اعظمؒ ایک بار جالندھر آئے تو انہی کی رہائش گاہ پر قیام کیا۔ اس دورے کی تصویر آج بھی محفوظ ہے اور پورے خاندان کے لئے وجہ افتخار و اعزاز ہے... کرنا خدا کا یہ ہوا کہ لاہور ہائی کورٹ نے ہماری رٹ پٹیشن منظور کرتے ہوئے سزا پوری ہونے سے پہلے رہا کر دیا اور اس چھوٹی جیل سے باہر آ گئے۔
شیخ محمد اختر کے تایا کے نام پر بوریوالہ کے قریب ''خورشید آباد‘‘ نامی گائوں آباد ہے۔ اسے ''ڈپٹیوں کی لاٹ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا روزگار کاشتکاری سے وابستہ تھا، اور ہمارے خاندان میں اس لحاظ سے ان کی حیثیت منفرد تھی۔ وہ کم گو تھے، لیکن بے ذوق نہیں تھے۔ پُر مغز گفتگو کرتے، لیکن مختصر۔ کنبہ بڑا تھا، لیکن کاشتکاری کے لئے دو بھائی ہی مختص تھے، قویٰ مضمحل ہوتے گئے، پھر بڑے بیٹے شیخ محمد جنید اختر نے فرائض سنبھالے تو زمینیں سونا اگلنے لگیں۔ چھوٹے بیٹے ڈاکٹر اویس اختر نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، اور وہ اٹامک انرجی کے ایک ادارے میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
چھیالیس سال میری آنکھوں کے سامنے پھر رہے تھے۔ ابھی ابھی فرید ٹائون ساہیوال کی مسجد شہداء میں شیخ اختر مرحوم کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی ہے، سینکڑوں افراد نے ان کے لئے دعا کی ہے۔ کئی پرانے دوستوں سے برسوں کے بعد ملاقات ہوئی، اور ایک دوسرے کو دیکھ کر آنکھیں چھلک اٹھیں... یہ وہی شہر ہے، جہاں پاک پتن سے نقل مکانی کرکے میرے والد اس لئے آ بسے تھے کہ ان دنوں پاک پتن میں لڑکیوں کے لئے کوئی کالج نہیں تھا۔ میری دونوں چھوٹی بہنوں روبینہ اور ثمینہ کے لئے تعلیم حاصل کرنا اسی شہر کی بدولت ممکن ہوا۔ گورنمنٹ کالج ساہیوال کے طالب علم کے طور پر مجھے ہاسٹل میں دن گزارنا پڑے تھے:
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے تھمے
نہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved