تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     06-01-2019

اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ

فقط دانش اور آگہی نہیں، قوموں کی قیادت کے لیے اپنی ذات سے اوپر اٹھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ محمد علی جناحؒ کی طرح!
ذوالفقار علی بھٹو کی خیرہ کن مقبولیت کا راز شاید عوامی احساسات کے ادراک میں تھا۔ مالدار طبقے سے تعلق کے باوجود عام آدمی کے مسائل اور محرومیوں کا جیسا شعور، ان میں پایا جاتا تھا، شاید ہی کسی دوسرے میں ہو۔
صرف یہی نہیں کہ افتادگان خاک کے دکھوں اور مجبوریوں کو انہوں نے آواز عطا کی بلکہ بھارتی بالادستی قبول کرنے سے انکار کیا اور استعمار کے خلاف ڈٹ کر بات کرتے۔
شلوار قمیض کو رواج دیا۔ بازوئوں کے بٹن کھلے رکھ کر، وہ للکارتے ہوئے لہجے میں خطاب کرتے۔ وہ اس قوم کے رہنما تھے، جو جذبات کی دنیا میں جیتی ہے۔ اپنی عظمتِ رفتہ کی ماتم گسار۔ جب اس خطۂ ارض پہ اس کا پرچم لہرایا کرتا۔
اپنی ذاتی حیثیت میں، عمران خان نے عام آدمی کے لیے، بھٹو سے کہیں زیادہ خدمات انجام دیں۔ کرکٹ کی فتوحات کو ذاتی وجاہت، شوکت کی تگ و تاز کہا جا سکتا ہے۔ مگر شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کا باقی رہنے والا کارنامہ ۔ برسوں نمل یونیورسٹی کے قیام کی جدوجہد اور 2005ء کے زلزلے میں دس ہزار عارضی گھروں کی تعمیر۔ با ایں ہمہ مفلس عوام کی کچلی تمنائوں کا ذکر، کپتان کی گفتگو میں کم ہوتاہے۔
خود اپنے حلقہ ٔانتخاب اور اپنے شہر میں بھٹو نے لاچار مزارعین کی کبھی ذرا سی مدد بھی نہ کی، صدیوں سے جو ستم کی زد میں ہیں۔جن کے کچّے گھروندوں پہ سحر کا امکان کبھی نہیں پھوٹا۔ لاڑکانہ کے کسی کسان زادے کا ہاتھ عبقری نے کبھی نہ تھاما، اسے کبھی سینے سے نہیں لگایا۔ وہ آدمی، جس نے کہا تھا: میں ہر اس گھر میں رہتا ہوں، جس کی چھت برسات میں ٹپکتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ بھٹو ایک نہیں، دو آدمی تھے۔ 
ذہانت و فطانت ، حکمت و ہوش مندی اور صداقت شعاری کے اعتبار سے مسلم برصغیر میں مثالی کردار وہی ایک ہے، قائداعظم محمد علی جناحؒ، دیانت کی طرح، جن کی خودداری بھی ضرب المثل تھی۔ ادبار کے مہ و سال میں بھی، کسی بڑے سے بڑے آدمی کو انہوں نے اپنا چارہ گر سمجھا اور نہ کبھی نفرت کی روش اختیار کی۔ کبھی کسی کی کردار کشی نہ کی اور کبھی کسی کا نام نہ رکھّا۔بھٹو حریفوں کی بھٹو بھد اڑایا کرتے۔
پہلی بار اسٹیبلشمنٹ کی حریف، سیاسی جماعت تشکیل دینے والے بھٹو قائدِ عوام اور فخرِایشیا کہلائے۔ مگر اس سے پہلے وہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے نفسِ ناطقہ تھے۔ وہ انہیں ایشیا کا ڈیگال اور برصغیر کا صلاح الدین ایوبی قرار دیتے رہے۔ پہلی بار وزارت عطا کرنے والے سکندر مرزا کو قائداعظم سے بڑا لیڈر کہا۔ ایوب خان کو انہوں نے یک جماعتی حکمرانی کا مشورہ بھی دیا۔ اضلاع میں ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی، جس کے عہدیدار ہوں۔
ایوب خان سے، تب وہ الگ ہوئے جب ان کی مقبولیت کا سورج گہنا رہا تھا۔ بھارت کے باب میں جب وہ سپر انداز ہوتے محسوس ہوتے تھے...اور اپنے جواں سال وزیر سے شاید بھر پائے تھے۔ اعلانِ تاشقند کے ردِّ عمل پہ بھٹو نے اپنی عوامی مہم برپا کی۔ واقعہ یہ بھی ہے کہ اس سے پہلے قومی اسمبلی کے ایوان میں اس معاہدے کی بھرپور وکالت میں کوئی کسر آپ نے چھوڑی نہ تھی۔
بھٹو کے کارنامے سبھی کو یاد ہیں۔ فدائین کو ازبر مگر مخالفین بھی زیرِ لب انہیں داد دیتے ہیں۔ اعصاب شکن بات چیت کے بعد، بھارت سے 93 ہزار قیدیوں کی رہائی اور مقبوضہ علاقوں کی واپسی۔ شاید ہی کوئی دوسرا لیڈر مذاکرات کی میز پر ایسی ذکاوت کا مظاہرہ کر سکتا۔ ایک ہمہ گیر سیاسی بھنور میں متفقہ آئین کی تشکیل، جب کہ اپوزیشن سے مراسم خوشگوار نہ تھے۔ مسلم ممالک کے ساتھ گہرے تعلقات کی ابتدا۔ سمندر پار پاکستانیوں پر ملازمتوں کے دروازے کھل گئے۔ بھٹو سے پہلے ایک عام آدمی کے لیے پاسپورٹ کا حصول کارِ دارد تھا۔ سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات کے بغیر، قومی معیشت ملبے کا ڈھیر بن جائے۔ سب سے بڑھ کر طوفانی ماحول میں ایٹمی پروگرام کی ابتدا جو ملک کے دفاع کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔ بعد ازاں مثالی میزائل پروگرام کی تشکیل میں، ان کی صاحبزادی نے اسی خلوص کا مظاہرہ کیا۔
مگر ایک دوسرا بھٹو بھی تھا۔ انسانی زندگیوں کا شکاری اور اپنے حریفوں سے نفرت کرنے والا۔ 300 میں سے 161 نشستیں جیتنے والے شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار منتقل کرنے کی تائید کرتے تو تاریخ انہیں یاد رکھتی۔ اگر وہ یحییٰ خان کے صدر بننے کی مزاحمت کرتے اور ڈٹ جاتے۔ اگر وہ سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں پر اکتفا کرتے۔ شیخ مجیب الرحمن میں خود شکنی کے رجحانات تھے۔ وہ ریاستی امور چلانے کے اہل نہ تھے۔ جذباتی توازن سے محروم وہ محض ایک شعلہ گفتار تھے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں مجیب کی مخالف سیاسی قوتوں پر مشتمل اپوزیشن ان کو محدود کیے رکھتی۔ اس ماحول میں ذوالفقار علی بھٹو متبادل قومی لیڈر بن کے ابھرتے۔ مگر ان کی ہوسِ اقتدار ۔
23 مارچ 1973ء کو لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسہ عام میں، دوسرے اخبار نویسوں کے ساتھ یہ ناچیز سٹیج پر کھڑا تھا، جب اس پر گولیوں کی بارش ہوئی۔ اردگرد کی چھتوں سے فائرنگ کی جا رہی تھی، جیسے ایک حریف لشکر ہدف ہو۔ اے این پی کے ایک درجن کارکن قتل کر دیئے گئے۔ سامنے کھڑی ،سرحد سے سامعین کو لانے والی بسوں کی قطار دھڑا دھڑ جل رہی تھی۔ ایسی بے دردی اور سفاکی کا مظاہرہ کبھی کسی بدترین فوجی آمر نے بھی شاذ ہی کیا ہوگا۔
اس سے پہلے جماعت اسلامی کے کھدّر پوش لیڈر ڈاکٹر نذیر احمد قتل ہوچکے تھے۔ ایک عام سا ہومیو پیتھک ڈاکٹر، جس نے جاگیرداروں کو شکست فاش دی تھی۔ ان کے بعد خواجہ رفیق اور نواب محمد خان قتل کئے گئے۔ جی ہاں، نواب محمد احمد خان کے کیس میں گواہ سرکاری اہتمام سے لائے گئے۔ عدل کا تقاضا یہ تھا کہ شک کا فائدہ دے کر ملزم کو رہا کر دیا جائے۔ مگر آج تک پیپلز پارٹی کسی کا نام نہیں لے سکی۔ امکانی طور پر، جس نے احمد رضا قصوری کے والد کو قتل کیا ہو۔ پھر خواجہ محمد رفیق، تحریکِ پاکستان کا وہ نجیب کارکن شہید کیا گیا۔ بھٹو اگر ذمہ دار نہ تھے تو ان کے قاتل تلاش کرنے کی کوشش کیوں نہ کی گئی؟ گورنر بلوچستان اکبر بگٹی نے اعلانیہ کہا کہ بھٹو نے ان سے چوہدری ظہور الٰہی کو قتل کرنے کی فرمائش کی تھی۔
اس سوال کا کبھی جواب نہیں دیا گیا کہ فیڈرل سکیورٹی فورس کے قیام کا مقصد کیا تھا، جس کے سربراہ مسعود محمود اپنے آقا کے خلاف ،بعد میں وعدہ معاف گواہ بنے۔ اپنی ہی پارٹی کے ناراض لیڈروں کو برسوں خفیہ طور پر دلائی کیمپ میں قید رکھا۔اپنے ساتھیوں ملک سلمان اور جے اے رحیم کو پولیس سے پٹوایا۔ حنیف رامے اور معراج محمد خان کو جیلوں میں ڈالے رکھا۔ پریس کو پابہ زنجیر کیا۔ آزاد اخبار نویسوں کی زندگیاں اجیرن کیے رکھیں۔ پے در پے آزاد اخبارات کیوں بند کئے؟ دو صوبوں میں حریف حکومتیں برطرف کر دیں۔ بلوچستان پہ فوج چڑھا دی۔
ایوب خان کے اس رفیق سے زیادہ کون جانتا تھا کہ جدید معیشت کا انحصار صنعت کاری پہ ہوتا ہے۔ زرعی اصلاحات میں اکثر جاگیرداروں نے اپنی زیادہ تر زمینیں بچا لیں۔ صنعتوں کو، بینکوں اور انشورنس کمپنیوں کو قومیا کر تباہ کر دیا۔ پاکستان تیسری دنیا کے مثالی ملکوں میں سے ایک تھا، انڈسٹری جہاں پھل پھول رہی تھی۔ اس کے بعد کبھی نہ سنبھل سکا وگرنہ ملائیشیا، ترکی یا کوریا بن گیا ہوتا۔ صنعت کاروں سے وہ اس قدر نفرت کیوں کرتے تھے؟ ان کے پاسپورٹ ضبط کئے اور انہیں لاچار کر کے رکھ دیا۔ 
بھٹو ایک مجموعۂ اضداد تھے۔ اپنی ذہانت اور آگہی کے قتیل، دنیا سے آگاہ، مگر خود سے نا آگاہ، نرگیست کا شکار شہزادہ۔ ان سے سیکھا جا سکتا ہے مگر ان سے عبرت حاصل کرنے کی ضرورت زیادہ ہے۔
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
فقط دانش اور آگہی نہیں، قوموں کی قیادت کے لیے اپنی ذات سے اوپر اٹھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ محمد علی جناحؒ کی طرح!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved