بدھ کی شام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے لائبریری کے قیام کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ یہ سب بے کار کی چیزیں ہیں۔ ان ریمارکس نے بھارت کی پوری قیا دت کو جہاں ایک جانب دنیا بھر کے سامنے شرمندہ کر کے رکھ دیا‘ وہیں کچھ سفارتی ماہرین کی رائے میں بھارت کیلئے ایک اشارہ بھی ہے کہ نریندر مودی امریکہ کی نظر میں اس خچر کی مانند ہو چکا ہے جس کی اب کوئی ضرورت اور اہمیت نہیں رہی ۔ ٹرمپ نے طنزیہ لہجے میں کہا: بھلا یہ لائبریری افغانستان میں کون استعمال کرے گا؟ کابل میں کچھ سفارتی اور سیا سی ماہرین کا کہنا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ لائبریری بھی بھارت کی کسی خفیہ ایجنسی کا کوئی ذیلی ادارہ ہی ہو‘ جہاں طالب علموں اور دانشوروں کے بھیس میں چین‘ ایران اور پاکستان کے خلاف معاملات طے کئے جائیں گے؟ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بالآخر اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے کہ پاکستان کے بغیر صرف افغانستان ہی نہیں بلکہ پورے ایشیا اور پورے بر صغیر کے معاملات طے نہیں کئے جا سکتے۔ کئی برس تک امریکی حکام اس خوش فہمی میں رہے کہ خطے میں بھارت کو کنٹرول نہ دینے سے اس کا کوئی بھی ایجنڈا پورا نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ سخت گیر بننے اور پاکستان کیلئے بھلائی کا ایک لفظ بھی کہے بغیر بھارت کا دم چھلہ بنے رہنے کے با وجود وہ افغانستان میں آج بھی اسی مقام پر کھڑا ہے جہاں وہ سترہ برس قبل سات اکتوبر2001 ء کو کھڑے تھے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ اعتراف ان کی شکست کے نام سے نہیں بلکہ ان کے اداروں کی جانب سے کی جانے والی مبنی بر حقیقت رپورٹ کے نام سے جانا جائے گا کہ پاکستانی قیا دت سے مل بیٹھنے میں امریکہ کی ہی نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف اقوام عالم کی جیت ہے۔ یہ ان کی شکست نہیں بلکہ خطے میں پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی بے مثال قربانیوں کی اہمیت کے احساس کا اعتراف ہے۔
طالبان نے امریکہ اور افغانستان کی نیشنل یونٹی گورنمنٹ سے جنوری میں جدہ میں بلائی گئی امن بات چیت میں شرکت سے انکار کیاتوکسی کو یقین ہی نہ آیا۔ طالبان کاانکار د نیا بھر کیلئے انتہائی حیران کن ہے کیونکہ دفاعی اور سفارتی ماہرین کہہ رہے تھے کہ زلمے خلیل زاد جب بھی امریکی مشن مکمل کرنے کیلئے میدان میں اترتے ہیں تو وہ نا کام نہیں ہوتے‘ اس لئے ہم اس انتظار میں ہیں کہ کب اور کس وقت افغان طالبان امریکہ کے سامنے خوش دلی سے بات چیت کر رہے ہوں گے۔ طالبان کی طاقت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اس سے پہلے دسمبر میں دبئی میںبلائی گئی کانفرنس میں بھی شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ کچھ ماہرین کو ا ب بھی یقین ہے کہ طالبان امریکی شرائط پر امن مذاکرات کیلئے میز پر آ جائیں گے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ طالبان نے کسی بھی جگہ پر نیشنل یونٹی گورنمنٹ (NUG) سے کسی بھی قسم کے مذاکرات سے انکار دیا ہے۔ طالبان اپنی درخواست پر نہیں بلکہ امریکہ کی درخواست پر اور اپنی شرائط پر مذاکرات کرنا تو چاہتے ہیں‘لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کسی بھی دوسرے سیا سی گروپ یا وار لارڈز کو مذاکرات میں شامل کرنے کے خلاف ہیں۔ اگر کسی کو افغانستان میں امن کی بات کرنی ہے تو اس شرط پر کہ''حکومت طالبان سے چھینی گئی ہے نہ کہNUG سے‘ اس لئے افغان حکومت کو اگر بات کرنی ہو گی تو صرف طالبان کے ساتھ۔ اس سلسلے میں عمران خان کی زیر قیا دت پاکستانی حکومت اور اس کی وزارت خارجہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ہی کی طرح افغانستان میں امن کو فروغ دینے کیلئے لگاتار رابطوں میں ہے اور اس کیلئے ایران‘ چین‘ افغانستان‘ ماسکو‘ قطر اور دبئی میں امن مذاکرات کی کامیابی کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کی فوجی امداد بند کرتے ہوئے فاکس نیوز کو دیئے جانے والے انٹرویو میں تیز اور درشت لہجے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے ان سولہ برسوں میں دہشت گردی ختم کرنے کے حوالے سے امریکہ کیلئے کچھ بھی نہیں کیا‘ جبکہ ہم مکمل اعتماد اور بھروسہ کرتے ہوئے پاکستان کو اربوں ڈالر فراہم کرتے رہے‘ لیکن نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ اس نے اب تک امریکہ کیلئے کچھ بھی نہیں کیا۔ امریکی صدر نے فاکس نیوز کو دیئے جانے والے انٹر ویو میں پاکستان پر ان الفاظ میں برستے ہوئے کہا تھا ''پاکستان نے امریکی عوام کیلئے Do The Damn Thing‘‘۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس انٹرویو کے ردعمل میں وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ ریکارڈ درست کرنے کیلئے امریکیوں کو بتانا چاہتے ہیں ''کوئی ایک پاکستانی بھی 9/11 میں کسی طور بھی ملوث نہیں تھا‘ لیکن اس کے باوجود پاکستان نے امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کے طور پر شرکت کی۔ پاکستان اب تک دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی شروع کی گئی جنگ میں اپنے 75 ہزار سے زائد معصوم شہریوں کی شہادتوں کا دکھ دیکھ چکا ہے۔ پاکستان کی افواج ا ور سکیورٹی فورسز کے سات ہزار سے زائد جوان اور افسران امریکہ کی مسلط کردہ اس جنگ میں دہشت گردی کی وارداتوں میں شہید ہو چکے ہیں‘ جبکہ ایک ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے پہچانے جانے والا پاکستان 123 بلین ڈالر سے محروم ہو چکا ہے اور اس کے مقابلے میں امریکیوں کے ہر وقت دئیے جانے والے طعنوں کی شکل میں پاکستانی کو دیئے گئے ڈالر صرف 20بلین ہیں۔
جناب صدر! 123 بلین ڈالر کی اس رقم کا اندازہ پاکستان نے خود نہیں لگایا بلکہ عالمی ماہرین نے یہ اعداد و شمار دئیے ہیں۔ اب کیا آپ اپنے امریکی عوام کو بتائیں گے کہ پاکستان نے امریکیوں کیلئے ہی نہیں بلکہ اقوام عالم کو دہشت گردی سے نجات دلانے کیلئے کس قدر بھاری اور نا قابل فراموش قربانیاں دی ہیں؟۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے امریکی صدر کے شعلے اگلتی ہوئی دھمکیوں اور شکووں کے جواب میں کہا ''جناب صدر!کبھی آپ نے یا آپ کے طاقتور اداروں نے سوچنے کی کوشش کی ہے کہ سولہ برس تک افغانستان میں ایک لاکھ چالیس ہزار نیٹو افواج اور دو لاکھ پچاس ہزار افغان فوج اور ایک کھرب ڈالر خرچ کرنے کے با وجود افغان طالبان افغانستان میں پہلے سے بھی مضبوط کیوں ہیں؟ کیا یہ تسلیم کر لیا جائے کہ اپنی جدید ترین فورس اور ہتھیاروں کے علا وہ بہترین انٹیلی جنس آلات سے لیس سی آئی اے بھی ان سولہ برسوں میں افغان طالبان کی طاقت اور محفوظ ٹھکانوں تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکی‘ لیکن ہم اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کو نہ ڈھونڈنے کے سب سے بڑے مجرم بنا ئے جا رہے ہیں‘‘۔ عمران خان نے دنیا بھر میں موجود امریکیوں اور ان کے میڈیا سے سوال کرتے ہوئے پوچھا: بتایئے پاکستان کے علا وہ دنیا کا وہ کون سا ملک ہے جس نے امریکیوں کو اپنے ہوائی اڈے‘ سڑکیں اور وسائل مہیا کئے ہوں؟ فوج کے چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل جوزف دنفورڈ نے 17 نومبر2018 کو HALIFAX میں سکیورٹی فورم سے اپنے خطاب کے دوران اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے سب پر واضح کر دیا تھا کہ ہم افغانستان میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں نا کام ہو چکے ہیں اور آج16 برس بعد امریکی افواج ‘ نیٹو اور ایساف کی بھاری فورسز کے لگاتار آپریشن کے با وجود طالبان کی طاقت کمزور ہونے کی بجائے پہلے سے کئی گنا بڑھ چکی ہے اور امریکہ کے پاس اب اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ طالبان کو پاکستان کی مدد سے مذاکرات کی میز پر لایا جائے ۔