تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     06-01-2019

اب فُل سٹاپ آنا ہی چاہیے

ایک بار پھر سندھ کو اکھاڑے میں تبدیل کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ انداز مختلف سہی‘ مقصود تو یہی ہے۔ عشروں سے سندھ کے ساتھ جو کھیل کھیلا جاتا رہا ہے‘ وہی کھیل ایک بار پھر کھیلے جانے کے آثار ہیں۔ ع
پھر وہی شام‘ وہی غم‘ وہی تنہائی ہے 
کچھ نہیں کُھل رہا کہ یہ سب کیوں ہے۔ موسم سرد ہے مگر سیاست کو گرم کیا جارہا ہے۔ معاملہ لفاظی سے شروع ہوکر بیانات تک پہنچا اور اب ایک قدم آگے جاکر الزام تراشی تک آگیا ہے۔ مختلف معاملات کے لیے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ ایک زمانے تک وفاق اور سندھ کے درمیان چُھپن چُھپائی کا جو کھیل ہوتا رہا ہے‘ وہی پھر شروع کرنے کی تیاری ہے۔ 
اس وقت گرم ترین افواہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کو ہٹاکر اپنی مرضی کا بندہ لانے کی خواہش مند ہے اور دل شکن نوعیت کی ''بریکنگ نیوز‘‘ یہ ہے کہ اس حوالے سے ''گراؤنڈ ورک‘‘ شروع بھی کردیا گیا ہے۔ مراد علی شاہ اور سندھ کے گورنر عمران اسماعیل کے درمیان بھی بیانات کی سطح پر معرکہ آرائی شروع ہوچکی ہے۔ بہت سے معاملات کو اچھالا جارہا ہے۔ گورنر کہتے ہیں کہ سندھ حکومت کو جو کچھ کرنا چاہیے تھا‘ وہ اُس نے نہیں کیا۔ زور اس نکتے پر ہے کہ عوام کے مسائل حل کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔ گزشتہ روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران اسماعیل نے کہا کہ سندھ حکومت کراچی کے بڑے ترقیاتی منصوبوں پر اپنے نام کا جھنڈا لگانا چاہتی ہے تو لگالے‘ ہم اس پر بھی راضی ہیں۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ کراچی کے میگا پراجیکٹس کے لیے ٹائم فریم‘ تھرڈ پارٹی آڈٹ اور فنڈز کی قلّت کی نشاندہی کی تھی‘مگر کوئی جواب نہیں ملا۔ گورنر سندھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر سندھ حکومت گرین لائن بس منصوبے کے لیے بسیں نہیں دینا چاہتی تو نہ دے‘ وفاق دے دے گا۔ گورنر کا یہ بھی شکوہ ہے کہ کراچی کا کوئی ماسٹر پلان نہیں ‘جس کے باعث مسائل پیدا ہی نہیں ہو رہے‘ بلکہ پیچیدہ تر بھی ہوتے جارہے ہیں۔ 
اس کے جواب میں سندھ کے وزیر اعلیٰ کہتے ہیں کہ ''گورنر آئین کے تحت صوبائی حکومت کے سربراہ اور کابینہ کے ساتھ مل کر چلنے کے پابند ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت سے پہلے 100 دنوں میں مرغیوں اور انڈوں کے سوا کیا ملا؟ کراچی کے گرین لائن بس منصوبے کے لیے وزیر اعظم نے بسیں دینے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ بات وزیر اعظم سے ملاقات کے منٹس میں شامل ہے۔ شاید گورنر سندھ کی نظر سے نہیں گزری؛ اگر وفاق اور صوبے ایک دوسرے کی حدود میں مداخلت نہ کریں تو سارے کام ڈھنگ سے ہوسکتے ہیں۔‘‘ 
وفاق اور صوبے میں اگر الگ الگ پارٹی کی حکومت ہو تو ایسا ماحول پیدا ہو ہی جاتا ہے۔ عوام بھی اس کے لیے ذہنی طور پر تیار رہتے ہیں۔ پہلے بھی وفاق اور سندھ کے درمیان محاذ آرائی کا بنیادی سبب الگ الگ جماعتوں کی حکومت کا تشکیل پانا تھا۔ اس بار بھی لوگوں نے ذہن بنالیا تھا کہ معاملات درست نہیں رہیں گے اور ''سرحدی جھڑپیں‘‘ ہوتی رہیں گی۔ ہاں‘ جو کچھ ہو رہا ہے وہ خاصا تیز رفتار ہے۔ معاملات میں در آنے والی تیز رفتار پیچیدگی لوگوں کو پریشانی سے دوچار کر رہی ہے۔ لہجے میں بیک وقت سختی اور گرمی بڑھتی جارہی ہے۔ 
ملک کے لیے بارہا استعمال ہونے والا دو راہے والا جملہ سندھ پر بھی صادق آتا ہے‘ یعنی سندھ ایک بار پھر دو راہے پر کھڑا ہے۔ بہت کچھ ختم ہوگیا‘ مگر یہ دو راہا ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ یہ گھوم پھر کر پھر ہماری زندگی میں آ جاتا ہے۔ اس مشہورِ زمانہ دو راہے سے ہم کہیں کے کہیں جا نکلتے ہیں اور پھر واپسی میں خاصی مشقّت درپیش ہوتی ہے۔ یہ عقدہ اب تک وا نہیں ہوا کہ یہ دو راہا آتا ہی کیوں ہے یا ہم اس دو راہے پر پہنچتے ہی کیوں ہیں۔ 
ایسا کیوں ہے کہ سندھ میں بہت کچھ درست ہوتا دکھائی دیتا ہے اور پھر اچانک معاملات بگڑنے لگتے ہیں؟ لوگ دیکھتے ہیں اور سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ یہ بے ہنگم تبدیلی کیوں واقع ہوئی۔ نادیدہ قوتیں اپنا کھیل ختم کیوں نہیں کرتیں؟ اس حوالے سے سندھ کی تقدیر کب جاگے گی؟ ایک زمانے سے اہلِ سندھ حالات میں ایسی بہتری کی راہ تک رہے ہیں‘ جو زندگی کو ایک نئے رخ پہ ڈال دے۔ ترقی کا عمل ایک زمانے سے رکا ہوا ہے۔ کراچی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری جاری رہتی ہے۔ بڑے مالیاتی‘ صنعتی اور تجارتی ادارے قائم ہوتے ہیں‘ خوب کام کرتے ہیں‘ یعنی ڈھیروں منافع کماتے ہیں اور مال سمیٹ کر ایک طرف ہو جاتے ہیں۔ شہر قائد کی معاشی اور مالیاتی سرگرمیاں خواہ کسی سطح کی ہوں اور متعلقہ اداروں کو کتنا ہی منافع سمیٹنے کا موقع فراہم کریں‘ شہر کی حالت نہیں بدلتی۔ عوام کا معیارِ زندگی ہے کہ بلند ہونے کا نام نہیں لیتا۔ بات ایسی پیچیدہ بھی نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ سب کو صرف اپنے مفادات کی تکمیل سے غرض ہے۔ شہر‘ صوبے یا ملک کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا۔ بہبودِ عامہ کا تصور ذہنوں سے یوں محو ہوچکا ہے ‘جیسے کوئی بلیک بورڈ پر لکھے ہوئے لفظ کو ڈسٹر سے مٹادے۔ 
وفاق اور سندھ کے درمیان سرد جنگ اِتنی تیزی سے گرم ہو رہی ہے کہ ساکنانِ کراچی سمیت تمام اہلِ سندھ تشویش کی منزل تک پہنچ گئے ہیں۔ خیر گزری کہ الیکٹرانک میڈیا کو تھوڑی بہت ''کم آمیزی‘‘ سِکھادی گئی ہے‘ وگرنہ اب تو ٹاک شوز میں ڈراما الزامات و جوابی الزامات سے ہوتا ہوا کلائمیکس کے نزدیک پہنچ چکا ہوتا۔ 
ویسے تو خیر پورا ملک ہی ایسی حالت میں ہے کہ مزید اندرونی کشمکش اور محاذ آرائی برداشت نہیں کرسکتا ‘مگر سندھ اس معاملے میں خاص طور پر حساس اور قابلِ توجہ ہے۔ قومی معیشت کا سب سے بڑا ستون ہونے پر بھی کراچی کو وہ توجہ نہیں ملی ‘جو ملنی چاہیے تھی۔ روزی روٹی کے لیے ملک بھر سے لوگ یہاں آتے ہیں۔ اس شہر کو مضبوط کرنے کا مطلب ہے ملک کے طول و عرض میں کم و بیش پچیس تیس لاکھ گھرانوں کو استحکام سے ہم کنار کرنا۔ سندھ میں حکومتی سطح پر اکھاڑ پچھاڑ سے بہت کچھ اِدھر کا اُدھر ہو جائے گا۔ کراچی میں بڑی مشکل سے کام کا ماحول بنا ہے۔ یہ ماحول اب داؤ پر نہیں لگنا چاہیے۔ شہر کو حقیقی استحکام درکار ہے اور یہ استحکام وسیع النظری اور دانش سے کام لینے کی صورت ہی میں ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ 
قومی معیشت کو مستحکم کرنے کے نام پر حکومت کریڈٹ پر کریڈٹ لے رہی ہے اور انتہا یہ ہے کہ اس کا بھی ''کریڈٹ‘‘ لے رہی ہے! دانش کا تقاضا یہ ہے کہ وفاقی حکومت سندھ یا کسی اور خطے میں اکھاڑ پچھاڑ کا بازار گرم کرنے کی بجائے اپنی جڑیں مضبوط کرنے پر متوجہ ہو۔ حکومت ہو یا ادارہ‘ سب کو اپنی حدود ہی میں رہنا چاہیے‘ تاکہ بدگمانیوں کا خاتمہ ہو اور پورے اعتماد و تیقین کے ساتھ پیش رفت ممکن بنائی جاسکے۔ سندھ میں جمہوریت کے نام پر طالع آزمائی اور اکھاڑ پچھاڑ کا پیرا گراف مزید طُول نہ پکڑے تو اچھا۔ اب اس پیرا گراف میں فُل سٹاپ آنا ہی چاہیے ‘تاکہ قوم ''کوما‘‘ کی حالت سے نکلے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved