تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     07-01-2019

لاھنگا تے لہور

تاریخ کا بہتا چناب تھا، یادوں کی بارات یا محض ایک تقریبِ ملن‘ جو مجھے کھینچ کر واپس سال 2012 میں لے گئی۔ 
اس دفعہ انہیں صرف لہور کا ویزہ مل سکا۔ پھر یہاں پہنچ کر تلونڈی کی زیارت کے لیے خصوصی اجازت مل گئی‘ جہاں صوفی منش گرو، بابا نانک جی پیدا ہوئے۔ اب یہ قصبہ اسی نسبت سے دنیا بھر میں ننکانہ صاحب کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ بھارتی پنجاب اور ہریانہ کی بار کونسل کا 35 رکنی وفد 2 دن پہلے ہی لاہور پہنچا تھا۔ وفد کے سربراہ بار کونسل کے چیئرمین پرتاب سنگھ تھے۔ اور ہمارے پنجاب کی وکیل لیڈرشپ نے بتایا کہ وفد مجھ سے ملاقات کی چاہت رکھتا ہے‘ مگر ان کے پاس اسلام آباد کا ویزہ نہیں۔ جمعرات کے دن میں نے اپنے لاہور لاء آفس کو بھارتی وکلاء سے ملاقات کے لیے رات کے کھانے پر بندوبست کا کہا۔ معلوم ہوا اس وفد میں بھارت کی معروف بار ایسوسی ایشنز امرت سر، چندی گڑھ، کیتھل (رامائن کے حوالے سے مشہور)، خورشیترہ (مہابھارتا یدھ کے میدان کا ضلع) گڑگائوں، پانی پت (ظہیرالدین بابر کو شہنشاہِ ہندوستان بنانے والا میدان جنگ) سمیت دہلی کی بار ایسوسی ایشن کے ارکان بھی شامل ہیں‘ جنہوں نے ایک فرمائش یہ کی کہ ہمیں اس ہوٹل میں بلایا جائے‘ جہاں قائد اعظم ؒ، حضرت علامہ اقبال ؒ، جسٹس الوین رابرٹ کارنیلیس اور ذوالفقار علی بھٹو سمیت برصغیر کی ممتاز ترین شخصیات ٹھہر چکی ہیں؛ چنانچہ ارشاد بی انجم سے رابطہ ہوا اور فلیٹیز کے 1880ء میں تعمیر ہونے والے تقریباتی ہال کا انتخاب بھی ہو گیا۔ گزشتہ جمعرات کے دن سپریم کورٹ اسلام آباد میں مجھے 2 مقدمات لڑنے تھے۔ پہلا مقدمہ بینچ نمبر1 کے پاس چیف جسٹس صاحب کی عدالت میں اور دوسرا مستقبل کے چیف جسٹس محترم عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بینچ نمبر5 کے روبرو۔ اس لیے جمعہ کو پہلے پہر لاہور کے لیے روانگی ممکن ہو سکی۔
دھند، بارش، فوگ، سموگ کے سنگم میں لاہور پہنچے۔ وفاقی دارالحکومت اور اس صوبائی دارالخلافہ کی سردی میں اتنا ہی فرق پایا جاتا ہے‘ جتنا فرق راولپنڈی اور کوہ مری یا ایبٹ آباد کے علاقے گلیات کی سردی میں ہے۔ اسلام آباد اور لاہور شہر کی سردی میں ایک اور فرق بھی واضح ہے۔ اسلام آباد میں کپکپی والی یخ بستہ ٹھنڈک جب کہ لاہور شہر میں راحت بخش سردی کا تجربہ ہوا۔ لاہور پہنچتے ہی مجھے سال 2012ء کی یادیں اڑا کر واہگہ بارڈر لے گئیں‘ جہاں مردانہ وجاہت اور عسکری ہیبت سے بھرپور مادر وطن کے محافظوں نے استقبال کیا۔ پاسپورٹ تصدیق کے لیے گیا۔ پھر سرزمینِ وطن کا بابِ پاکستان کھول دیا گیا۔ اب میں زیرو گرائونڈ پر تھا۔ میرا ہر اٹھنے والا قدم اٹاری کی جانب تھا۔ سامنے بھارت کے بڑے گیٹ کی بائیں جانب ایک عقبی دروازہ کھلا جس کے ذریعے مختلف دفتروں میں سے گھومتے ہوئے ایک چھوٹے سے کمرے میں جا پہنچے‘ جہاں پنجاب ہریانہ بار کونسل کے چیئرمین پرتاب سنگھ موجود تھے۔ ایمی گریشن کے بعد باہر نکلے تو استقبالی وکلاء سے تعارف ہوا‘ جن میں دربار صاحب امرتسر کا انتظام چلانے والی دربار صاحب گردوارہ پر بندھک کمیٹی کے وکیل بھی شامل تھے۔ پنجاب کے بھارتی حصے کے چار مناظر قابلِ بیان ہیں یا شاید قابلِ دھیان بھی۔ میں آپ کو منظر نامے میں ساتھ لے چلتا ہوں، فیصلہ آپ کا ہوا۔
پہلا منظر: سڑک کے دونوں جانب بہت سلیقے سے ایستادہ آم کے اونچے درختوں کی لمبی قطاریں تھیں۔ پہلے تو میں ان درختوںکی قسم نہ پہچان سکا۔ پھر میزبانوں سے پوچھا۔ ان کی تجویز پر ہم سڑک کنارے رک گئے۔ آم کے ان غیر معمولی بلکہ بوہڑ اور پیپل جتنے بڑے درختوں کا نظارہ کیا۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ پنجاب کو فوڈ باسکٹ کے طور پر محفوظ رکھا گیا ہے۔ ان معنوںمیں بھی محفوظ کہ نہ کوئی سریا نظر آیا‘ نہ جنگلہ‘ نہ کنکریٹ باسکٹ اور نہ ہی کوئی ہائوسنگ پروجیکٹ۔ 
دوسرا منظر فارمنگ ہائوس کا تھا‘ جس میں مشکل سے 2/3 کمرے ہوں گے۔ وہ بھی سنگل سٹوری۔ ساتھ پانی اور فصلوں کی فراوانی۔ ایسی دل کشاء اور روح افزائ‘ جسے ہمارے ہاں نیلی بار سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اس کے دو اسباب دریافت ہوئے۔ ایک زمین کی ملکیت پر حد بندی کا قانون اور دوسرا زرعی مقاصد کے لیے تقریباً مفت بجلی کی فراہمی۔
تیسرا منظر واہگہ بارڈر سے امرت سر کا فاصلہ‘ جو تقریباً 20 کلو میٹر ہے‘ اس سفر کے دوران سامنے آیا۔ جوں جوں امرت سر قریب آتا گیا۔ ایک عجیب سواری سے واسطہ پڑنا شروع ہوا۔ یہ مختلف سائز، طرز، رنگ اور زرعی ضرورتوں کے لیے بنائے گئے ٹریکٹرز تھے۔ غالباً مختلف کمپنیوں کے تیار کردہ مگر ان گنت۔ مجھے اپنے ہاں کے ٹریکٹر یاد آ گئے۔ جو ماڈل 1947ء میں بنا تھا۔ ان میں صرف ایک ہی ٹیکنالوجی کا مسلسل اضافہ ہوا۔ اور وہ ہے اس کی قیمت۔ میں چونکہ خود بارانی مگر زمین دار گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں‘ اس لیے بار برداری، مال ڈھونے، ٹرانسپورٹ اور ہل چلانے کے لیے ان سمارٹ ٹریکٹرز اور ٹرالیوں کو گہری دلچسپی سے دیکھتا رہ گیا۔ کسانوں کے لیے بجلی کی طرح یہ ٹریکٹر بھی تقریباً مفت دستیاب ہیں۔ 
یہاں یہ کہنا بے محل نہ ہو گا کہ بھارت کے طول و عرض میں کسان تحریک ایک طاقتور سیاسی فیکٹر ہے۔ پاکستان کی طرح زیر دست، مظلوم اور آواز سے محروم طبقہ نہیں۔ جس کا ایک بڑا سبب شاید یہ بھی ہے کہ ہندوستان میں آج بھی ایک سے زائد ریاستوں کے حکمران کمیونسٹ تحریک سے وابستہ ورکرز ہیں۔
چوتھا منظر: بھارت کی قومی ریلوے لائن کا تھا‘ جس کے دونوں طرف بھاری تعداد میں ڈیزل پیدا کرنے والا ایک درخت لگایا گیا ہے‘ جس کا نام مجھے اس وقت یاد نہیں آ رہا۔ انڈین ریلوے کئی لائنوں پر ریل گاڑیوں اور مسافر بردار ٹرینوں کو اسی درخت سے بننے والے ڈیزل پر چلاتی ہے۔ ریلوے لائنوں کے ارد گرد ماحولیات کو ٹھیک رکھنے کے علاوہ ایندھن والا یہ پودا دیکھنے میں بھی بھلا لگتا ہے۔ ایک دوسرا خیال مجھے واپس شالا مار کے قریب لوکو شیڈ، ریلوے کالونی ورکشاپس اور انجن دکھانے واپس لے آیا۔ شدید شور کی وجہ سے میرا خیال ہوا ہو گیا۔ معاف کیجئے گا! یہ شور ریلوے انجنوں کا نہیں تھا بلکہ پچھلے 70 سالوں کے دوران پاکستان کی ریل کو کامیاب بنانے کے لیے برپا کی گئی پریس کانفرنسوں، جلسوں، چَیٹ شوز، میڈیا ٹاک اور جگت بازی کا تھا۔ میں یہ خیال جھٹک کر تقریب میں پہنچ گیا۔ 
بھارتی وکیلوں کے وفد میں سکھ، مسلمان (جنہیں انڈیا میں محمڈن کہا جاتا ہے) ہندو خواتین و حضرات شامل تھے۔ لاہور کے نمایاں وکلاء کے علاوہ نمائندوں میں سے برادرم احسن بھون، اعظم نذیر تارڑ، پیر مسعود چشتی، برہان معظم ملک، جام محمد یونس وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل لاہور‘ پنجاب بار کونسل کی کمیٹی برائے بین الاقوامی رابطہ کے چیئرمین رانا انتظار اور لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نور سمند خان (جنہیں میں پیار سے ہمیشہ نور سمندر کہہ کر بلاتا ہوں) بھی شریک ہوئے۔ بھارتی وکلاء کے وفد میں سے حکمران اکالی دل کے لیگل ایڈوائزر پنجاب ہریانہ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ہرپریت سنگھ نے اپنے خطاب میں بانیٔ پاکستان کو قائد اعظم ؒ اور مسٹر جناح صاحب کے نام سے 10/12 مرتبہ مخاطب کیا۔ بطور وکیل سٹیٹس مین اور غلام انڈیا کے آزاد آئیکون کا خطاب دیا۔ پنجاب ہریانہ بار کونسل کے وائس چیئرمین پرتاب سنگھ نے اپنے خطاب میں بھارت کے بڑے مذاہب کا تذکرہ کیا۔ میری گفتگو کے دو کلپس میڈیا پر وائرل ہیں۔ مہمانوں کو خوش آمدید کہہ کہ عرض کیا: ایک خود مختار ملک کے وکیلوں کو خود مختار، ایٹمی اسلامی جمہوریہ کے وکیل خوش آمدید کہتے ہیں۔ کھانے کی میز پر ایک بھارتی سکھ وکیل نے کہا (ملک جی سکھاں نوں لاھنگا دینڑ لئی بہت بہت شکریہ۔ تسیں بڑا پُن کیتا)۔ باقی سارے ہنس پڑے اور کہنے لگے: لاھنگا گرمکھی میں کرتار پور کاری ڈور کو کہتے ہیں۔ عبداللہ نے مہمانوں کو رخصت کیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved