تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     07-01-2019

عارفہ شہزاد، سیّد عامر سہیل اور ادریس بابر کی شاعری

پریت کی راس
دیکھ/ میں تیرے ہی جیسی ہوں/ انگ سے انگ ملا کر دیکھ/ پریت کی راس رچا کر دیکھ/ جھوم بدن کے ہنڈولے میں/ چوم یہ پریت اپنے جیسے/ چوٹیوں کی برف کُرید/ اے ری! پالے اپنے بھید/ چھو کے دیکھ اندھیرا غار/ روشن کرنوں کی اک دھار/ ہرا سمندر تیرے اندر/ بھول بھی جا اب گوپی چندر/ بول نہ اب ہے کتنا پانی/ مچھلی کب تو/ جل کی رانی/ جل کی لہروں سے آ کھیل/ کر کے دیکھ انوکھا میل/ ریت میں دھنستے قدم اُٹھا/ لہروں لہروں پر پھیلا/ دیکھ تو بہیتر کی پرواز/ سُوکھی ترسی دھرتی پوچھے/ تجھ سے ایک رسیلا راز
پُروائی ہوں
چکھ آئی ہوںممنوعہ پھل/ کون سا رب ہے جو دیکھے گا/ طاق عدد میں طاق ملایا/ جُفت کا جوڑا آپ بنایا/ کون اُتارے گا جنت سے/ رکھ آئی ہوں آپ زمیں پر/ تن من اپنا/ ایک لباس بُنا ہے میں نے/ خود پہنوں گی/ ایک ہدایت اُتری بھی تو/ کون سنے گا/ صمً بکمً دیکھ رہے ہیں/ آج فرشتے/ لکھ آئی ہوں جو لکھنا تھا/ کون سیاہی کو دیکھے اب/ آگ جلائی ہے کس نے، اور/ کون جلے گا/ کیا جانوں میں/ دیکھو کیسی سرشاری ہے/ لمس میں کتنی نرماہٹ ہے/ چھو کر دیکھو... پروائی ہوں! (عارفہ شہزاد)
غزل
جانے کیا بات ہے جل پریوں سے جو کہنی ہے/ میرے سینے نے سمندر کی زرہ پہنی ہے/ صبح طائف کی طرح، یاد وظائف کی طرح/ یہ ترا جسم گلابوں سے بھری ٹہنی ہے/ پھول پہلے سے بتا دیتے تھے تم کیسی ہو/ یہ ولایت بھی مرے پاس کہاں رہنی ہے/ نظم ہوتی تھی کبھی، بزم کبھی ہوتی تھی/ زندگی چاند کے چہرے کی طرح گہنی ہے/ تم مجھے چھوڑ کے اپنوں میں چلی جاؤ گی/ اور بچھڑ جانے کی تکلیف مجھے سہنی ہے/ وصل پہنائے گی یا ہجر میں دفنائے گی/ کون سمتوں میں شبِ بندِ قبا بہنی ہے/ عشق میں کون ہے حلاج ہمارے جیسا/ ہم نے زنجیر بھی گھنگھرو کی طرح پہنی ہیـ۔۔۔
صبر سے چُور ہو یا جُدائی میں ہو/ تم محبت کی ہرزہ سرائی میں ہو/ ریشمی رات میں خود سے نکلو کبھی/ اپنے قد کی طرح بون سائی میں ہو/ دید میں، عید میں، رقصِ ناہید میں/ چاند کی دلربا دلبرائی میںہو/ درد کی سوت نے چاندنے سے کہا/ آنسوؤں کی لگائی بجھائی میں ہو/ یہ زمینیں محبت کے لائق نہیں/ بحرو بر کی کھنک مُنہ دکھائی میں ہو/ میں بھی خود میں اکیلا دھکیلا گیا/ تم بھی اِس دل دُکھاتی خدائی میں ہو/ غم کی جیبی گھڑی نے بتایا نہیں/ کون سا وقت ٹوٹی کلائی میں ہو/ جیسے ہو اک گلی تیز بھونچال میں/ جیسے شامل خدا جگ ہنسائی میں ہو/ جیسے اینٹوں کے پیچھے کوئی اپسرا جیسے مخروطی شہوت چُنائی میں ہو/ ہم نے راتوں کو، راتوں کو سوچا بہت/ کون سا پھول دستِ حنائی میں ہو! (سید عامر سُہیل)
عین تعارف
نام ماں نے پسند کیا، خُدا میرے لیے باپ نے چنا/ دادا سائنس سٹوڈنٹ کو رومی کی پٹیاں پڑھاتا/ دادی کا بس چلتا تو میں دو جگہ پیدا ہوتا/ لاہور اور فیروز پور/ نانی سے کہانی سنتے آنکھیں بند کرتا تو نیلم کے پانی دیکھ سکتا/ تیزخرام منی لینڈز وہ الہامی کتاب تھی/ جسے میں نے اپنی مرضی سے بار بار پڑھا/ تو کیا واقعی پہلی محبت وہ تھی؟ یا وہ جو اُس تک خط لے جاتا تھا؟ میں ایک شاعر ہوں/ تقریباً، کم و بیش
عین دریائے پیاس
کھوئے ہوئے پانیوں کے دُکھ ناپ/ معدوم روانیوں کی سُن چاپ/ کم حوصلہ ریت، گہرا سبزہ/ سر! سبزہ ، سنہرا سبزہ! زیور سے لدا شریںکا پیڑ/ یہ رنگ و بُو و نغمہ کی چھیڑ/ سہ بُعدی حواس کے کنارے/ موجودہ بیاس کے کنارے/ کیا سوچ کے سر پٹختا ہوگا/ دریا مری پیاس کے کنارے
ع نو لکھا
یہیں سے شہزادے اپنی ماروں پہ نکلتے تھے/ گھوڑے آگ اُگلتے/ رتھ جسموں کو کچلتے تھے/ یہ سب سج دھج اب تاریخ کی راکھ کا حصہ ہے/ میں جو کہنے چلا تھا کل، آج کا قصہ ہے/ سر آنکھوں پہ رکھ لائے تھے کونے کونے سے لوگ/ جوگ سنجوگ اپنے جیسوں کے سانجھے سُکھ اور سوگ/ ظلم پہ شور مچایا ہم نے/ جبر پہ نعرے لگائے/ لینن جان سے مانی پانی، نوش کی چے، سے چائے/ آشنا اجنبیوں کے ہمراہ وہ دن جاگا سویا/ نولکھے ہوٹل پہ میں نے کیا پایا کیا کھویا
ع ایک حقیقت کا خواب
ایک ایسی دُنیا جس کے حکمران عام لوگ ہوں/ جہاں خواص/ ایک فیصدی نہیں تمام لوگ ہوں/ فلک خدا کا نہ بن سکے/ زمین ہیچ ناں پڑے/ سب ایک جیسے/ مختلف ہوں، طبقہ وار پیچ نہ پڑے/ خریدنا پڑے کسی کو ناروا نہ بیچنا پڑے/ جہاں بھلائی اتفاقیہ نہ ہو، کام عام ہو/ سبھی کو راس عیش ہو، سبھی کے پاس کام ہو/ سحر اُمید کی کرن شام روشنی! کا جام ہو/ یہ خواب ہے تو، آؤ مل کے خواب/ جاگتے رہیں/ ہماری راہ پر ہے صبحِ انقلاب جاگتے رہیں! (ادریس بابر)
آج کا مقطع:
لمس کی گرمی کہاں سے آئی تھی اس میں ، ظفر
یہ اگر وہ خود نہیں تھا، یہ اگر آواز تھی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved