فرض کیجیے کہ ایک جگہ سائنسدان اکھٹے ہیں ۔ اچانک دروازہ کھلتاہے اور آئن سٹائن اندر داخل ہوتاہے ۔سب کس طرح عقیدت و احترام سے اس کا استقبال کریں گے ۔بھلا کیوں ؟آئن سٹائن کے چار ہاتھ نہیں ‘ جھکنے والے اس کے علم کے سامنے جھک رہے ہیں ۔ وہ ان سے زیادہ جانتا ہے ۔ انسانی عقل ہمیشہ زیادہ جاننے والے کے سامنے جھکتی ہے ۔ اللہ کیا کہتاہے ؟ علم رکھنے والا اور بے علم کبھی برابر نہیں ہو سکتے ۔ ہر چوتھی آیت میں آپ کو اس طرح کے الفاظ ملیں گے : اس میں عقل والوں کے لیے نشانی ہے ۔قرآن علم رکھنے والوں ‘ زمین و آسمان کی تخلیق میں غور کرنے والوں اور اہل ِ دانش کا ذکر سنہرے الفاظ میں کرتا ہے ۔
اس کے برعکس میں نے وعظ کرنے والوں کو قریب سے دیکھا ہے ۔ خود ایسے اجتماعات میں شرکت بھی کی ہے ۔ جن لوگوں کو دعوت دی جار ہی ہوتی ہے اور جو اسے قبول نہیں کر تے‘ ان کی نفسیات پر بھی غور کیا ہے ۔عموماً لوگ مذہب کی طرف آنے کی دعوت قبول نہیں کرتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دعوت دینے والے انتہائی کم علم ‘بور اور مسکین شخصیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ وہ پورے معاشرے سے کٹے ہوئے اور ٹیکنالوجی کی دنیا سے بہت دور ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ موبائل فون اور انٹر نیٹ سمیت ہر ٹیکنالوجی سب سے آخر میں او ر مجبوراً اور کم از کم استعمال کرتے ہیں ۔ جب کہ مذہب کی طرف بھی جو ترغیب دی جا رہی ہوتی ہے ‘ اس کا لامحالہ مطلب یہی ہوتاہے کہ دعوت قبول کرنے والے کو بھی دنیا سے کٹ جانا ہوگا ۔ ایک زمانہ تھا ‘ جب ٹی وی توڑدینا دین داری کی علامت سمجھا جاتا تھا اور ایسا کرنے والے کی ستائش کی جاتی تھی ۔حوالے کے طور پر ملاحظہ ہوں جہلم کے نعیم عالم صاحب ‘ جنہوں نے بیس سال پہلے اپنا ٹی وی ڈنڈے مار کے توڑ دیا تھا ۔آج جب کہ موصوف ادھیڑ عمری سے بڑھاپے کی جانب بڑھ رہے ہیں ‘ اس دلگداز واقعے کو یاد کرتے ہوئے ان کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ۔یہ وہ زمانہ تھا جب تصویر حرام تھی۔ آج مذہبی لوگوں کی اپنی تقاریر ٹی وی پر براہِ راست دکھائی جاتی ہیں ۔
نفسِ انسان چونکہ خود انتہائی شرارتی ہوتا ہے ‘ اس لیے سادہ مزاج بندے کو دیکھ کر یہ فوراً اس پہ حملہ کرنے اور اس کا مذاق اڑانے کا رجحان رکھتا ہے‘ بجائے اس کی اطاعت کرنے کے ۔ اسے سادہ اور شریف آدمی کو چھیڑنے میں لطف آتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دوسروں کو ہنسانے اور خود کو کھڑپینچ ثابت کرنے کے لیے لوگ غلیظ لطائف بھی سناتے ہیں ۔ دوسری طرف جسے مذہب کی طرف بلایا جاتاہے ‘ وہ سوچتا ہے کہ اس کامطلب ہے کہ مجھے انٹرنیٹ اور سمارٹ فون سمیت ساری دنیا سے دستبردار ہونا ہوگا ۔ایسے میں نفس پہ بوریت کا حملہ ہوتاہے ۔ مجھے بھی کئی دفعہ ایسی محفلوں میں شرکت کا موقع ملا اوریقین کیجیے‘ بوریت کی شدت سے میں مرنے والا ہو گیا ۔
دوسری طرف ہم قرآن کھولیں تو نماز اور روزے کے احکامات اپنی جگہ موجود ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ دُہرا کے خدا یہ کہتاہے کہ فلاں چیز میں عقل والوں کے لیے نشانی ہے ‘ مثلاً بارش میں ۔ وہ آپ کو ماں کے پیٹ میں بچّے کی تخلیق کے مراحل بھی بتاتا ہے ۔ وہ چاند اور سورج کے مسخر ہونے پر بھی بات کرتاہے ۔ وہ تمام اجرامِ فلکی کے اپنے اپنے مدار میں حرکت کی بات بھی کرتا ہے ۔آپ تیسواںسیپارہ کھول کر دیکھیں ‘ جہاں قیامت کا ذکر ہے ‘ آپ کے پیروں تلے زمین نکل جائے گی ۔سورج اور چاند کے مل جانے کا ذکر ہے ۔ ستاروں کے جھڑ جانے‘ سورج کے گہنا جانے کا ذکر ہے ۔ زمین کا اپنے اندر کے بوجھ باہر نکال پھینکنے کا ذکر ہے ۔ آسمان میں دروازے کھل جانے کا ذکر ہے ۔
گوکہ انسان آج زمین کے مدار میں کیپلر جیسی دوربینیں بھیج چکا ہے ‘ قرآن میں خدا بے شمار جگہ یہ بتاتا ہے کہ میں ہمیشہ تم سے زیادہ جانتا تھا اور ہمیشہ تم سے زیادہ جانتا رہوں گا ۔کیاوہ یہ نہیں فرماتا کہ آسمان کو ہم نے اپنے زورِ بازو سے بنایا اور ہم ہی اسے وسعت دے رہے ہیں ۔ ''والسماء بنیناھا باید و انا لموسعون‘‘ ۔الذاریٰت 47۔
مسئلہ یہ تھا کہ جو لوگ اللہ کی طرف بلا رہے تھے ‘ انہیں فلکیات اور دوسرے علوم کا کچھ بھی علم نہیں تھا۔اب جسے علم ہی نہیں کہ کائنات پھیل رہی ہے ‘ وہ اس آیت کی کیا تشریح کرے گا۔ توانہوں نے خود علم حاصل کرنے کی بجائے حل یہ نکالا کہ ان سب علوم کو دین سے باہر نکال دیا ۔ ہم اپنے بچوں کو خدا کا صحیح تعارف نہیں کراتے ۔ اگر ہم خود زندگی میں کسی مرحلے پر مذہب کی طرف جاتے بھی ہیں توصرف شدید احساسِ جرم (Guilt) کے زیرِ اثر ۔ ہم اپنے بچوں کو عقل کا استعمال بھی نہیں سکھاتے۔ امتحان میں سارا ٹیسٹ بچے کی یاداشت کا ہوتاہے۔ آپ جن بڑے انگلش میڈیم سکولوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ بچوں کو لادین بنا رہے ہیں ‘ وہاں کم از کم کسی حد تک انہیں اپنا دماغ استعمال کرنا توسکھادیا جاتا ہے ۔ غیر معمولی ذہین لوگ تو خیر سرکاری سکولوں میں سے بھی اپنا راستہ بنا لیتے ہیں ۔
ناصر افتخار صاحب کہتے ہیں کہ ہم خدا کو ہمیشہ قدامت میں دیکھتے ہیں ۔ آپ تختِ سلیمان کا سوچیں ‘ 100میں سے ننانوے لوگ کبھی اس کو پروں اور انجن والی اڑنے والی مشین نہیں سمجھیں گے بلکہ صرف ایک اڑنے والا صوفہ ۔ جو خدا زندہ خلیہ پیدا کر سکتاہے اور اسے ایک سے دو میں بدل کے امر کر سکتاہے ‘جو ماں کے پیٹ میں رحم تخلیق کر سکتاہے ‘جو مرکزی اعصابی نظام اور پورے جسم میں پھیلا ہوا nervesکا جال بچھا سکتاہے ‘ جو کہکشائیں اور بلیک ہول پیدا کر سکتاہے‘ وہ انجن اور پر والی سواری انسان سے پہلے کیوں نہیں بنا سکتا؟ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ خدا بہت قدیم ہے ۔ وہ تو سب سے زیادہ جدید بھی ہے ۔ اصل وجہ یہ تھی کہ جو لوگ ہمیں دین کی طرف بلا رہے تھے‘ وہ تمام جدید علوم سے نابلد تھے؛لہٰذا ہمارے ذہنوں میں خدا کا تصور بھی بہت قدیم ہی بن سکا۔ لیکن جو اصلی استاد تھے شیخ علی بن عثمان ہجویریؒجیسے وہ تواپنے زمانے سے پوری طرح با خبر تھے ۔ انہوں نے اپنے شاگردوں کو یہ ہدایت کی تھی کہ ہر علم میں سے اتنا ضرور حاصل کرنا ‘ جو خدا کی شناخت کے لیے ضروری ہو ۔ اس ایک قول پہ ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے ۔
مجھے زندگی میں ایک استاد ملا ۔میں اس کے بہترین شاگردوں میں سے نہیں تھا ۔ میں نے بہت کم وقت سیکھنے میں صرف کیا ۔ اس کے باوجود اس استاد نے مجھے مکمل طور پر بدل کے رکھ دیا۔جب کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں ‘ جو ہماری نسبت بہت زیادہ علم رکھتے ہیں لیکن وہ ابھی منظرِ عام پر نہیں آئے ۔ وجہ کیا ہے ؟استاد ہی اگر ماضی میں زندگی گزار رہا ہو تو سیکھنے والے کیا سیکھیں گے ؟ ہمارا استاد guiltکے ذریعے ہمیں اپنے پاس بیٹھنے پر مجبور نہیں کر رہا تھا ۔ نہ ہی وہ دنیا سے کٹا ہوا اور کم علم تھابلکہ وہ سب علوم پہ نظر رکھتا تھا۔ اس نے ہمیں صرف ایک ذرا سی جھلک دکھائی کہ خدا کتنا زیادہ جانتاہے اور ہم کتنا کم جانتے ہیں ۔
المیہ یہ ہے کہ خداکی طرف بلانے والے ماضی میں زندہ ہیں !