تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     08-01-2019

عذاب

چند شاہی خاندانوں کا نہیں‘ یہ پوری قوم کا المیہ ہے۔ سب سے بڑا سبق شاید یہ ہے کہ جو معاشرہ سب کچھ حکمرانوں کو سونپ دے‘ عذاب اس پہ اترتے ہیں۔زرداری اور شریف خاندان ایسے عذاب!افسوس کہ آنکھیں بند کئے کپتان کے فدائین بھی اس کے پیچھے بھاگے چلے جاتے ہیں۔غور و فکر سے فہم و فراست سے بے نیاز۔
جناب آصف علی زرداری مدظلہ العالی کو تھوڑی سی مہلت ملی ہے‘ رہائی نہیں ملی... اور دور دور تک اس کا امکان بھی نہیں۔ اتنے ثبوت ہیںکہ ذرا سی دشواری بھی استغاثہ کو نہیں ہوگی۔ کتنے ہی اعتزاز احسن‘ کتنے ہی قمر زمان کائرہ اور کتنی ہی شیریں رحمانیں وکالت پہ تل جائیں۔باعزت بری ہونے کا راستہ بند ہے۔ ان کی سیاسی زندگی کا خاتمہ ہونے والا ہے۔پہلے ہی شواہد کے انبار پڑے ہیں۔پھر نیب کے تفتیش کرنے والے بھی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے رہیں گے۔ جے آئی ٹی کے افسراس دوران خاموشی سے مزید گواہ اور مزید دستاویزات فراہم کر سکتے ہیں۔
مہلت کا مطلب یہ ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت وقتی طور پر بچی ہے۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کچھ دن برقرار رہ سکتے ہیں؛ ہر چند کچّے دھاگے سے بندھی تلوار لٹکتی رہے گی۔ زرداری صاحب کی شدید خواہش تھی کہ ان کے فرزند ارجمند کا سیاسی کردار باقی رہے۔ چند روز کے لئے‘ اس میں وہ کامیاب رہے لیکن تابہ کے؟ وزیراعلیٰ اور بلاول بھٹو کے بیرون ملک جانے پہ پابندی ضرور ختم کی گئی لیکن تفتیش کے لئے طلب کیا جا سکتا ہے۔تفتیش کاروں کو کیسے وہ مطمئن کریں گے؟
باپ بیٹا اور ان کے حواری چیخے چلا ئے بہت مگر چار پانچ سنگین الزامات میں سے کسی ایک کا جواب بھی دے نہیںسکے۔ اسی بنا پہ استدعا مسترد کر دی گئی کہ مقدمہ نیب کے سپرد نہ کیا جائے۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ کہتی ہے کہ اومنی گروپ کے 95 فیصد اثاثے سندھ میں پیپلز پارٹی کے دس سالہ اقتدار میں بنے۔دو تین اداروں کو ضم کر کے سمّٹ بینک بنایا گیا اور کالا دھن سفید کرنے کے لئے برتا گیا۔ سندھ بینک اس کے سوا تھا۔ عملی طور پہ جس کا سربراہ صوبے کا وزیر خزانہ ہواکرتا ہے۔ یہ مراد علی شاہ تھے۔ انہی کے ایما پر قواعد و ضوابط کو روند کر اربوں کے قرضے اومنی گروپ پہ نچھاور کئے گئے۔ ایسی ہی خدمات کے عوض عالی جناب وزارت اعلیٰ کے منصب پہ براجمان ہوئے۔ زرداری صاحب وگرنہ قائم علی شاہ کے بہت قائل تھے۔ ایک تو زر اندوزی سے بڑے میاں کو زیادہ دلچسپی نہ تھی‘ ثانیاً سب لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔بے وفائی کا اندیشہ بھی ان سے کبھی نہ ہوا۔
مسئلہ یہ ہے کہ زرداری صاحب پہ دولت کے انبارجمع کرنے کا بھوت سوار تھا۔ اس مرض میں کوئی مبتلا ہو جائے توباقی سب ترجیحات ثانوی ہو جاتی ہیں۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے کہ جوں جوں آدمی کی عمر بڑھتی ہے‘ زندہ رہنے کی خواہش اور دولت سمیٹنے کی ہوس بھی بڑھتی جاتی ہے۔ فرمایا: اگر سونے کی ایک وادی ابن آدم کے پاس ہو تو دوسری کی تمنا کرے گا۔ زر و جواہر کی آرزو میں اندھے ہو جانے والوں کے بارے میں قرآن کریم ارشاد یہ کرتا ہے: جیسے انہیں شیطان نے چھو لیا ہو۔
اسی عالم میں حماقت کا آدمی ارتکاب کرتا ہے‘ جو بالآخر اسے رسوا کر کے رہتی ہے۔ ہوش مندی ساتھ دیتی ہے‘ جب تک جبلّت غلبہ نہ پا لے۔ اس کی وحشت چھا جائے تو تجزیہ کرنے کی صلاحیت وہ کھو دیتا ہے۔
سندھ حکومت نے یکے بعد دیگرے کئی شوگر ملیں ‘لگ بھگ دس پندرہ فیصد کے عوض اومنی گروپ کو عنایت کر دیں۔ زیادہ تر بند رہیں۔ اس کے باوجود زرِاعانت بھی دی جاتی رہی۔فیاضّی سے بینکوں کے قرضے بھی۔ چینی کے جن ڈھیروں کے عوض یہ قرضے لئے گئے‘ وہ بھی بیچ ڈالے گئے۔ چوہدری منظور حسین اور رضا ربانی سمیت کوئی ان الزامات کو غلط ثابت نہیں کر سکتا۔ اس کے باوجود اپنے آقا کی وکالت فرماتے رہیں گے۔ 
بظاہر جمہوریت کی فقید المثال نعمت کو ہم نے پا لیا ہے مگر بادشاہت کا سودا ہمارے سروں سے نکلا نہیں۔ پروردگارِ عالم اور اپنے حسنِ عمل میں نہیں‘ طاقتور سیاسی لیڈروں اور حکمرانوں کی اطاعت میں‘ ہم توقیر تلاش کرتے ہیں۔ ازل سے آدمی اسی کا بھوکا ہے۔ غلبے کی اسی قدیم جبلّت پر تو‘ جو انسانی کردار کو پستیوں میں لڑھکاتی ہے۔ 
سمّٹ بینک کو غیر ملکی بینک کے طور پہ رجسٹر کرایا گیا۔ اس کا سرمایہ 9ارب ظاہر کیا گیا‘ یعنی وہ رقم جو سٹیٹ بینک آف پاکستان کو ضمانت کے طور پہ جمع کرانا تھی۔ صرف نو کروڑ روپے ادا کئے گئے...اور یاللعجب‘ سٹیٹ بینک نے کبھی اعتراض نہ کیا۔ 
اومنی گروپ کی صرف چار کمپنیاں تھیں۔ دس سال کی مختصر سی مدّت میں ان کی تعداد 90سے زیادہ ہو گئی۔ جعلی کمپنیاں ان میں شامل تھیں۔ سندھ بینک نے 8کروڑ‘ 30کروڑ اور 60کروڑ روپے کی سطح کے قرضے جاری کئے‘ جو بعد میں یکسر معاف کر دئیے گئے۔حلوائی کی دکان پہ نا نا جی کی فاتحہ۔ پیپلز پارٹی کے جو رہنما ان کارناموں کے حق میں دلائل تراشتے ہیں‘ ان کے بارے میں کیا عرض کیا جائے؟پاکستانی معیشت اگر برباد ہے تو تعجب کیا۔ جنگلی جانور اس طرح فصل تباہ نہیں کرتے‘ جس طرح بعض لٹیروں نے قومی خزانہ رائیگاں کیا۔ جانور کی وحشت پیٹ بھرنے تک ہوتی ہے مگر آدمی کا پاگل پن توبے کنارہوتا ہے۔ اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے؛ بہترین تقویم پر آدمی کو ہم نے پیدا کیا پھر اسفل سے اسفل ترین کر دیا۔ سوائے ان کے جو ایمان اور حسنِ عمل کے حامل ہیں۔
جائیداد کا کاروبار کرتے ایک ادارے کو گلستانِ جوہر میں ساٹھ ایکڑ سرکاری زمین عطا کردی گئی اور ڈیڑھ سو ایکڑ سٹیل مل کی بھی۔ بے نامی کھاتوں میں اس کے عوض کروڑوں روپے جمع ہوئے‘ بعدازاں جو اومنی گروپ کو منتقل ہوئے۔ یہی روپیہ سمندر پار گیا۔ اسی سے دبئی‘ فرانس اور لندن کی جائیدادیں خریدی گئیں۔ ڈکیتی اور لوٹ مار نہیں‘ اردوزبان کو اس کے لئے نئے لفظ ڈھالناہوں گے۔
بینک کے ان کھاتوں میں سے بظاہر کچھ ''اصلی‘‘ تھے۔یہ بھی کالادھن سفید کرنے کے کام آئے۔ بینکوں کے جعلی کھاتے ہی تھے‘ جن سے بلاول ہائوس کراچی کے بل ادا کئے جاتے۔ لاہور‘ اسلام آباد اور نوڈیرو میں بھی‘ حتیٰ کہ صدقے کے بکرے اور سالگرہ کے کیک خریدے جاتے۔ زراندوزی اور بخل کا ایسا اجتماع کم دیکھنے میں آیا ہوگا۔
ماضی میںزرداری صاحب ہر بار کیسے بچ نکلے؟ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کے ذریعے وقت حاصل کرتے۔ گواہوں کو رام کیاجاتا۔ دفتروں سے کاغذات چوری کر کے ضائع کر دئیے جاتے۔ عدالتی اہلکاروں کو خریدا جاتا اور تفتیش کاروں کو بھی۔ طویل عرصے کے لئے مقدمات لٹکائے جاتے‘ حتیٰ کہ شواہد ضائع ہو جاتے۔
اب یہ سہل نہیں۔ مہلت دینے کی کوشش کی تو اسٹیبلشمنٹ کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا‘ نیب اور عمران حکومت کو بھی ...اور انہیں قیمت چکانا ہوگی۔ یہ ایک بدلی ہوئی دنیا ہے۔ یہ ایک مختلف میڈیا ہے ۔ سوشل میڈیا اس کے سوا۔ عدالتوں کو دبایا نہیں جا سکتا۔ نیب پر کوئی جبر نہیں۔ عمران خان سودے بازی کر نہیں سکتے اور اسٹیبلشمنٹ یہ بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ ایک آدمی نہیں‘ اب یہ پورا ادارہ ہے۔ اب اس کا اجتماعی ضمیر بروئے کار ہے۔
دانشوروںنے غور نہیں فرمایااسٹیبلشمنٹ کی نوعیت بدل چکی۔
سرکاری افسروں کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری صدر تھے تو انور مجید‘ وزیراعظم کی طرح وفاقی سیکرٹریوں کو احکامات جاری کرتے۔ا سی طرح ان کے فرزند اے جی مجید سندھ حکومت کے افسروں کو۔ کس کی مجال تھی کہ انکار کرے۔بنتے بنتے ملک چراگاہ بن گیا۔
زرداری خاندان کی کہانی کسی کو لکھنی چاہئے اور کسی کو شریف خاندان کی بھی۔انشاء اللہ لکھی جائیں گی اور آشکار ہوگا کہ اخلاقی طور پہ معاشرہ کس قدر مفلس ہو چکا تھا۔
چند شاہی خاندانوں کا نہیں‘ یہ پوری قوم کا المیہ ہے۔ سب سے بڑا سبق شاید یہ ہے کہ جو معاشرہ سب کچھ حکمرانوں کو سونپ دے‘ عذاب اس پہ اترتے ہیں۔زرداری اور شریف خاندان ایسے عذاب!افسوس کہ آنکھیں بند کئے کپتان کے فدائین بھی اس کے پیچھے بھاگے چلے جاتے ہیں۔غور و فکر سے فہم و فراست سے بے نیاز۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved