جہاں یہ بات وثوق سے کہی جا رہی ہے کہ لُوٹی ہوئی دولت واپس آ جائے تو پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے‘ وہاں وزیراعظم سمیت دو وزراء پورے زور و شور سے یہ دعوے کر رہے ہیں کہ لُوٹی ہوئی دولت ہر صورت واپس لائی جائے گی۔ بیرون ممالک میں جہاں جہاں اس دولت سے خریدی کئی جائیدادیں موجود ہیں۔ ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اس سلسلے میں کیا تعاون کرتی ہیں‘ تاہم اس پر جو اشارے مل رہے ہیں‘ وہ کچھ اتنے حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ اور اس بات کے امکانات اور خدشات زیادہ ہیں کہ شاید حکومت کو اس میں کامیابی حاصل نہ ہو سکے۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے حکومت کے پاس واحد دباؤ ان عناصر پر مقدمات دائر کر کے عدالتوں سے انہیں سزایاب کرانا ہے۔ چھوٹے مقدمات میں ؛ اگرچہ پلی بارگیں کے ذریعے نیب والے رقوم حاصل کرتے رہتے ہیں ‘جو اونٹ کے منہ میں زیرہ ہی کے مترادف ہے؛ چنانچہ حکومت کے پاس آخری حربہ یہ مقدمات ہی رہ جاتے ہیںاور یہ بھی ضروری نہیں کہ سارے میگا مقدمات میں حکومت کامیابی حاصل کر سکے‘ کیونکہ وائٹ کالرجرائم کا ثابت کرنا بھی کچھ اتنا آسان نہیں ہوتا‘ کیونکہ ملزمان کی طرف سے یہ سارا کچھ حیران کن ہنرمندی کے ساتھ کیا گیا ہوتا ہے‘ بلکہ بعض مقدمات میں پراسیکیوشن بھی پوری تندہی دکھانے سے بوجوہ قاصر رہتی ہے۔ ایک اور امکان یہ بھی موجود ہے کہ حکومت افہام و تفہیم کے ذریعے بڑی پارٹیوں سے قابل ذکر رقم واپس حاصل کر سکے ‘جسے این آر او کا نام بھی دیا جاتا ہے اور جس سے حکومت مسلسل انکار کرتی چلی آ رہی ہے کہ وہ ایسا کبھی ہونے نہیں دے گی‘ جبکہ قدرتی طور پر کچھ پارٹیوں کی طرف سے ڈیل وغیرہ کی درپردہ کوششیں بھی منظر عام پر آتی رہتی ہیں‘ جو تاحال نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکیں‘ جبکہ شریف برادران کی طرف سے ا ین آر او ڈیل حاصل کرنے کے متعدد واضح اشارے بھی ملے ہیں‘ جن سے ان حضرات کی طرف سے مسلسل انکار بھی ظاہر کیا جا رہا ہے‘ واللہ اعلم بالصواب۔
اب آتے ہیں‘ حکومت کی اصل اُمید گاہ کی طرف کہ یہ مقدمات کا دباؤ ڈال کر دولت واپس حاصل کر لے گی اور جو حکومت کی صریح غلط فہمی ہے ‘کیونکہ یہ حضرات پانچ پانچ یا دس دس سال قید بھگت لیں گے‘ لیکن لُوٹی ہوئی دولت ہرگز واپس نہیں کریں گے‘ کیونکہ قید کا دباؤ ان کے لیے کوئی دباؤ نہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ وہ سہولتیں ہیں جو انہیں جیل میں مہیا کی جائیں گی ‘جس سے قید کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے ‘جبکہ جیل مینویل کے مطابق ہر گریجویٹ قید میں بی کلاس حاصل کرنے کے لیے درخواست دے سکتا ہے ‘جس سے بالعموم انکار نہیں کیا جاتا‘ جو کہ وہ سب سے بڑا مذاق ہے‘ جو اس ضمن میں بروئے کار لایا جاتا ہے‘ یعنی عدالتی فیصلے کے مطابق تو وہ قید بامشقت ہوتی ہے‘ لیکن مشقت اُٹھانے کی بجائے انہیں باقاعدہ ایک مشقتی مہیا کیا جاتا ہے‘ جبکہ عام قیدیوں کے ساتھ بیرکوں کی بجائے انہیں علیحدہ کمروں میں رکھا جاتا ہے‘ جہاں انہیں فریج‘ ہیٹر‘ ائیرکنڈیشنر‘ ٹی وی اور اخبارات سمیت ہر طرح کی مراعات حاصل ہوتی ہیں‘ جس سے قید بامشقت قید با سہولت ہو کر رہ جاتی ہے۔
منقول ہے کہ ایک بار پنجاب پولیس کا ایک اے ایس آئی کسی کام کے سلسلے میں مصر گیا تو اس نے سوچا کہ چل کر وہاں کا میوزیم بھی دیکھ آئے؛ چنانچہ وہ وہاں پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ آثار قدیمہ کے کچھ ماہرین ایک ممی کی عمر کے بارے میں پریشان تھے کہ اسے کب ممی فائی کیا گیا تھا۔ اے ایس آئی نے انہیں کہا کہ یہ ممی میرے سپرد کریں اور اس کے ساتھ مجھے تخلیہ بھی مہیا کیا جائے جو کہ کر دیا گیا؛ چنانچہ موصوف کو ممی کے ساتھ ایک علیحدہ کمرے میں بٹھا دیا گیا۔ کوئی پندرہ منٹ کے بعد وہ باہر نکلا اور ان سے کہا کہ لکھئے؛ اس کی عمر دو ہزار چھ ماہ چار دن ہے۔ ماہرین نے حیران ہو کر پوچھا کہ آپ نے کیسے یہ معلوم کر لیا ہے‘ تو موصوف بولے ''یہ خود بک پڑی ہے!‘‘۔سو‘ ان معززین سے لُوٹی ہوئی دولت واپس حاصل کرنے کے لیے پنجاب پولیس کا صرف ایک اے ایس آئی درکار ہے؛چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جیل مینویل کے اس مخولیہ آرٹیکل کو ختم کیا جائے‘ جس کی وجہ قید بامشقت کا تصور ہی اُلٹ پلٹ گیا ہے کہ اگر قیدیوں کو جیل میں گھر جیسی سہولیات میسر آئیں گی‘ تو وہ اس کو دباؤ سمجھیں گے یا محض عیاشی کا ایک وسیلہ۔ ابھی پچھلے دنوں ہی ایک خبر آئی ہے کہ بھارت کی ایک ریاست میں جن لوگوں کو کھانا میسر نہیں‘ تو وہ کوئی چھوٹا موٹا جرم کر کے جیل چلے جاتے ہیں‘ جہاں دو وقت کا کھانا لازمی طور پر ملتا ہے۔ سو‘ یہاں بھی‘ ایک گریجویٹ چاہے جتنے بھی سنگین جرم میں قید بامشقت کی سزا پر جیل جانے کو تیار ہوگا کہ اسے وہاں بی کلاس تو مل ہی جائے گی‘ جہاں مشقت کرنے کی بجائے دیگر سہولیات کے ساتھ ساتھ اسے ایک مشقتی بھی دستیاب ہوگا ‘جبکہ اس کی مشقت کی خانہ پُری اس طرح کی جائے گی کہ یا تو وہ ان پڑھ قیدیوں کو پڑھا دیا کرے یا اپنے کمرے کو صاف ستھرا رکھے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔
سو‘ اس انتہائی مضحکہ خیز قانون کو کوئی حکومت تو ختم کرنے سے رہی‘ کیونکہ وہ بجاطور پر سمجھے گی کہ شاید اگلی بار اپوزیشن میں ہونے کی صورت میں اسے بھی اس کی ضرورت پڑ جائے‘ اس لیے اس کا واحد حل یہ ہوا کہ چیف جسٹس آف پاکستان جہاں اس ملک کے اور بڑے بڑے مسائل سومو موٹو نوٹس لیکر حل کر رہے ہیں‘ وہاں؛ اگر وہ اس انتہائی امتیازی اور نامناسب قانون کو بھی ختم کر سکیں تو لوٹی ہوئی دولت واپس آنے کے یقینی امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ع
ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے!
سو‘ چیف صاحب‘ اگر یہ کارنامہ سرانجام دے سکیں ‘ تو کچھ قیدی لوٹی ہوئی رقم کو واپس کرنے کو ترجیح دیں گے!ورنہ تو اس رقم کی واپسی ایک خواب بن کے رہ جائے گا۔
آج کا مقطع
فاصلوں ہی فاصلوں میں جان سے ہارا ظفرؔ
عشق تھا لاہوریے کو ایک ملتانی کے ساتھ