تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     08-01-2019

چلتی پھرتی کچرا کنڈیاں

کچرا کسے اچھا لگتا ہے؟ شاید کسی کو بھی نہیں۔ انہیں بھی نہیں‘ جو اس حوالے سے ادنیٰ ترین درجے کا بھی احساس نہیں رکھتے! مگر یہ بھی ایک عجیب اور دل خراش حقیقت ہے کہ کچرے سے ذرا بھی رغبت نہ رکھنے کے باوجود ہم مرتے دم تک زندگی کے پیج پر کچرے کو ''لائیک‘‘ کرتے رہتے ہیں! 
پاکستانی معاشرہ اُس مقام پر کھڑا ہے جہاں ہر گیا ‘گزرا معاملہ زندگی کی اساس بن بیٹھا ہے۔ جہان بھر میںجن باتوں کو جی کا روگ سمجھ کر رخصت کیا جاچکا ہے ‘ہم اُن باتوں کو حرزِ جاں بنائے ہوئے ہیں۔ ہر غیر متعلق معاملہ ہمارے لیے ''مارو یا مر جاؤ‘‘ والا کیس ہوچکا ہے۔ معاشرے کے تانے بانے اور اُتار چڑھاؤ پر گہری نظر رکھنے والے یہ سب کچھ دیکھ کر حیران اور پریشان ہیں۔ کسی بھی معاملے کے تمام پہلوؤں پر غور کرنے سے الجھن بڑھتی ہی ہے‘ کم نہیں ہوتی۔ ؎ 
نظر میں الجھنیں‘ دل میں ہے عالم بے قراری کا 
سمجھ میں کچھ نہیں آتا سُکوں پانے کہاں جائیں؟ 
غیر متعلق معاملات پر جان و دل لُٹانے کی روش پر گامزن رہنے کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ اب بہت کوشش کرنے پر اِن لاحاصل معاملات سے الگ ہونا ''مجاہدے‘‘ کے ذیل میں آگیا ہے! بہت سوں کو اس حالت میں دیکھا ہے کہ جب کیریئر اور زندگی دونوں کے حوالے سے بہترین آپشن منتخب کرنے کا مرحلہ آتا ہے‘ تو سوچے سمجھے بغیر کمزور ترین آپشن منتخب کرلیتے ہیں اور پھر شدید و المناک مشکلات سے دوچار رہتے ہیں۔ ایسا بالعموم اِس لیے ہوتا ہے کہ لایعنی اور غیر متعلق معاملات اُنہیں دبوچے رہتے ہیں۔ جب بہترین اور سراسر متعلق و موزوں آپشن منتخب کرنے کا مرحلہ آتا ہے‘ تب اُن کی عادات درست فیصلہ نہیں کرنے دیتیں۔ تمام فضول معاملات اُن کی پوری فکری ساخت پر متصرّف ہوکر معاملے کو الجھا دیتے ہیں اور یوں آسان اور موزوں ترین دکھائی دینے والا آپشن اختیار کرنا بھی اُن کے لیے سوہانِ روح ہو جاتا ہے۔ 
بات لایعنی اور لاحاصل معاملات تک محدود رہتی تو زیادہ اندیشے پالنے کی ضرورت نہ تھی۔ معاملہ یہ ہے کہ ہم قدم قدم پر لایعنی‘ لاحاصل اور غیر متعلق لوگوں کا سامنا کرنے پر بھی تو مجبور ہیں۔ یہ سلسلہ بہت چھوٹی عمر سے شروع ہوتا ہے اور مرتے دم تک جاری رہتا ہے۔ معاشرہ ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے‘ جن کی زندگی کا کوئی واضح مقصد نہیں اور وہ دوسروں کو بھی اسی پر گامزن گامزن رہنے کی ''تحریک‘‘ دیتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں ماحول ایسے لوگوں سے بھرا رہتا ہے‘ جن کے فکر و عمل کی کوئی واضح اور متعلق سمت نہیں ہوتی اور زندگی کا کوئی ایسا مقصد نہیں ہوتا جس سے تحریک کے سوتے پُھوٹتے ہوں۔ 
اپنے ماحول میں منفی سوچ رکھنے والوں کی موجودگی محسوس کرنا‘ انہیں شناخت کرنا ہمارے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ ذرا سی توجہ سے ہم ایسے ہر انسان کو اچھی طرح شناخت کرسکتے ہیں ‘جس کے فکر و عمل کی کوئی واضح اور موزوں سمیت متعین نہیں اور جو زندگی کو بامعنی انداز سے بسر کرنے کرنے کے حوالے سے کوئی ولولہ انگیز مقصد نہیں رکھتے۔ ان کے پورے وجود میں کہیں بھی کوئی بھی معاملہ اپنے درست ترین مقام پر نہیں ملتا۔ سوچنے کی توفیق انہیں نصیب نہیں ہوتی‘ محنت کرنے پر یہ یقین نہیں رکھتے اور اس کے باوجود شور ‘اس طرح مچاتے ہیں گویا پورا معاشرہ انہی کے دم سے زندہ ہے اور یہ نہ ہوئے تو کچھ بھی نہ رہے گا! 
منفی سوچ رکھنے والوں کی تعداد اِتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ اب مثبت سوچنے اور بامقصد زندگی بسر کرنے والے ہر فرد کے لیے خود کو محفوظ رکھنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ منفی سوچنے اور کچھ نہ کرنے کے لیے کچھ نہیں کرنا پڑتا۔ ساری محنت تو اُن کے حصے میں آئی ہے‘ جو ہر حال میں مثبت سوچتے ہیں‘ متوازن رویہ رکھتے ہیں اور اپنے وجود کو زیادہ سے زیادہ بارآور ثابت کرنے کے لیے عمل کی دنیا میں اپنی صلاحیت و سکت کا لوہا منوانے کی بھرپور کوشش کرتے رہتے ہیں۔ انہیں ہر آن یہ غم ستاتا رہتا ہے کہ زندگی کا کوئی بھی پہلو تشنہ نہ رہے اور زندگی کو زیادہ سے زیادہ بامعنی بنانے کے لیے جو کچھ بھی کیا جاسکتا ہے ‘وہ ضرور کیا جائے۔ 
اگر زندگی ڈھنگ سے بسر کرنی ہو تو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ منصوبہ سازی سے ہر منصوبے کو تکمیل کی منزل تک پہنچانے کے عمل میں انسان کئی مرحلوں سے گزرتا ہے اور ہر مرحلہ پورے وجود کی آزمائش چاہتا ہے۔ دوسری طرف اُن کے لیے کوئی آزمائش نہیں رکھی گئی‘ جن کی سوچ یکسر منفی ہے اور جو زندگی کی مہربانی سے سامنے آنے والے کسی بھی چیلنج کا پامردی سے سامنا کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔ کچھ کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے‘ جسے کچھ نہ کرنا ہو اُسے کچھ نہیں کرنا پڑتا۔ یہی سبب ہے کہ کچھ نہ کرنے کے آپشن کو بخوشی اپنایا جاتا ہے اور زندگی کو بامقصد اور بامعنی انداز سے بسر کرنے کے آپشن کو بالعموم ترک کردیا جاتا ہے۔ 
زندگی کو زیادہ سے زیادہ بارآور انداز سے بسر کرنے کی‘ جس نے ٹھان لی ہو اُسے بھرپور محنت تو خیر کرنی ہی پڑتی ہے کہ ایسا کیے بغیر چارہ نہیں‘ مگر ایک کام اور بھی کرنا پڑتا ہے اور اُس سے صرفِ نظر بھی ممکن نہیں۔ وہ کام ہے‘ منفی لوگوں سے بچنا۔ جو اپنے وجود کو اہمیت نہ دیتے ہوں‘ اپنی زندگی کو بامقصد اور بارآور ڈھنگ سے بسر کرنے میں برائے نام بھی دلچسپی نہ لیتے ہوں ‘وہ بھلا کس طور کسی اور کو کچھ دے سکتے ہیں؟ ہم زندگی بھر ایسے لوگوں میں گِھرے رہتے ہیں جو خود ڈھنگ سے جیتے ہیں ‘نہ دوسروں کو ڈھنگ سے جینے کی اجازت دیتے ہیں۔ کہنے کو اُن کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا‘ مگر ایک مقصد بہر حال ہوتا ہے ... یہ کہ دوسروں کو بھی بامقصد زندگی بسر کرنے سے دور رکھا جائے! اور اس مقصد کے حصول کی خاطر وہ منفی خیالات کا زہر پلا پلاکر دوسروں کے ذوقِ عمل کو موت کی نیند سُلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ 
بات شروع ہوئی تھی کچرے سے۔ ہمیں کچرے سے اُٹھنے والا تعفّن تو پسند نہیں‘ مگر منفی سوچ رکھنے والوں کو ہم‘ کسی نہ کسی حیثیت میں‘ زندگی بھر برداشت کرتے رہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ کچرا کنڈی سے تو ہم دور دور رہتے ہیں‘ مگر چلتی پھرتی کچرا کنڈیوں کو ہم زندگی بھر اپنی طرف آنے دیتے ہیں‘ اپنی زندگی کا حصہ بنائے رکھنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس میں کچھ کمال تو سہل پسندی کا ہے اور کچھ تامّل و ہچکچاہٹ کا۔ ہم اپنی ترجیحات کا پورے مطلوب توازن کے ساتھ تعین کرنے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ یہ تو ہوئی سہل پسندی۔ منفی سوچ رکھنے والوں کو اپنے سے دور رکھنے میں کچھ شرم مانع ہوتی ہے اور کچھ مروّت۔ ہم تعلقات کو بگڑنے سے بچانے کے لیے منفی سوچ رکھنے والے بہت سے لوگوں کو برداشت کرتے رہتے ہیں۔ 
یہ بات ہمیشہ ذہن کے پردے پر‘ پوری جگمگاہٹ کے ساتھ‘ موجود رہنی چاہیے کہ جس طور ہم کچرا کنڈی سے دور رہتے ہیں‘ بالکل اُسی طور منفی سوچ رکھنے والے ہر ناکارہ و بے عمل انسان کو بھی اپنے سے دور رکھنا ہے۔ اس معاملے میں اپنے آپ کو دی جانے والی رعایت ہی ہمارے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوتی ہے۔ جہاں بامعنی اور مفید زندگی بسر کرنے کی بات آجائے وہاں منفی سوچ اور اس سوچ کے حامل افراد کو برداشت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ اتنا سمجھ لیجیے کہ جہاں آپ نے پس و پیش سے کام لیا اور گریز پا ہوئے بس وہیں سے ناکامی کا سفر شروع ہوا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved