تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     08-01-2019

’’ اب یہ شہباز شریف ہیں!‘‘

چولستان کے ایک دوردراز کے گاؤں کی مکین خاتون کھیت میں کھڑی ہے اور اُس کے سامنے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار موجود ہیں۔ خاتون کی آنکھوں میں اجنبیت کے تاثرات دیکھ کر وزیراعلیٰ کے ساتھ موجود ایک صاحب اُن کی مدد کو آتے ہیں اور خاتون سے کچھ ایسے مخاطب ہوتے ہیں:ماں جی کداں ہوتسی‘‘پتر میں چنگی ہاں! ماں جی وہ شہباز شریف ہندے سن ناں پنجاب دے وڈے وزیر‘ آہو پتر ہندے سن‘‘اُناں دی طراں ہن عثمان بزدار وڈے وزیرہن!(ماں جی کیسی ہیں آپ‘ پتر میں ٹھیک ہوں‘ ماں جی وہ جس طرح شہباز شریف پنجاب کے بڑے وزیر ہوا کرتے تھے ناں‘ آہو پتر ہندے سن‘ اُسی طرح اب یہ عثمان بزدار صاحب ہیں پنجاب کے بڑے وزیر!)اس مختصر سے تعارف سے خاتون کو معلوم تو پڑ گیا کہ اُس کے سامنے کوئی بڑی شخصیت کھڑی ہے ‘لیکن اُس کی آنکھوں میں اجنبیت کے تاثرات بہرحال موجود رہے۔عثمان بزدار صاحب کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا منصب سنبھالے قریباً چار ماہ ہوچلے ہیں‘ لیکن وہ ابھی تک پہچان کے سفر پر رواں دواں نظرآتے ہیں۔ انہیں ریسکیو کرنے کے لیے کبھی اُن کے ساتھی آگے آتے ہیں تو کبھی خود وزیراعظم عمران خان کو میدان میں آنا پڑتا ہے۔ان باتوں کا مقصد اُن پر تنقید کرنا بالکل بھی مقصود نہیں ۔ یقینا وہ ایک اچھے انسان ہیں ۔اچھے ہیں تو نئی حکومت نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پگڑی اُن کے سرپہنائی ہے۔اُن سے توقعات بھی بہت ہیں کہ جلد ہی وہ ڈیلیور کرنے کی پوزیشن میں آجائیں گے۔خود سے وابستہ توقعات کو پورا کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھیں گے۔اب اگر تعارف کے معاملے سے تھوڑا ہٹ کر دیکھا جائے تو تحسین تو کی ہی جانی چاہیے کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار خود گاڑی چلا کر چولستان کے دیہاتوں تک پہنچے۔وہاں کے شہریوں کے لیے سہولیات کا جائزہ لیا۔خود نلکے کا پانی پی کر چیک کیا کہ اس کا معیار کیسا ہے۔جہاں جہاں محسوس کیا کہ فوری بہتری کی ضرورت ہے تو اُس کے لیے احکامات بھی جاری کیے۔اتنا ہی نہیں ‘بلکہ کھلا دل رکھنے والے عثمان بزدار عوام میں گھل مل گئے ۔ اُن کے ساتھ کچھ اپنے دل کی باتیں کیں اور کچھ اُن کی سنی اور واپس آنے سے پہلے وہاں صحت عامہ کی سہولیات کے فقدان بارے بھی نوٹس لے لیا۔بقول حکومتی ترجمان کے اس طرح اُنہوں نے عوام سے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کردیا۔ترجمان کی طرف سے یہ نوید بھی سنائی گئی ہے کہ عثمان بزدار صاحب‘ اسی طرح گاہے بگاہے صوبے کے مختلف علاقوں کے دورے کرتے رہیں گے‘ لیکن محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اپنی پہچان بنانے کے لیے ابھی طویل سفر طے کرنا ہوگا ‘ جس دن وہ شہباز شریف نہیں‘ بلکہ خود اپنے حوالے سے پہنچانے جائیں گے ‘تو سمجھ لیجئے کہ اُن کی کامیابیوں کا سلسلہ شروع ہوگیاہے۔
بزدار صاحب کے اچھے کردار اور اچھی شخصیت سے ہٹ کر اُن کی بیڈلک یہ رہی ہے کہ وزارت اعلیٰ کے لیے اپنے انتخاب کے ساتھ ہی وہ تنقید کی زد میں آگئے۔اپنے انتخاب کے ساتھ ہی سب سے پہلے تو اُن پر ایک مقدمہ قتل میں ملوث ہونے کا الزام سامنے آیا۔اس موقع پر بھی وزیراعظم عمران خان اُن کی مدد کے لیے آئے‘ جن کی طرف سے ایسی تمام باتوں کو لغو قرار دیا گیا۔کبھی اُن پر یہ الزام لگتا رہا کہ وہ خاتون اول کی سفارش پر وزارت اعلیٰ کے لیے منتخب ہوئے ہیں ۔ کبھی اس فیصلے کے پس منظر میںجہانگیرترین کا نام سامنے آتا رہا۔یہ بھی کہا جاتا رہا کہ جہانگیرترین ایسا کوئی وزیراعلیٰ لانے کے لیے تیار نہیں تھے ‘جو پنجاب میں اُن کی پوزیشن کا چیلنج کرسکتا۔اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو سننے میں تو اب بھی یہی آتا ہے کہ پردے کے سامنے تو عثمان بزدار ہی اجلاسوں کی صدارت کرتے ہیں ‘لیکن پردے کے پیچھے سے ڈوریاں کسی اور کی انگلیاں ہلاتی ہیں۔یہ تک بھی کہا جاتا ہے کہ بعض اوقات تو پردے کے پیچھے اجلاسوں کی صدارت بھی کوئی اور کرتا ہے۔ہوسکتا ہے یہ بات غلط ہی ہو‘ لیکن پھر بھی معلوم نہیں یہ تاثر کیوں پیدا ہوچکا کہ پنجاب میں اس وقت کم از کم پانچ پاورپاکٹس بن چکی ہیں۔ دعویٰ تو یہ بھی ہے کہ 2جنوری کو بھی 8کلب میں کم از کم تین اجلاسوں کی صدارت وزیراعلیٰ کی بجائے کسی اور نے کی۔وزیراعلیٰ کے ایک معاون خصوصی بھی ان دنوں بہت ایکٹونظرآرہے ہیںاور اسی ایکٹوازم میں بعض اوقات تو وہ جانے انجانے میں اپنے اختیارات سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ پوچھ تاچھ پر یہ تاثر دینے سے بھی نہیں کتراتے کہ انہیں عمران خان صاحب نے بھیجا ہے ۔
ایک طرف اگر یہ صورت حال ہے‘ تو دوسری طرف پنجاب میں ن لیگ واحد بڑی اپوزیشن پارٹی کی صورت میں ہروقت تحریک انصاف کے لیے مصیبت بنی نظرآتی ہے۔برسراقتدار جماعت اور اپوزیشن کے درمیان ووٹوں کا فرق نہ ہونے کے برابرہے۔خدالگتی بات تو یہی ہے کہ صوبائی حکومت ق لیگ اور چند ایک آزاد اراکین اسمبلی کے کندھوں پر ٹکی ہے۔سینیٹ کے انتخابات میں جس طرح تحریک انصاف کو اپنے اُمیدواروں کی کامیابی کے لیے زور لگانا پڑا‘ وہ سب کے سامنے ہے۔برسبیل تذکرہ اس بات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ سینیٹ انتخابات کے دوران سب سے زیادہ نظریں دوخواتین کے انتخاب پر ٹکی ہوئی تھیں۔تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کی ہمشیرہ سیمی ایزدی اور مسلم لیگ ن کی سائرہ افضل تارڑ صاحبہ۔جہانگیرترین کئی روز تک لاہور میں ڈیرہ لگائے رہے ‘لیکن پھر بھی سیمی ایزدی صاحبہ صرف آٹھ ووٹوں سے سینیٹ کی نشست جیتنے میں کامیاب ہوسکیں۔سینیٹ کی دوسری نشست پر تحریک انصاف کے اُمیدوار صرف سات ووٹوں سے کامیاب ہوسکے۔یہ نتائج صوبے میں تحریک انصاف کی پوزیشن جانچنے کے لیے سوچ بچار کا کافی مواد فراہم کرتے ہیں۔ان حالات میں وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز عثمان بزدار صاحب کوایک دو نہیں ‘بلکہ بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔عوام آن کی آن میں اُن کا موازنہ سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف سے شروع کردیتے ہیں۔ شہباز شریف اسمبلی میں دوتہائی اکثریت کے واضح مینڈیٹ کے ساتھ وزیراعلیٰ کا آفس انجوائے کررہے تھے۔یہاں یہ عالم کہ موجودہ صوبائی حکومت اپنے ایک ایک لمحے کے لیے ق لیگ کی محتاج ہے۔ ادھر چوہدری برادران ناراض ہوئے اور اُدھر حکومت کا دھڑن تختہ ۔سب کو ساتھ لے کر چلنا وزیراعلیٰ کی مجبوری ہے‘ بالکل اُسی طرح جیسے 1985ء میں اسمبلی میں کمزور اکثریت رکھنے والے تب کے وزیراعلیٰ نواز شریف کی مجبوری تھی۔موجودہ وزیراعلیٰ کی ایک مجبوری یہ بھی نظرآتی ہے کہ اپنے ساتھیوں میں سے متعدد پورے وزن کے ساتھ اُن کے شانہ بشانہ نظر نہیں آتے۔شاید انہی حالات کی وجہ سے اُنہیں متعدد فیصلوں پر یوٹرن لینا پڑا۔ سیاسی مخالفین کو ہنسنے مسکرانے کا موقع ملا۔ایسے میں اگر وزیراعلیٰ کو اپنی پہچان کے حوالے سے بھی مشکلات درپیش ہیں‘ تو ان پر کسی کو اچنبھا نہیں ہونا چاہیے۔
اللہ کرے وہ وقت جلد آئے جب وزیراعلیٰ کا تعارف عثمان بزدار کی حیثیت سے ہی ہو‘ لیکن اس کے لیے انہیں بھی کچھ کردکھانا ہوگا۔یہ دعوے اپنی جگہ کہ حکومت کمزور کے ساتھ کھڑی ہے۔دراصل سابق وزیراعلیٰ جس طرح ہروقت فعال نظرآتے تھے ‘ موجودہ وزیراعلیٰ اُس طور عوام کو دکھائی نہیں پڑتے۔یقینا جلد وقت آئے گا جب کھیت میں کھڑی کوئی خاتون تو کیا‘ ہرجگہ پنجاب کے عوام دور سے دیکھ کر بولیں گے کہ یہ ہمارے وزیراعلیٰ عثمان بزدار ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved