گزشتہ سال جنوبی کوریا کے صدر مون جائی نے کہا تھا کہ جنوبی کوریا'' ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کا حصہ بننے کا خواہاں ہے اور یہ چونگ کنگ سے منسلک ہوگا۔رواں سال صوبہ لیانگ نے چین کی ''ون بیلٹ ون روڈ‘‘ سے کورین ملحقہ علاقوں کو پین سویلا سے باقاعدہ جوڑنے کا اعلان کیا۔جنوبی کوریا‘ امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی ہے۔ یقینا یہ بات اپنے آپ میں ایک سوال پیدا کیے ہوئے ہے ؟ اس کی بہت سی وجوہات ہیں ‘جن کی بنا ء پر جنوبی کوریا نے اس منصوبے کا حصہ بننے کی خواہش کا اظہار کیاہے۔
جنوبی کوریا کو اس منصوبے کے تحت وسطی ایشیاء تک پہنچنے میں آسانی ہوگی‘70سال قبل جنگ کے ذریعے ٹوٹنے والا کوریا‘ مختلف نا معلوم جزیروں کی مانند بکھر کر رہ گیا تھا‘ جس کا باقی دنیا سے روابط نہ ہونے کے برابر تھے‘یہاں تک کہ اس کے قریبی ہمسایہ ملک شمالی کوریا سے مراسم ختم تھے۔بہت سے جنوبی کوریائی لوگ اس تگ و دائو میں ہیں کہ وہ ایشیائی مارکیٹ تک رسائی حاصل کریں اور اپنی ہزار سالہ تاریخ دوسرے ممالک جاپان اور برطانیہ کی طرح لوگوں تک پہنچائیں اوراپنی نمایاں شناخت بنائیں ‘ جنوبی کوریا کے قانون میں بھی ایک واضح تضاد ہے۔ شمالی اور جنوبی کوریا کے عوام رہن سہن ‘بودوباش ‘ معاشی و اقتصادی طور پر کافی مختلف ہیں۔جنوبی کوریا ''ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کے تحت شمالی کوریا سے جا ملے گا۔دونوں کوریا ایک دوسرے کو جاننے اور تعلقات بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرسکیں گے‘ جس کی خواہش دونوں ممالک کی عوام کئی بار کر چکی ہے۔ صدرمون کی سوچ بھی یہی ہے کہ اس منصوبے کے ذریعے وہ شمالی کوریا سے مشترکہ تجارتی و اقتصادی روابط رکھے؛ اگر جنوبی کوریا براستہ شمالی کوریا چین سے جڑ جاتا ہے‘ تو وہ مختلف ذرائع آمدورفت جیسا کہ سمندری‘فضائی‘ہوائی اور زمینی راستوں کو استعمال میں لا سکے گا۔اس سے دونوں کی تجارت کو فروغ ملے گا۔یہاں سے بہت سے مختلف ممالک کاتجارتی شراکت دار بن جائیں گے۔جنوبی کوریا نے شمالی کوریا سے ریلوے نظام کی بہتری کے لیے تجاویز پیش کیں ۔اس نظام کی تبدیلی کے بعد دونوں ممالک کھل کر کاروبار کر سکیں گے اور لوگوں کو کافی سہولیات مہیاہوں گی۔اس نظام کے چلنے سے دونوں ممالک کے درمیان نیا تجارتی دور شروع ہو نے کا امکان ظاہر کیا جارہاہے۔
یوںجنوبی کوریا کو نئی مارکیٹ اور لوگوں تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔ پچھلے سال جنوبی کوریا کے صدر نے بیان دیا تھا کہ ون بیلٹ ون روڈ سے وہ نا صرف شمالی کوریا‘ بلکہ شمالی ایشیاء سے بھی قریب تر ہو جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا ''میں مطمئن ہوں کہ ون بیلٹ ون روڈ کا حصہ بننا نئے دور کا آغاز ہوگا اور ہم شمالی کوریا سے مل کر نئی پالیسیاں ترتیب دیں گے اور یہ امن کے لیے اہم پیش رفت ثابت ہوں گی‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر جنوبی کوریا کا ریلوے نظام چین کے ساتھ منسلک ہو جاتا ہے ‘تو وہ باآسانی تمام ممالک سے تجارت کرسکیں گے ‘یہ ان کا خواب ہے کہ وہ دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی طرح تجارت کریں اور روابط بڑھائیں ‘جیساکہ جاپان ‘چین اور روس کرتے ہیں۔
پچھلی دہائی میں ایشیاء چین کے بعد کوریائی لوگوں کے لیے دوسری بڑی مارکیٹ ثابت ہوا۔ جنوبی کوریا کی 24.8 فیصد تجارت چین سے جڑی ہے ‘کوریا اس تجارت کو مزید بڑھانے اور راستوں میں حائل رکاوٹوں کو ہٹانے کے لئے مزیدپالیسیاں بنانے میں لگا ہے۔ان میں سے ایک بیجنگ کی ویزا پالیسی بھی ہے‘انہیں اس وقت چین کے ساتھ تعلقات اور روابط میں مشکلات پیش آئیں‘ جب انہوں نے امریکہ کے اتحادی بننے کا سیاسی طور پراعلان کیا‘مگر وقت کے ساتھ سیاسی ‘تجارتی اور اقتصادی دباو کے بعد کوریانے اپنے ترقیاتی منصوبوں پر غور شروع کردیا اور اس منصوبے سے جڑنے کا عندیہ دیا۔
اس طرح جنوبی کوریا انرجی کے وسائل بروئے کار لا سکتا ہے۔جنوبی کوریا‘ جاپان اور چین کے بعد تیسرا بڑا ملک ہے ‘جو قدرتی گیس ((LNG درآمد کرتا ہے۔جلدہی جنوبی کوریا ماضی سے کئی گنا زیادہ گیس خرید سکے گا ۔صدر مون نے شمالی کوریا کی طرز پر نیوکلیئر کی بجائے قدرتی گیس کے منصوبوں پر توجہ دی ہوئی ہے۔یہ سچ ہے کہ گیس پائپ لائن کی نسبت LNGکافی مہنگی ہے ۔ جنوبی کوریا اس وقت پائپ لائن کی بجائے لیکویڈ گیس خرید رہا ہے۔شمالی کوریا کی وجہ سے اس کو پائپ لائن جیسے منصوبے بنانے میں دشواریاں پیش تھیں ۔جنوبی کوریا ‘چین روس یا وسطی ایشیاء سے یہ گیس خرید کرے گا‘ اس کی مالیت میں کافی حد تک فرق پڑے گا۔وہ قریباً 80فیصد گیس پانچ ممالک سے خرید کر رہاہے۔جنوبی کوریا کو ضرورت بھی ہے کہ وہ دیگر وسائل استعمال میں لائے اور ملکی مفادات میں نئی پالیسیاں بنائے ‘یہاں سب سے بڑا مسئلہ فنڈ کا ہے ‘ مگر '' ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کو عوام کے سامنے رکھ کر اپنے عوام سے فنڈ اکٹھے کر سکے گا۔
مذکورہ وجوہ جنوبی کوریا کے لیے اہم ہیں ‘مگر یہ اتنا آسان نہیں ‘اس کے لیے اسے دیگر مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔اس منصوبے کا حصہ بننے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کرنا پڑی گی‘کیونکہ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا دونوں کا ریلوے نظام کافی مختلف ہے ۔جنوبی کوریا کے ریلوے نظام میں دو رخوں کے راستے قریباً 4فیصد ہیں اور جنوبی کوریا ریلوے کے لیے ایک ہی راستہ ستعمال کرتا ہے۔ جنوبی کوریائی ریلوے انجن 25000واٹ پر چلتے ہیں ‘جبکہ شمالی کوریائی صرف 3000پر چلتے ہیں ‘بڑا مسئلہ جنوبی کوریا کی بجلی کی پیدوار بھی ہے۔جنوبی کوریا شمالی کوریا کی نسبت ایک چوتھائی بجلی پیدا کرتا ہے۔جنوبی کوریائی بجٹ رپورٹ کے مطابق؛ اگر اپنے سارے نظام کو تبدیل کرتا ہے‘ تو انرجی اور دیگر اخراجات کی مد میں 87.7 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔سوال یہ بھی ہے کہ وہ اتنی خطیر رقم کہاں سے یقینی بنائے گا؟
ایک اہم معاملہ سکیورٹی کابھی ہے؛ اگر وہ اس بڑے منصوبے کا حصہ بنتا ہے تو اس کے لیے شمالی کوریا سے سکیورٹی خدشات میں کمی ہوگی ۔ اعتماد کی فضا پیدا ہوگی‘نتیجہ خیز بات یہ ہے کہ اس منصوبے کا حصہ بننے سے حاصل شدہ مفادات واضح تو ہیں‘ مگر اس کے لیے بھاری سرمایہ کاری درکار ہوگی‘جنوبی کوریا اس منصوبے کا حصہ نہیں بنتا‘ تواسے نا صرف ملکی مفادات کو فاعدہ پہنچے گا‘ بلکہ اس کی عوام کے لیے بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا ۔