تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     09-01-2019

مرض اپنا تدارک خود کرتا ہے!

افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد جنوبی ایشیا میں چہار سو پھیلے تشدد کے ان رجحانات پہ قابو پانے میں مدد ملے گی‘ جنہوں نے اس خطے کی تمام ریاستوں کو داخلی انتشارکے آشوب میں مبتلا کئے رکھا۔ افغانستان میں لڑی گئی تاریخ کی طویل ترین جنگ لاکھوں معصوم انسانوں کو نگل گئی۔ مہیب جنگی حرکیات نے انسانی نفسیات، علاقائی ثقافتوں، مقامی اقتصادیات اور ریاستوں کے انتظامی ڈھانچوں کی چولیں ہلا کے رکھ دیں۔ افغان لوگ‘ جو محبت اور لڑائی جھگڑوں کے ذریعے اپنے روزمرہ کو دلچسپ بناتے تھے اور بچوں جیسے بھروسے کے ساتھ خود کو جنگجوئوں کے حوالے کر دیتے تھے‘ اب وہی لوگ خود جنگ کا ایک شعلہ گریزاں دکھائی دیتے ہیں‘ کیونکہ تشدد کے طویل دورانیہ میں جینے والوں کے سوچنے کے انداز، طرز معاشرت اور اجتماعی زندگی کے قرینے بدل گئے۔ جس طرح بعض اوقات مرض اپنا مداوا خود کرتا ہے اسی طرح خطے کی اجڑی ہوئی تہذیب کی راکھ سے ایک نئی ثقافت پیدا ہو رہی ہے‘ جس کی موہوم سی شکل ہمیں ایک نئی تنظیم کے خروش میں نظر آتی ہے۔ بلا شبہ، تاریخ کا اہم ترین قانون یہی ہے کہ جو چیز ابھرتی ہے وہ گرتی ضرور ہے، اسی اصول کے تحت افغان جنگ نے نہایت خاموشی کے ساتھ دنیا کی دو بڑی طاقتوںکی قوت جبروت کو چوس لیا، روس کے بعد اب امریکہ بھی اس بے مقصد جنگ کو ادھورا چھوڑ کے جانے کی تیاری میں ہے، خدشہ ہے کہ سوویت روس کی طرح اگر امریکہ نے بھی افغان ایشو کا سیاسی تصفیہ کئے بغیر میدان جنگ سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا تو ایک بار پھر اس خطہ کو کبھی نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی لپیٹ لے گی۔ 
1979ء میں داخلی انتشار میں پھنسے افغانستان میں سوویت یونین نے ایک لاکھ فوجی داخل کر کے چند دنوں میں باآسانی بڑے شہروں کا کنٹرول سنبھال لیا لیکن اس پیش دستی کے رد عمل میں پاکستان، ایران، چین اور امریکہ نے پراکسی وار کے ذریعے طاقتور مزاحمت کھڑی کر کے دنیا کی دوسری سپر پاور کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کر دیا تھا؛ تاہم دس سالوں پہ محیط اس گوریلا وار میں گیارہ لاکھ انسان لقمہ اجل بن گئے۔ مرنے والوں میں 90 ہزار مجاہدین، 18 ہزار افغان سپاہی اور 14500 روسی فوجی شامل تھے۔ روسی جارحیت کے خلاف مزاحمت کے دوران پندرہ لاکھ سے زیادہ لوگ عمر بھر کیلئے معذور، تین لاکھ خواتین بیوہ اور پچاس لاکھ سے زیادہ لوگ نقل مکانی پہ مجبور ہوئے۔ لیکن 1988ء میں زخم خوردہ روس نے افغانستان چھوڑتے وقت جنیوا معاہدہ کے تحت افغان تنازعہ کا سیاسی تصفیہ قبول کرنے سے انکار کر کے اس بد قسمت مملکت کو مہیب خانہ جنگی کے دلدل میں دھکیل دیا تھا۔ 1996ء میں افغان خانہ جنگی کی اسی راکھ سے جنم لینے والی تحریک طالبان نے بزور شمشیر افغانستان کے اقتدار اعلیٰ پہ قبضہ کر کے کسی حد تک داخلی انتشار پہ قابو پا لیا؛ تاہم شمالی افغانستان کی تاجک، ازبک اور ہزارہ اقوام نے دو ہزار ایک تک طالبان کے خلاف مزاحمت جاری رکھی۔ اسی عہد میں افغانستان دنیا بھر میں القاعدہ کی پرتشدد کارروائیوں کا مرکز بنا، جس کی انتہا امریکہ میں ٹوین ٹاور پہ حملوں کی صورت میں سامنے آئی۔ نائن الیون کے بعد اکتوبر 2001 میں افغانستان پہ امریکی قیادت میں نیٹو افواج کی یلغار نے اس تباہ حال ملک پہ دوسری بڑی جنگ مسلط کر دی، جو سترہ سالوں میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ انسانوں کا خون پی گئی۔ امریکی حملوں میں 31 ہزار افغان سویلین بھی جاں بحق ہوئے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جون 2016 تک امریکہ سمیت نیٹو کے 4424 فوجی ہلاک اور 31295 زخمی ہوئے۔ امریکی حملے کی حمایت کی پاداش میں پاکستان کے 74 ہزار سے زیادہ شہری اور سیکورٹی اہلکار موت کی نیند سو گئے۔ ان سترہ سالوں کے دوران پاکستان کو 123 بلین ڈالرز کا مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق نائن الیون کے بعد دنیا بھر میں امریکی جارحیت کے نتیجے میں براہ راست 8 لاکھ انسان موت کی وادی میں اتر گئے۔ ان جنگوں میں امریکی عوام کے 5.900 ٹریلین ڈالرز کھپ گئے‘ لیکن اب جب یہ جنگ ختم ہوئی تو معلوم ہوا کہ فاتح اور مفتوح، دونوں، وہ تمام چیزیں کھو بیٹھے، جن کے لئے وہ لڑتے رہے، امریکی جنگوں کے ہاتھوں برباد ہونے والے عراق اور افغانستان کو غیر مقبول آمریتیں اب دائرہ سلامتی کے اندر محدود کر لیں گی۔ سیزر نے سچ کہا تھا کہ ''انسان مختلف طریقے اپنانے کے باوجود ایک جیسے انجام سے دوچار ہوتے ہیں‘‘۔ آج روس کی طرح امریکہ بھی کوئی سیاسی تصفیہ کئے بغیر اپنی فورسز نکال کے افغانستان کو اگر یونہی پامال چھوڑ گیا تو افغان عوام اور بالعموم جنوبی ایشیا کے ممالک کے لئے نہایت خطرناک صورت حال پیدا ہو جائے گی۔ پہلے بھی امریکیوں نے روس کو ٹریپ کرنے کے بعد اجڑے ہوئے افغانستان میں سیاسی استحکام پہ توجہ دی‘ نہ ہی تعمیر نو کا کام کیا۔ 1988 میں امریکی اگر چاہتے تو جنیوا معاہدے میں افغان تنازعہ کا سیاسی حل مل جاتا‘ لیکن مغربی طاقتوں نے افغانستان کے انحطاط کے مظاہر سے نمٹنے میں دلچسپی نہ لی۔ اب چالیس سال بعد بھی ہزیمت زدہ امریکی داعش کے مصنوعی خطرات پیدا کر کے یوکرائن کی طرح یہاں روس کی فوجی مداخلت خواست گار نظر آتے ہیں۔ امریکی انخلاء کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نئی صورت حال سے نمٹنے کی خاطر یقیناً روس، ایران، چین اور پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک باہمی تعاون کے امکانات پہ غور کرتے ہوں گے۔ ماسکو نے 9 نومبر 2018 کو افغان امن مذاکرات کی میزبانی کر کے امریکی انخلاء کے مضمرات سے نمٹنے کی پیش بندی پہ غور کیا، ماسکو امن کانفرنس میں طالبان کے نمائندوں کے علاوہ افغان گورنمنٹ کی مفاہمتی کونسل کے چار رکنی وفد، چین، ایران، انڈیا اور چاروں وسطی ایشیا کی ریاستوں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کے ذریعے انڈیا کو پہلی بار افغان پیس پراسیس میں شامل کیا گیا۔ ماسکو کانفرنس میں بھارتی مندوب کی شرکت کے بعد امریکہ اور بھارت کے مابین اعتماد کے رشتے کمزور ہوتے نظر آئے، جس کا اظہار حال ہی میں امریکی صدر ٹرمپ نے انڈیا پہ بیہودہ طنز کے ذریعے کیا۔ وائس آف امریکہ کے مطابق صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ ''مودی مجھے بار بار کہتے ہیں کہ بھارت نے افغانستان میں ایک لائبریری بنائی ہے‘‘۔ امریکی صدر کے اس خندہ استہزا پہ بھارتی حکومت اور میڈیا نے شدید رد عمل دیا۔ حالانکہ، امریکی ایما پہ بھارت نے گزشتہ سترہ سالوں میں افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری کی لیکن شاید امریکی اس مالی تعاون پہ مطمئن نہیں تھے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ دوستی کے ریشمی پردوں کے پیچھے امریکی خطہ کو ہولناک جنگ میں الجھانے کی خاطر بھارت کی براہ راست افغان جنگ میں شرکت کے خواہاں ہوں‘ لیکن بھارت کی اجتماعی دانش اس ٹریپ میں آنے کی بجائے ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھی۔ بیشک، جنوبی ایشیائی ممالک کی سلامتی اور ترقی کا راز علاقائی امن میں پوشیدہ ہے۔ عالمی سطح پر معاشی طور پہ ابھرتا ہوا ایشیا باہمی جنگوں اور داخلی تشدد کا متحمل نہیں ہو سکتا؛ چنانچہ جنگ کی آگ سے بچنے کی خاطر ایشیا کے تمام ممالک اپنی بہترین مساعی سے افغانستان میں امن کے قیام کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ بلا شبہ ہر بد نظمی ایک عبوری مرحلہ ہوتی ہے، جو مطلق العنانی کا مقابلہ کر کے پرانی رکاوٹیں ہٹا دیتی ہے تاکہ نئی حیات کی نشوونما شروع ہو سکے۔ آج ہمیں ایک مضبوط حکومت کی ضرورت تھی لیکن بد قسمتی سے پڑوسی ہونے کے ناتے پاکستان افغان جنگوں کے اثرات کا براہ راست شکار بنا۔ اس وقت ہماری مملکت کو انتظامی ڈھانچہ کی تشکیل نو، سیاسی رواداری، مذہبی آزادیوں، سوشل تبادلہ، معاشی فروغ، سفری اور حرکت کی آزادیوں کی بحالی کا مسئلہ درپیش ہے۔ چالیس سالوں پہ محیط ہولناک جنگ کے مضمرات پر قابو پانے کی خاطر پاکستان نے پندرہ سو کلو میٹر لمبی افغان بارڈر پہ باڑ لگانے کے علاوہ سماجی وظائف کو معمول پہ لانے کا میکنزم تیار کر لیا۔ پینتیس لاکھ افغان مہاجرین کی بتدریج واپسی کے علاوہ افغانستان سے پاکستان آنے والوں کیلئے ویزا کے حصول کا قانونی نظام وضع کیا جا رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved