تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     09-01-2019

تازہ جے آئی ٹی اور شکایات سیل

ریاست کا نظام چلانے کیلئے ادارے اپنے قوانین کے ساتھ موجود ہوں اور کام نہ کریں تو کچھ ایسا ہی منظرنامہ ہوتا ہے جو آج کل وطنِ عزیز کا ہے۔ تقریباً دو سالوں سے سرکاری اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان نہ صرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں بلکہ ان کی فرض شناسی کے ''پول‘‘ بھی کھل چکے ہیں۔ انتہائی اہم اور کٹھن فیصلوں کا بار اٹھانے سے قاصر یہ ادارے بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔ کوئی سیاسی دباؤ اور مصلحتوں کا شکار ہو گیا... تو کوئی رنگ میں رنگا گیا۔ گویا ہاتھ سبھی کے رنگے ہوئے ہیں... نتیجہ یہ کہ عدلیہ کے از خود نوٹسز کے نتیجے میں انصاف اور قانون کی بالا دستی کا ایسا ایسا منظر چشم فلک نے دیکھا‘ جس کا تصور ہی ناممکن تھا۔ قانون کے نفاذ اور عمل درآمد پر مامور ادارے جب با اثر حکمرانوں اور سیاستدانوں کے آلہ کار اور سہولت کار بن جائیں تو پھر میرٹ اور گورننس جیسے الفاظ بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔
عدلیہ کے ان از خود نوٹسز کے نتیجے میں نہ صرف ''محمود و ایاز‘‘ کا فرق ختم ہوا بلکہ طاقت اور اختیار کے نشے میں چور کوئی وزیر ہو یا وزیر اعظم... وزیر اعلیٰ ہو یا کوئی اس کی آنکھ کا تارا... اعلیٰ حکومتی عہدیدار ہو یا سرکاری بابو... مافیا کا ڈان ہو یا اس کا حواری... سب کو سر نگوں، بے بس پایا۔ اگر سرکاری ادارے اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کے ساتھ مخلص ہوتے تو آج وطنِ عزیز کا یہ منظر نامہ نہ ہوتا۔ داد رسی اور انصاف کی فراہمی سے مشروط ادارے ہی جب مجرموں کی پناہ گاہ بن جائیں تو ان بے کسوں، بے وسیلہ اور داد رسی کے لیے در بدر مارے مارے پھرنے والوں کو کہاں انصاف ملتا...؟ اور کیوں ملتا؟ 
جس ملک کے حکمران اور سرکاری افسران غاصبوں، رسہ گیروں، قاتلوں، ڈاکوؤں اور دندناتے مجرموں کو امان اور ''سمان‘‘ دیتے ہوں... ملکی وسائل اور دولت کو باپ دادا کی جاگیر سمجھتے ہوں‘ اور قانون ان کے گھر کی باندی ہو تو ایسا لگتا ہے کہ اب یہ نحوست اور بد قسمتی اس قوم کا نصیب بن چکی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے ہماری زمین قحط زدہ نہیں... بلکہ قہر زدہ ہو چکی ہے... قحط جتنا بھی شدید کیوں نہ ہو امکان بہرحال رہتا ہے... اگر زمین قہر زدہ ہو جائے تو کیسا امکان... کیسی اُمید... اور کہاں کی بہتری؟ 
ایسے میں اس مملکتِ خدا داد کے عوام کی حالت زار پر خالقِ کائنات کو نہ صرف ترس آ گیا بلکہ اُس نے مسیحائی کا بندوبست بھی کر ڈالا... یہ مسیحائی ''بابا رحمتے‘‘ کے حصے میں آئی اور انہوں نے وطن عزیز کی تاریخ میں وہ کچھ کر ڈالا‘ جس کا گمان کرنا ہی محال تھا۔ انتظامی، سیاسی اور عدالتی فیصلوں کے حوالے سے وہ تاریخ رقم کی ہے کہ سارے ''دھونے دھو ڈالے‘‘۔ ایسا ایسا با اثر سورما مٹی کا ڈھیر بنا کر رکھ دیا جو دہشت اور طاقت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ قانون اور ریاست‘ دونوں ایک طرح سے اس کے تابع تھے۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن کیسز میں عدلیہ نے از خود نوٹس لے کر متاثرین کو انصاف دلوایا‘ ان کیسز کے متعلقہ سرکاری اداروں سے جواب طلبی کو سزا اور جزا سے مشروط کیوں نہیں کیا جاتا؟ اور اب عالم یہ ہے کہ ریاست کے ان اداروں سے نہ صرف اعتماد اٹھ چکا ہے‘ بلکہ انہیں انصاف اور میرٹ کی ضد تصور کیا جاتا ہے۔ اس مایوس کن صورتحال کے پیش نظر تحقیق اور تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی نئی اختراع قائم کرنا پڑی اور ماضی کے تمام اہم اور حساس نوعیت کے کیسوں کی تفتیش کے لیے جے آئی ٹی پر انحصار کرنا پڑا۔ شریف برادران کا کیس ہو یا زرداری اینڈ کمپنی کا... کوئی سانحہ ہو یا سنگین واردات... تحقیق و تفتیش جے آئی ٹی سے کروانا روایت بن چکی ہے‘ جو یقینا ریاست کے تحقیقاتی اداروں پر عدمِ اعتماد کا اشارہ ہے۔ 
سانحہ ماڈل ٹاؤن پر ماضی میں بننے والی جے آئی ٹی کو ڈاکٹر طاہرالقادری نے جانب دار قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ اب اس سانحہ پر ایک بار پھر جے آئی ٹی بن چکی ہے‘ اور یہ جے آئی ٹی بطور آئی جی سندھ شہرت پانے والے اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں بنائی گئی ہے۔ اے ڈی خواجہ ان دنوں آئی جی موٹروے کی حیثیت کی کام کر رہے ہیں‘ اور اپنی ساکھ اور انصاف پسندی کے حوالے سے ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ سندھ بھر میں کسی انتظامی افسر کی کیا حیثیت کہ وہ آصف علی زرداری اور ان کے حواریوں کی منشاء کے بغیر کوئی فیصلہ یا کام کر سکے اور خصوصاً جب معاملہ براہِ راست زرداری خاندان اور ان کے سہولت کاروں کے مفادات کا ہو تو کیسے ممکن ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا افسر انکار کی جرأت کر سکے۔ یہ اعزاز بھی اے ڈی خواجہ کو ہی حاصل ہے کہ انہوں نے نہ صرف قانون کی بالا دستی کو قائم کیا اور آصف علی زرداری، ان کے انتہائی قریبی اور معتمدِ خاص انور مجید کے علاوہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ پر بھی دوٹوک انداز میں واضح کیا کہ وہ ان کے ذاتی مفادات اور منشاء کے مطابق کام نہیں کریں گے... جہاں بھی دھونس، بدمعاشی اور لا قانونیت ہو گی وہاں قانون ضرور حرکت میں آئے گا۔ پھر سندھ میں قانون کی حرکت کے وہ مناظر چشم فلک نے دیکھے کہ آصف علی زرداری سمیت پوری سندھ حکومت بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئی۔ اے ڈی خواجہ کے تبادلے کے لیے کہاں کہاں دہائی نہیں دی گئی... کیسا کیسا احتجاج نہیں کیا گیا... انہیں صوبہ بدر کرنے کے لیے کون کون سا جتن نہیں کیا گیا... حتیٰ کہ قانون اور انصاف کے اس علم بردار کے خلاف صوبائی اسمبلی بھی آصف علی زرداری کے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے اکٹھی ہو گئی‘ لیکن زرداری اینڈ کمپنی کا یہ مطالبہ اور خواہش پوری نہ ہو سکی۔ اس میں عدلیہ کو بھی ضرور کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے اے ڈی خواجہ جیسے پولیس سربراہ کو آزادانہ اور میرٹ پر کام کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا‘ اور اُمید کی جاتی ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر اب مزید کوئی جے آئی ٹی تشکیل نہ دینا پڑے گی‘ اور یہ اُمید صرف ان کی ساکھ اور شہرت کی بنیاد پر ہی کی جا سکتی ہے۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اے ڈی خواجہ کی ساکھ، شہرت اور مہارت کے معترف حکمران ان کی اس اہلیت اور قابلیت کو موٹروے کی نذر کرنے پر بضد کیوں ہیں؟ ان کی قابلیت اور مہارت سے استفادہ کرنے اور انہیں کوئی اہم اور فعال ذمہ داری دینے میں کیا اَمر مانع ہے؟ ایسے افسران کو مینڈیٹ دے کر اگر آزادانہ کام کرنے کا موقع دیا جائے تو شاید ہر کام کے لیے جے آئی ٹی بنانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ ویسے بھی پولیس ریفارمز اور گورننس کے حوالے سے پنجاب حکومت مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں تاحال ناکام ہے۔ پولیس ریفارمز کے لیے بنائی گئی کمیٹی وزیر اعظم کو کیا بریفنگ دے رہی ہے‘ جس میں محکمہ پولیس کا کوئی نمائندہ شریک ہی نہ ہوا ہو۔ 
دوسری طرف پنجاب حکومت میں خدا جانے وہ کون سا آسیب آ گھسا ہے‘ جو وزیر اعلیٰ کی سُبکی اور ناکامی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ شخصی عناد اور ہٹ دھرمی کے مارے اربابِ اختیار نے شاید یہ طے ہی کر لیا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے ارد گرد کوئی ایسا شخص نظر نہ آئے جو کام کرنا جانتا ہو یا کام کرنا چاہتا ہو... اور اگر کہیں ایسا کوئی شخص پایا جاتا ہے تو اس کی اسی ''کوالیفکیشن‘‘ کو ''ڈس کوالیفکیشن‘‘ قرار دے کر چھٹی کروا دی جاتی ہے۔ دعوے اور یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ پورے پنجاب میں دس بیس نہیں صرف دو چار ہی دِکھا دیں جو افسر شاہد قادر کی طرح دردِ دل کے ساتھ صبح سے لے کر دن ڈھلنے تک دور دراز سے آئے ہوئے سائلین کی داد رسی کرکے جھولیاں بھر بھر دُعائیں سمیٹتا رہا ہو؟ ایوانِ وزیراعلیٰ کا کوئی ایک دفتر دکھا دیں جہاں بلا روک ٹوک کوئی سائل منہ اٹھا کر اندر داخل ہو اور موقع پر ہی اس کی داد رسی ہو جائے۔ یہاں آنے والے سائلین صوبے بھر کے سرکاری محکموں سے دھتکارے اور ستائے ہوئے ہوتے ہیں۔ شاہد قادر شاید اتنا بڑا افسر نہ ہو‘ لیکن جو کام وہ کر گیا ہے وہ شاید بڑے سے بڑا افسر بھی نہیں کر سکتا۔ اسے بھی وزیر اعلیٰ شکایت سیل سے چلتا کرکے آنے والے سائلین کو روایتی بیوروکریسی اور سرخ فیتے کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ اب ان کا اللہ ہی حافظ ہے۔ سائلین کو اگر متعلقہ محکمے انصاف فراہم کرنے کے قابل ہوتے تو وزیر اعلیٰ شکایات سیل کی کیا ضرورت باقی رہتی؟ جب تک حکومتی ادارے اس قابل نہیں ہوتے تب تک کم از کم شاہد قادر جیسے افسران کو تو ضائع نہ کریں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved