تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     09-01-2019

نروز چیک کرنے کا کھیل

جب سے انسان اس دنیا میں آیا ہے ‘ وہ دوسروں سے اپنی قوت اور مہارت کا مقابلہ کرتا چلا آرہا ہے ۔دو کھلاڑی کھیل کے میدان میں ایک دوسرے کے مقابل اترتے ہیں ۔دو بادشاہ جنگ میں ایک دوسرے کے مقابل اترتے ہیں ۔ ان تمام کھیلوں میں سے دلچسپ اور خطرناک ترین مقابلہ ہوتاہے ۔ایک دوسرے کی nervesچیک کرنے کا۔ ایک دوسرے کے اعصاب توڑنے کا کھیل ہمیشہ سے انسانوں کے درمیان کھیلا جاتا رہا ہے ‘جس کے اعصاب ٹوٹ جائیں اور جو جھک جائے ‘ مخالف فریق (جو ہو سکتاہے کہ اس کا خونی رشتے دار ہی ہو ) اس سے اپنی شرائط منوا سکتاہے‘ چوہدری نثاراور نواز شریف کے درمیان نروز کی یہ جنگ ساری زندگی چلتی رہی۔
اکثر اوقات ہوتا دراصل یہ ہے کہ معمولی بات سے شروع ہونے والی لڑائی انا کی ایک خوفناک جنگ میں بدل جاتی ہے ۔ اسی لیے بعض اوقات پانچ روپے سے شروع ہونے والا جھگڑا قتل پہ منتج ہوتا ہے ۔قتل بھی اس کا ‘ جس سے آپ پہلی دفعہ ملے ہوں ۔ ایسے معاملات میں آدمی اگر وقتی طور پر جھک جائے‘ تووہ اس قتل و غارت سے بچ سکتاہے ‘ جو اس کی اور اس کے خاندان کی زندگی تباہ کر سکتی ہے ۔
دوسری طرح کے معاملات وہ ہوتے ہیں ‘ جس میں ایک شخص شرارت پہ تلا ہو اہے ۔ایک دن وہ آپ سے کہتا ہے کہ آج کے بعد تم نے ـصرف شلوار قمیص پہننی ہے ‘ کوٹ پتلون پہنی تو میں محلے والوں کے سامنے تمہاری پٹائی کروں گا۔ آپ اگلے دن سے شلوار قمیص پہننا شروع کر دیتے ہیں ۔معاملہ یہاں ختم نہیں ہوگا‘ بلکہ پھر وہ کہے گا کہ آج کے بعد تم نے صرف نیلے رنگ کی شلوار قمیص پہننی ہے ‘ورنہ ۔۔۔! آپ میری بات بخوبی سمجھ رہے ہیں کہ جو شخص شرارت پہ تلا ہوا ہے ‘ اس سے جھگڑا ہو کر رہنا ہے ۔ آج نہیں توایک سال کی ذلت کے بعد ۔ اس طرح کے معاملات میں جب تک آپ طاقت کا توازن پیدا نہیں کرتے ‘ تب تک جنگ ٹل نہیںسکتی ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان ہمیشہ بھارت کے مقابل طاقت کا توازن برقرار رکھنے میں لگا رہتاہے ۔ 
نروز کی یہ جنگ‘ بہت پیچیدہ ہوتی ہے ۔ یہ کم و بیش ہر گھر میں لڑی جاتی ہے۔ ساس بہو کی کشمکش میں ‘ بھائیوں کے درمیان؛ حتیٰ کہ دکان کے مالک اور ملازم بھی ایک دوسرے کی نروز چیک کرتے رہتے ہیں ۔نروز کی جنگ کا طریقہ یہ ہوتاہے کہ پہلے تھوڑی سی چھیڑ چھاڑ کرو‘ مثلاً:کسی کی دو انچ جگہ کو اپنے کھیت کا حصہ بنائو؛ اگر تو وہ بندوق اٹھا کر بھاگتا ہوا لڑنے پہنچ جائے تو معذرت کر لو؛ اگر وہ خاموشی اختیار کرے تو دو مرلے اور پھر دو کنال ہضم کر جائو ۔ یہی وجہ ہے کہ جب کسی کی ایک انچ زمین پہ قبضہ ہوتاہے تو پھر ایک کنال زمین جانے کے خوف سے وہ بھاگتا ہوا لڑنے پہنچ جاتا ہے ۔ 
میاں بیوی کے درمیان تو یہ جنگ ازل سے جاری ہے ۔ جب بیوی ناراض ہو کر میکے چلی جاتی ہے اور جب شوہر اسے واپس لینے نہیں جاتا تو دونوں فریق ایک دوسرے کی نروز ہی تو چیک کر رہے ہوتے ہیں ۔ 
یہی معاملات پاکستان اور بھارت کے درمیان ہیں ۔بھارت پہلے دن سے اپنی فوج کی زیادہ نفری ‘ بڑے دفاعی بجٹ اور گولہ بارود کے نشے میں پاکستان کی نروز آزماتا آرہا ہے ؛حالانکہ نفری اور دفاعی بجٹ ایک حد تک ہی کسی فوج کی مدد کر سکتاہے ۔قرآن بار بار کہتاہے (اور تاریخ اس پر گواہ ہے کہ ماضی میں کتنی ہی بار)کتنے ہی چھوٹے گروہوں نے بڑے گروہوں پہ غلبہ پا یا ‘ اللہ کے حکم سے ۔ مسلمانوں کی تاریخ تو بھری پڑی ہے‘ ایسی جنگوں سے ۔ ویسے بھی آپ یہ دیکھیں کہ مسلمان اقلیت ہونے کے باوجودطویل عرصے تک بر صغیر پہ حکومت کرتے رہے ۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے ‘ جس میں خود کش بمباروں والی ایک انتہائی خطرناک گوریلا جنگ کو فوج نے اس حالت میں جیت لیا کہ اس کی آدھی نفری مشرق میں بھارتی سرحد پہ تعینات تھی ۔ بیچ میں ریمنڈ ڈیوس جیسے امریکی جاسوس ‘ کلبھوشن یادیو جیسے بھارتی جاسوس اور الطاف حسین جیسے برطانوی ہرکارے اپنا کھیل کھیلتے رہے ۔ القاعدہ جیسی خونخوار عالمی دہشت گرد تنظیم اور بیچ میں افغانستان میں اپنی شکست پہ جھلائے ہوئے امریکی سلالہ پہ حملہ کر کے دو درجن پاکستانی فوجیوں کو شہید کر دیتے ہیں ۔ افغان سرحد پہ باڑ اور گیٹ لگانے شروع کیے گئے تو انہوں نے بھرپور مزاحمت کی ‘ پھر بھی فوج یہ جنگ جیت گئی ۔ قصہ مختصر یہ کہ پاکستان کے ساتھ مسلسل چھیڑ چھاڑ کر کے بھارت ایک ایسی تاریخی غلطی کر رہا ہے ‘ جو بالآخر اس کی مکمل تباہی پہ منتج ہو سکتی ہے ۔گو کہ میری یہ بات آج یاجوج ماجوج کی سمجھ میں نہیں آئے گی اور میں سمجھانا چاہتا بھی نہیں ۔ ہماری فوج آج جنگی طور پر انتہائی طاقتور ہے‘ لیکن اسے سیاسی حالات کے دھارے کو اپنی مرضی سے بہانے کی کوشش ترک کر دینی چاہئے‘ ورنہ ایک دن وہ اس کا خمیازہ بھگتے گی۔حوالے کے طور پر ملاحظہ ہو رائو انوار۔ایم کیو ایم کے خلاف اس کے سر پہ ہاتھ نہ رکھا جاتا تو کبھی منظور پشتین جیسے ''حریت پسند‘‘ کو اپنی لیڈری چمکانے کا موقع نہ ملتا۔
آپ 2015ء میں روس اور ترکی کے درمیان ہونے والی نروز کی جنگ دیکھ لیں ۔بمباری کے لیے شام جانے والے روسی جنگی جہاز جان بوجھ کر ترک فضائوں کے اندر سے گزرنا شروع ہو گئے تھے۔انہی دنوں پاک فوج کے ایک سبکدوش جنرل سے بات ہوئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ ترکی بہت برا پھنسا ہے ۔ایک طرف داعش ہے‘دوسری طرف روس ۔پے درپے وارننگز کے بعد آخر کار ترکی ایک روسی جنگی جہاز کو تباہ کر دے گا‘ یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا ۔متعدد خلاف ورزیوں کے باوجوددنیا کا سب سے بڑے جنگی اتحاد نیٹو کبھی یہ جرأت نہیں کر سکاتھا۔
نروز کی جنگوں سے دنیا کے ہر شخص کو گزرنا پڑتاہے ۔اس میں دماغ بہت پیچیدہ calculationsکرتاہے اور ایک ایک قدم احتیاط سے اٹھانا پڑتا ہے ۔ جنرل راحیل شریف کے دو رمیں مریم نواز اینڈ کمپنی فوج کے خلاف ایسی ہی ایک جنگ سے گزری۔حالات کا توازن فوج کے حق میں تھااور کیوں نہ ہوتا۔اس نے ایک خوفناک ترین جنگ قوم کو جیت کر دی ہے ۔ فوج کو ایک ایسا سیاسی لیڈر ہی اس کی حدود میں واپس دھکیل سکتا ہے ‘ جو مالی اور اخلاقی اعتبار سے نا صرف مضبوط ہو‘ بلکہ وہ انتہائی شاندار معاشی کارکردگی کی بنا پر ہر دلعزیز ہو ‘جو اپنے بل پر الیکشن جیت سکے ۔اس کے علاوہ اور کوئی بھی فارمولا ناقابلِ عمل ہے۔ 
نروز کی جنگ کے دوران دماغ خطرہ محسوس کرتے ہوئے مخصوص ہارمونز خارج کرتاہے ۔ دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے اور وہ تیزی سے دھڑ ک کر زیادہ خون کے ذریعے زیادہ آکسیجن اور گلوکوز جسم اور دماغ کو فراہم کرتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ کے دوران انسان انتہائی تیزی سے نڈھال ہوتاہے اور اسے فوری طور پرمزید آکسیجن اور گلوکوز کی ضرورت ہوتی ہے ‘ورنہ وہ شل ہو جاتا ہے ۔ 
عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ انسان کبھی اپنی حدود سے باہر نہ نکلے ۔ اس لیے کہ جو شخص یا ادارہ اپنی حدود سے باہر نکل جائے ‘ اسے گرا دینا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔ عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ آپ خواہ مخواہ کسی کی نروز چیک کرنے کی کوشش نہ کریں ؛ اگر وہ اپنی حدود میں بروئے کار ہے ‘تو خواہ مخواہ تلخی پیدا نہ کریں‘ لیکن دنیا میں زیادہ تر لوگ کم عقل ہوتے ہیں ۔ وہ لازماً دوسرے کی نروز چیک کرتے ہیں اور اپنے سر پہ ڈنڈا رسید ہونے تک کرتے رہتے ہیں ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved