2018ء کے آخری چند ہفتوں میں چین کی طلبہ یونینوں کے کارکنان، جن کا تعلق ''مارکسی سوسائٹیوں‘‘ سے ہے، شدید ریاستی جبر و تشدد کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ ان کے اغوا کی وارداتوں کی وجہ سے چین کی یونیورسٹیوں میں خاصا خوف و ہراس پایا جا رہا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر محنت کشوں کے حقوق کے لیے منظم کیے گئے احتجاجوں میں شریک رہے ہیں۔بیجنگ کی پیکنگ یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے سی این این کو بتایا کہ ''پوری یونیورسٹی پر جبر کے سائے منڈلا رہے ہیں۔جہاں بھی طلبہ لیف لیٹ تقسیم کر رہے ہوتے ہیں سکیورٹی گارڈ تیزی سے پیچھے آکے ان کو زد و کوب کرتے ہیں اور منتشر کر دیتے ہیں۔‘‘ اِس گراس روٹ تحریک کی قیادت کرنے والے طلبہ خود کو مارکسسٹ اور کمیونسٹ گردانتے ہیں اور ان کی سرگرمیوں کو چینی حکومت اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ان طلبہ نے بار بار اس المیے اور ستم ظریفی کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ''کمیونسٹ پارٹی‘‘ کی حکومت کمیونسٹ نوجوانوں پر ظلم ڈھا رہی ہے۔
2012ء میں شی جن پنگ چین کے حاکم بنے۔ تب سے اب تک انہوں نے مارکسزم کو دوبارہ اپنانے کی گردان مسلسل دہرائی ہے۔ ان طلبہ کا استفسار ہے کہ سوشلزم مزدوروں کا ساتھ دینے کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے؟ اور وہ کیا غلط کر رہے ہیں؟ اس تحریک کا آغاز جون 2016ء میں 'شینزھن جیسک ٹیکنالوجی‘ کے مزدوروں کی ایک خود مختار یونین بنانے کی مانگ سے ہوا تھا۔ حکام نے نہ صرف اس مطالبے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا بلکہ ان مزدوروں پر تشدد بھی کیا۔ ردِ عمل میں احتجاج جنوبی چین کے کئی علاقوں میں پھیل گیا۔ 24 اگست کو سن یات سین یونیورسٹی کے طلبہ لیڈر 'یوئی‘ (Yue) کو اٹھا لیا گیا۔ اس کے رد عمل میں پیکنگ یونیورسٹی میں 'یوئی کی تلاش‘ کے نام سے تحریک ابھری۔ اس تحریک کے انقلابی منتظم شرینگ کو نومبر میں گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن یہ اور اس جیسی دوسری تحریکیں اور ایجی ٹیشن اب مسلسل پھیل رہی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مارکسزم پر اتنا زور دینے والے حکمران آخر مارکسسٹ طلبہ کے پیچھے کیوں پڑے ہیں؟ درحقیقت ''چینی خاصیتوں والا سوشلزم‘‘، جو چین کا سرکاری نظریہ ہے، بنیادی طور پر ریاستی سرمایہ داری کی ایک شکل ہے۔ ملک میں مسلسل بڑھتی ہوئی طبقاتی تفاوت سے جنم لینے والی سماجی بے چینی کے پیش نظر چینی افسر شاہی کے لیے سوشلزم اور مارکسزم کی لفاظی ضروری ہو چکی ہے۔ لیکن یہ سرکاری ''سوشلزم‘‘ ان کی اپنی مراعات اور دولت کو چھپانے والے لبادے کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ انقلابی سوشلزم کے حقیقی نظریات کی بات کرنے والوں کو عتاب کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
چین میں ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت، نجی سرمائے کا دیوہیکل ارتکاز (اوسطاً ہر پانچ دن میں ایک ارب پتی پیدا ہو رہا ہے)، سٹاک مارکیٹوں کا قیام، رئیل اسٹیٹ کی سٹے بازی اور ایک انتہائی امیر نودولتی حکمران طبقے کی موجودگی ایسے عوامل ہیں جو معیشت کا بہت بڑا حصہ ریاستی ملکیت میں ہونے کے باوجود اس کے مجموعی کردار کو سرمایہ دارانہ بنا دیتے ہیں۔ لیکن چین کی سرمایہ داری نہ تو مغرب کی طرح کلاسیکی طرز کی حامل ہے نہ ہی اِس کا طرزِ ارتقا سابقہ نوآبادیاتی ممالک مثلاً بھارت، پاکستان، برازیل، جنوبی افریقہ وغیرہ جیسا ہے۔ یہ بنیادی طور پر سوشلسٹ طرز کی منصوبہ بند معیشت کے اوپر تعمیر ہونے والی سرمایہ داری ہے‘ جو 1978ء سے قبل قائم ہونے والی صنعتی و تکنیکی بنیاد، بنیادی سماجی و مادی انفراسٹرکچر اور ہنر مند لیکن سستی لیبر کو استعمال کر کے پروان چڑھی ہے۔ معاشی پسماندگی کی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں۔ وہ جدید ٹیکنالوجی کو باآسانی نقل کر سکتی ہے اور زیادہ شرح منافع حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کیفیت میں ترقی اور بڑھوتری کی گنجائش بھی بہت زیادہ ہوتی ہے‘ لیکن سرمایہ دارانہ بنیادوں پر چین میں گزشتہ دہائیوں میں ہونے والی تیز رفتار ترقی نے عدم مساوات اور طبقاتی استحصال کو شدید تر کر دیا ہے۔ چونکہ منڈی اور منصوبہ بندی دو متضاد کردار کے حامل معاشی طریقہ کار ہیں لہٰذا چین کی یہ ترقی استحکام سے بھی قاصر ہے۔
سرمایہ داری کا یہ چینی ماڈل پہلے کہیں نہیں دیکھا گیا؛ اگرچہ سرمایہ داری کا طرز ارتقا تقریباً ہر خطے میں ہی مختلف رہا ہے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے عمل سے چین کی بیوروکریسی نے بہت اسباق حاصل کیے تھے۔ سوویت یونین ایک سیاسی یونٹ کے طور پر 69 سال قائم رہا۔ چین کے انقلاب کو بھی 69 سال ہو چکے ہیں۔ لیکن جہاں چین کی ترقی، دولت اور زرمبادلہ کے ذخائر کا بہت شور ہے وہاں یہ حقیقت پوشیدہ رکھی جاتی ہے کہ سوویت یونین کے ٹوٹتے وقت بھی اس کی فی کس اوسط آمدن (آج کے ڈالروں میں تقریباً 17000) آج کے چین کی فی کس آمدن (8800 ڈالر) سے کہیں زیادہ تھی۔ انسانی ترقی کے اشاریے کے لحاظ سے بھی سوویت یونین‘ امریکہ کے تقریباً برابر اور آج کے چین سے کہیں آگے تھا۔ یہ منصوبہ بند معیشت کے تحت سوویت یونین کی حیران کن ترقی ہی تھی جس کی وجہ سے بہت سے سرمایہ دارانہ حیثیت کے حامل ممالک نے بھی پانچ سالہ منصوبوں کا ماڈل اپنایا۔ چین میں آج بھی ایسے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔
انتہائی پسماندہ زرعی ملک سے چند دہائیوں میں دنیا کی دوسری بڑی صنعتی طاقت اور معیشت تک کے سوویت یونین کے سفر نے نوبل انعام یافتہ امریکی معیشت دان پال سیمیولسن کو کہنے پہ مجبور کیا تھا کہ ''بہت سے شک پرستوں کے خیالات کے برعکس سوویت معیشت اِس بات کا ثبوت ہے کہ ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت نہ صرف چل سکتی ہے بلکہ ترقی بھی کر سکتی ہے۔‘‘ سیمیولسن بھی سوویت حکمران نکیٹا خروشیف کے خیالات کا حامل تھا کہ 1990ء تک سوویت یونین‘ امریکہ کو مات دے کے دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔
لیکن آج چینی ریاست کی جانب سے سوویت ماڈل کے استعمال کی کوششیں زیادہ دور رس نہیں ہو سکتیں‘ کیونکہ سوویت یونین کے برعکس چینی معیشت میں سرمایہ داری بہت گہری سرایت کر چکی ہے۔ سوشلسٹ معیشتوں میں منصوبہ بندی انسانی ضروریات کے تحت ہوتی ہے جبکہ سرمایہ داری میں منافعوں کی ہوس ایسی ہر منصوبہ بندی کو توڑ دیتی ہے۔ سب سے بڑھ کے چینی معیشت آج عالمی سرمایہ دارانہ معیشت کے ساتھ ان گنت رشتوں میں جڑی ہوئی ہے‘ اور اس پر منحصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معیشت کی شرح نمو 2010ء میں تقریباً 14 فیصد سے کم ہوتے ہوتے آج 6.5 فیصد رہ گئی ہے۔ علاوہ ازیں چین اپنے داخلی قرضوں کے لحاظ سے دنیا کے مقروض ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ یہاں غربت کے خاتمے کے چینی ماڈل کی بھی بڑی باتیں ہوتی ہیں۔ عالمی بینک کے نئے اعداد و شمار کے مطابق چین میں 95 کروڑ انسان 5 ڈالر یومیہ سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ 70 کروڑ لوگ تین ڈالر سے کم پر زندہ درگور ہیں۔ دنیا بھر میں امارت اور غربت کی دوسری سب سے وسیع خلیج بھی چین میں موجود ہے۔ ان حقائق کے باوجود بائیں بازو کے بہت سے لوگ آج بھی چین کے حوالے سے خوش فہمیوں میں مبتلا ہیں۔
سوشلزم کا مطلب انسانی محنت کے استحصال کا یکسر خاتمہ، ذرائع پیداوار اور معیشت پر محنت کشوں کا کنٹرول، امارت اور غربت کی تفریق کا مٹ جانا اور سرمائے کے جبر کا خاتمہ ہے۔ لیکن سرمایہ داری کے یہ عذاب چین میں نہ صرف مسلط ہیں بلکہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی حادثہ نہیں کہ چینی ریاست اپنے بیرونی دفاع سے زیادہ رقم داخلی ''سکیورٹی‘‘ پر خرچ کرتی ہے۔ لیکن سرمایہ داری کے نا ہموار اور متضاد کیفیات کے حامل ارتقا نے چین میں دنیا کا سب سے بڑا محنت کش طبقہ بھی پیدا کیا ہے۔ نوجوانوں کی حالیہ ایجی ٹیشن، محنت کشوں کی بڑھتی ہوئی ہڑتالیں اور معاشرے میں پائی جانے والی وسیع بے چینی واضح کرتی ہے چین میں سماجی اور معاشی تضادات اپنی انتہائوں کو چھو رہے ہیں۔ یہ کیفیت اگر ملک گیر بغاوت کی صورت میں پھٹ پڑی تو ایک نیا انقلابِ چین پوری دنیا کا منظرنامہ بدل ڈالے گا۔