عدلیہ کے فیصلوں پر رائے رکھنا آئینی و قانونی حق ہے: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور ن لیگ کے مرکزی رہنما چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''عدلیہ کے فیصلوں پر رائے رکھنا ہمارا آئینی و قانونی حق ہے‘‘ صرف اس حق کے استعمال میں کمی بیشی ہو جاتی ہے ‘جس طرح پچھلی بار منتخب ہو کر حکومت کرنا ہمارا آئینی و قانونی حق تھا‘ لیکن اس کے استعمال میں کچھ زور وشور داخل ہو گیا‘ جو کہ زور وشور کا بھی آئینی اور قانونی حق تھا ‘کیونکہ زور وشور میں زور بھی شامل ہے اور شور بھی‘ تاہم ہمارے قائد نے یہ کام شور مچا کر نہیں‘ بلکہ پوری ہنر مندانہ خاموشی کے ساتھ سر انجام دیا‘ لیکن بعد میں اس پر اتنا شور مچا کہ کانوں کے پردے پھٹ گئے ؛ حالانکہ کان اس لیے ہوتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو‘ تاہم پانامہ کیس نے تو کان ہی مروڑ کر رکھ دیئے اور جس کا صاف مطلب یہی ہے کہ نیب وغیرہ کو کانوں کے صحیح استعمال کے بارے علم ہی نہیں ہے‘ جو کانوں کا کچا ادارہ ہے‘ لہٰذا سب سے پہلے اس کے کچے کانوں کو پکّا کرنے کا بندوبست ہونا ضروری ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل پر مصروفِ گفتگو تھے۔
میں قاضی حسین احمد کو روحانی استاد مانتا ہوں: فیاض الحسن چوہان
وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''میں قاضی حسین احمد کو روحانی استاد مانتا ہوں‘‘ اور اس روحانی طاقت کے بل بوتے پر میں نے اگلے روز صحافیوں کا ناطقہ بند کیا تھا اور پیشتر اس کے کہ وہ میرا ناطقہ بند کرتے‘ میں نے وہاں سے بھاگنے ہی میں عافیت جانی؛ اگرچہ قاضی حسین احمد خود کافی حلیم الطبع بزرگ تھے‘ تاہم حلیم کھانے کی حد تک میں بھی کافی حلیم الطبع واقع ہوا ہوں اور دوسری بار نہیں مانگتا‘ بلکہ ایک ہی بار پلیٹ یا پیالہ دباکے بھر لیتا ہوں‘ تاہم صوبے میں ایک وزارتِ روحانیات قائم کرنے پر ہم سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں‘ کیونکہ ہم جسمانی ‘یعنی ذہنی لحاظ سے ذرا کمزور واقع ہوئے ہیں‘ اسی لیے روحانیات سے ذرا زیادہ کام لینے کا ارادہ ہے‘ ویسے تو محاورے کے مطابق ؛جیسی روح ہو‘ فرشتے بھی ویسے ہی ہوتے ہیں‘ لیکن کوشش کرنا تو انسان کا فرض ہے۔ آپ اگلے روز پلاک میں قاضی صاحب کی تصویری نمائش کے موقع پر اظہار خیال کر رہے تھے۔
آصف زرداری کا اومنی گروپ کئی بینک کھا گیا: فیصل واوڈا
وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ ''آصف زرداری کا اومنی گروپ کئی بینک کھا گیا‘‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں اشیائے خورو نوش تک لوگوں کی رسائی ہی نہیں ہے کہ انہیں بینک کھانا پڑتے ہیں اور اس پر طرہ یہ ہے کہ ملک کی آبادی خوفناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے‘ جس سے خطرہ ہے کہ لوگ سڑکیں وغیرہ ہی نہ کھانا شروع کر دیں‘ مثلاً :اگر موٹر وے ہی کھا لی گئی تو رسل و رسائل کے مسائل کس حد تک پیدا ہو جائیں گے‘ بلکہ سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ہوائی سفر پر مجبور ہو جائیں گے؛ بشرطیکہ ہوائی جہاز بھی کھا کھا کر برابر نہ کر دیئے گئے اور ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کو کوئی زبردست اور لکڑ ہضم پتھر ہضم پھکّی دستیاب ہو گئی ہے‘ جس سے وہ یہ سارا کچھ ہضم کرتے چلے جا رہے ہیںاور ڈکار تک نہیں مارتے ؛حالانکہ ڈکار کھانا ہضم کرنے میں کافی مددگار ثابت ہوتا ہے اور لگتا ہے کہ اس حوالے سے ہمیں لوگوں کو لگاتار سمجھانا بھی پڑے گا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت کیخلاف تحریکِ عدمِ اعتماد لانے کا ارادہ نہیں: خاقان عباسی
سابق وزیراعظم اور ن لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''حکومت کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد لانے کا ارادہ نہیں‘‘ کیونکہ تحریکِ عدمِ اعتماد کے لیے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمیں تو موجود ووٹوں کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں‘ کیونکہ پارٹی میں فارورڈ بلاک کسی وقت بھی معرض وجود میں آ سکتا ہے‘ جسے روکنے کے لیے مریم بی بی اپنے میڈیا سیل بحال کر رہی ہیں‘ کیونکہ ڈیل سے ناکام ہونے کے بعد وہ خاصی فارغ البال ہو چکی ہیں اور اب سارا وقت اسی کارِ خیر پر صرف کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں؛ اگرچہ میڈیا سیل کا ان کا اگلا تجربہ خاصا مایوس کُن رہا ہے‘ کیونکہ میاں صاحب کو نا اہل اور پھر اندر کرانے میں اسی سیل کی خدمات شامل تھیں کہ ہمیں یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں‘ بلکہ میرے خلاف بھی انکوائری شروع کر دی گئی ہے؛ حالانکہ میرا اس سیل سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہے اور میں نے اپنے پائوں پر کھڑے ہو کر ہی یہ سارا کچھ کیا ہے ‘کیونکہ میں کسی کا محتاج نہیں ہوں۔ آپ اگلے روز ایک ٹی وی پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
ملک کو خیرات مانگنے والی نہیں‘ نظریاتی
قیادت کی ضرورت ہے: سراج الحق
امیر جماعت سراج الحق نے کہا ہے کہ ''ملک کو خیرات مانگنے والی نہیں‘ نظریاتی قیادت کی ضرورت ہے‘‘ جبکہ خاکسار کی صورت یہ قیادت خاصی مقدار میں دستیاب ہے‘ لیکن اس بدقسمت قوم کو اس سے فیضیاب ہونے کا کبھی خیال نہیں رہا ع
تفُو بر تو اے چرخِ گرداں تفُو
لیکن چرخ گرداں کا بھی اس میں کوئی تصور نہیں ہے ‘کیونکہ اس پر اللہ میاں کی پھٹکار ہے؛ حالانکہ اس کے لیے پھٹکار ہی کافی تھی‘ اللہ میاں کو زحمت اٹھانے کی ضرورت ہی نہیں تھی‘ کیونکہ ہماری شاباش لگے نہ لگے‘ پھٹکار‘ بددعا کی صورت ضرور لگتی ہے اور یہ مرتبہ ہم نے سالہا سال کی محنت کے بعد حاصل کیا ہے ‘تاہم ایسا لگتا ہے کہ اس کا الٹا اثر خود ہم پر ہی ہو رہا ہے۔ اس لیے اس گمراہ قوم کا بندوبست کچھ اور ہی کرنا پڑے گا۔ آپ اگلے روز لاہور میں قاضی حسین احمد کی خدمات کی تصویری نمائش کے موقعہ پر اظہار ِخیال کر رہے تھے۔
آج کا مطلع
ایسا بھی نہیں در خور ِاظہار نہیں تھے
ہم حسب ِ ضرورت بھی طلب گار نہیں تھے