بازار میں ہر طرح کی چیز ملتی ہے۔ بہت اعلیٰ بھی‘ بہت گھٹیا بھی۔ ہمیں قدم قدم پر انتخاب کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ انتخاب کے مرحلے سے ہم جس طور گزرتے ہیں اُسی سے طے ہوتا ہے کہ معاملات کس سمت جائیں گے۔ اچھی چیز اچھے نتائج پیدا کرتی ہے اور بُری چیز کے بُرے نتائج برآمد ہوا کرتے ہیں۔
زندگی کا معاملہ بھی بازار سے خریداری جیسا ہی ہے۔ ہمیں یومیہ بنیاد پر بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے‘ فیصلے کرنے پڑتے ہیں اور اِن فیصلوں پر عمل ہی سے اس امر کا تعین ہوتا ہے کہ ہم بھرپور کامیابی سے ہم کنار ہو پائیں گے یا نہیں۔
حقیقی اور بھرپور کامیابی کا مدار اِس بات پر ہے کہ ہم زندگی کے بازار سے کس طرح کی خریداری کرتے ہیں۔ بازار کی خریدی جانے والی اچھی مصنوعات ہماری زندگی میں آسانیاں پیدا کرتی ہیں۔ عمومی سطح پر ہم کوشش کرتے ہیں کہ اچھا مال خریدیں ‘ تاکہ کسی بے جا الجھن کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بڑے اور تسلیم شدہ اداروں کی معیاری مصنوعات پُرآسائش زندگی بسر کرنے کے حوالے سے ہماری معاون ثابت ہوتی ہیں۔ غیر معیاری اشیاء سہولت کار تو کیا بنیں گی‘ مزید پریشانیوں کا سامان کرتی ہیں۔
زندگی کے بازار سے خریداری میں لاپروائی کا مظاہرہ کرنے والے منہ کی کھاتے ہیں۔ فی زمانہ سستی ناپائیدار اشیاء کے حوالے سے چین بہت بدنام ہے۔ چین دنیا بھر میں مختلف معیارات کا مال بھیجتا ہے۔ سستا مال انتہائی سطحی قسم کا ہوتا ہے‘ جس کا کوئی خاص معیار ہوتا ہے‘ نہ دیرپا رہنے کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج اگر مال کو پست معیار کا کہنا ہو تو ''چائنا کا مال‘‘ کہہ دیا جاتا ہے اور یہ جملہ بھی زباں زدِ عام ہے کہ چائنا کے مال کی کوئی گارنٹی نہیں۔ چلے تو چاند تک ... ورنہ شام تک!
اگر کسی چیز کے معیار کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو تو ہم اُس سے کام لینے کے معاملے میں متوازن اور پُرسکون رہتے ہیں۔ چیز اعلیٰ معیار کی ہو یا پست معیار کی‘ ہمیں اُس کے معیار کا درست اندازہ ہونا چاہیے‘ ورنہ وہ کہیں بھی دھوکا دے جائے گی۔ چین سے درآمد شدہ انتہائی سستا مال عموماً انتہائی غیر معیاری ہوتا ہے۔ یہاں ایک نکتے کی وضاحت لازم ہے ... یہ کہ چین کا بیشتر مال پست معیار کا ہوتا ہے‘ تو اس میں چین کے صنعت کاروں کا کوئی قصور نہیں۔ وہ نمونوں اور مطلوب معیار کے مطابق مال تیار کرکے دیتے ہیں۔ سستا مال مانگیے تو سستا ملے گا اور اگر معیاری مال چاہیے تو زیادہ مال خرچ کرنا پڑے گا۔ دنیا بھر سے تاجر چین کا رخ کرتے ہیں اور آرڈر دیتے ہیں۔ یہ آرڈر مال کے معیار کے مطابق ہوتے ہیں۔ پس ماندہ ممالک کے تاجر چاہتے ہیں کہ سستا مال درآمد کیا جائے‘ تاکہ آسانی سے فروخت کرنا ممکن ہو۔ ترقی یافتہ ممالک کے بہت سے تاجر بھی متعدد مصنوعات چین میں بنواکر منگواتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے‘ جتنا گُڑ ڈالیے اُتنا میٹھا ہوگا!
ہم زندگی بھر سستے پر جینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ہر معاملے میں سستا مال نہیں چلتا۔ جہاں معیار مطلوب ہو وہاں خوب خرچ بھی کرنا پڑتا ہے۔ کم ہی لوگ ہیں ‘جو ایک خاص مدت کے بعد کچھ دیر کے لیے ٹھہرتے ہیں‘ اپنے وجود کا جائزہ لیتے ہیں اور زندگی کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے سنجیدہ ہوکر نئے سِرے سے کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اشیائے صرف اُسی وقت معیاری ثابت ہوتی ہیں جب خام مال معیاری ہو۔ چین کے صنعتی ادارے ‘جو سستا مال تیار کرتے ہیں وہ پست معیار کے خام مال سے تیار کیا جاتا ہے۔ یہی حال ہماری زندگی کا بھی ہے۔ ہم جیسا خام مال استعمال کریں گے ہماری زندگی ویسی ہی ہوگی۔
ہم قدم قدم پر معیار کے حوالے سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں۔ اب خیالات ہی کو لیجیے۔ کوئی بھی عمل ایسا نہیں جس کی پُشت پر کوئی خیال نہ ہو۔ اور کوئی بھی اعلیٰ عمل ایسا نہیں ‘جس کی پشت پر ادنیٰ خیال ہو۔ عمل کا معیار خیال کے معیار ہی کی بنیاد پر متعین ہوتا ہے۔ ہم زندگی بھر عمومی خیالات کے دائرے میں گھومتے رہتے ہیں اور پھر چاہتے ہیں کہ ہمارے اعمال کا معیار بلند ہو۔ ہر شعبے کے چالو مال کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی‘ یعنی چلے تو چاند تک ... ورنہ شام تک! بازار میں دستیاب غیر معیاری مال چونکہ انتہائی سستا ہوتا ہے اس لیے اُس کی کارکردگی اور پائیداری کے حوالے سے کوئی گارنٹی دی جاتی ہے‘ نہ طلب ہی کی جاسکتی ہے۔ دو یا تین چار سال کی گارنٹی ہمیشہ بڑی کمپنی کے ‘یعنی برانڈیڈ مال کی ہوتی ہے۔ اس کے لیے قیمت بھی‘ ظاہر ہے‘ زیادہ ادا کرنی پڑتی ہے۔
ہم مصنوعات کے معاملے میں تو برانڈ کا خیال رکھتے ہیں‘ خیالات اور زندگی کے معیار کے حوالے سے اس کا ذرا بھی خیال نہیں رکھتے اور پھر اس روش پر گامزن رہنے کا خمیازہ بھی بھگتتے رہتے ہیں۔ جس طور مصنوعات کے اعلیٰ معیار کے لیے خام مال کے معیار کا اعلٰی ہونا لازم ہے‘ بالکل اُسی طور زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے بھی خیالات کے معیار کا اعلیٰ ہونا لازم ہے۔ برانڈیڈ مصنوعات کی طرح برانڈیڈ خیالات بھی مطلوب نتائج فراہم کرتے ہیں۔ ہم جس قدر اعلیٰ خیالات کے حامل ہوں گے یا اعلیٰ معیار کا ادب پڑھیں گے‘ اُسی کے بہ قدر اعلیٰ زندگی ہمارا مقدر بنے گی۔ خیالات میں برانڈ کا خیال رکھنے کی صورت میں ہمیں بہت کچھ ملتا ہے۔ بلند سوچ اُسی وقت ہمارا مقدر بنتی ہے‘ جب ہم اعلیٰ تحریریں پڑھتے ہیں اور عمومی سطح سے بلند ہوکر سوچنے کی عادت ڈالتے ہیں۔ ہم اپنے ذہن کو جس طرح کی خوراک دیں گے ‘اُسی سے مطابقت رکھنے والی توانائی ہم میں پیدا ہوگی۔ ہم مرتے دم تک سستے کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں ‘جبکہ یہ نکتہ بھی ہمارے علم میں ہوتا ہے کہ سستا مال پائیدار نہیں ہوتا اور اُس کے استعمال سے مطلوب نتائج بھی پیدا نہیں ہوتے۔ ماحول پر نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ لوگ بالعموم اس سطح سے بلند نہیں ہو پاتے۔ وہ اس بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے کہ عمل کا گراف بلند کرنے کے لیے سوچ کا گراف بلند کرنا لازم ہے۔ سوچ ہی کی بدولت ہم وہ سب کچھ کر پاتے ہیں ‘جس کا دوسرے محض خواب ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے ہمیں اعلیٰ سوچ درکار ہوتی ہے۔ اعلیٰ سوچ کے بغیر گزاری جانے والی زندگی کا وہی انجام ہوتا ہے‘ جو چین یا کسی بھی اور ملک سے درآمد کردہ سستی اور غیر معیاری اشیاء کا ہوا کرتا ہے۔ ایسی اشیاء کا کچھ بھروسہ نہیں ہوتا اور کمتر درجے کی‘ غیر معیاری سوچ اپنانے کی صورت میں بھی کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کب کیا ہوجائے‘ معاملات کیا رخ اختیار کریں۔
معیاری زندگی بسر کرنے کے لیے معیاری سوچ کا ہونا اُسی طرح لازم ہے‘ جس طرح زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کا ہونا ناگزیر ہے۔ معیاری سوچ ہی آپ کو عمومی سطح سے بلند ہوکر کچھ کرنے کی تحریک دے سکتی ہے۔ عمومی سوچ آپ کو اوسط درجے کی زندگی سے آگے نہیں بڑھنے دے گی اور سچ تو یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اوسط درجہ بھی گِرتے گِرتے خالص عامیانہ پن کی نذر ہونے لگتا ہے۔ چالو مال ہمارے لیے کسی کام کا نہیں ہوتا‘ اسی طور چالو سوچ بھی ہمیں راستے میں کہیں بھی چھوڑ کر ایک طرف ہو جاتی ہے۔ اس دنیا میں آگے وہی بڑھا ہے‘ جس نے سوچنے کے عمل کو اہمیت دی ہے اور پھر اُس کے مطابق عمل کا گراف بلند کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ ''کام چلاؤ‘‘ قسم کے فکر و عمل کو اپنانے سے معاملات چاند تک کیا خاک جائیں گے‘ شام ہوتے تک دم توڑنے لگتے ہیں!