نذیر قیصر کی شاعری مختلف ہے‘کچھ زیادہ مختلف۔ اس لئے کہ اس کی شخصیت ہی مختلف ہے‘ بہت ہی مختلف۔نذیر قیصر کی ہستی محبت میں گندھی ہے۔مرنجاں مرنج مگر بے ریا۔وسیع الظرف، اور ناک کی سیدھ میں چلنے والا۔ریشم دکھائی دیتا ہے مگر اپنے باطن میں فولاد کی طرح صیقل۔ رہی شاعری تو احمد ندیم قاسمی اور فیض احمد فیض سے جوانی میں داد پائی ۔پرسوں پرلے روزشاعر کی 75 ویں سالگرہ تھی۔یہ ہے ایک سرسری سا انتخاب۔
موسم کی روداد رقم کرنے کے لیے
شاخیں اپنے ہاتھ کٹاتی رہتی ہیں
کون ہوائیں ہیں جو لوحِ عالم پر
آنکھیں چہرہ ہاتھ بناتی رہتی ہیں
......
دیا جلایا تن سے دھول اُتاری ہے
یہ سب تم سے ملنے کی تیاری ہے
ہم دونوں کے خواب کہاں مل سکتے ہیں
تم نے رات اور ہم نے عمر گزاری ہے
......
تیرے سائے میں چھپا کر تجھے لے جائوں گا
تو دیا ہے میں جلا کر تجھے لے جائوں گا
جاگنے والے تجھے ڈھونڈتے رہ جائیں گے
میں تیرے خواب میں آ کر تجھے لے جائوں گا
......
عجیب خواب مجھے دن میں آیا کرتا تھا
میں چاند تاروں کو رستہ دکھایا کرتا تھا
وہ دھوپ بن کے مرے ساتھ ساتھ تو چلتی تھی
میں سائے جوڑ کے شامیں بنایا کرتا تھا
عجیب شوق تھے میرے میں گیلی مٹی سے
بنا بنا کے پرندے اڑایا کرتا تھا
......
ایک بوندچھلکانی ہے اک چھاگل بھرنی ہے
میں نے سمندر کی خاموشی واپس کرنی ہے
......
اے وصالِ جسم و جاں اے چراغ شب میرے
ڈوب ڈوب جاتے ہیں روشنی میں لب میرے
......
دیا جلایا بھی اُس نے دیا بجھایا بھی
پھر اس کے بعد نہیں تھا ہمارا سایا بھی
......
چاند آنکھوں میں ڈبویا نہیں جاتا مجھ سے
اتنا جاگا ہوں کہ سویا نہیں جاتا مجھ سے
......
خواب سے باہر کوئی دنیا نہیں
خواب میں بیدار ہونا چاہئے
زندگی بھی خوبصورت چیز ہے
بس کسی سے پیار ہونا چاہئے
......
پرندوں کی دھنک ہے آسماں پر
زمیں بھی خوبصورت ہو گئی ہے
محبت کو میں پیچھے چھوڑ آیا
مجھ اب تیری عادت ہو گئی ہے
......
دنیا اچھی لگتی ہے رب اچھا لگتا ہے
اچھی آنکھوں والوں کو سب اچھا لگتا ہے
......
عمر گزری ہے عبادت کرتے
اچھا ہوتا جو محبت کرتے
میرا مذہب محبت کرنا
اے خدا میری حفاظت کرنا
......
دوست بھی ہوتے ہیں بچوں کی طرح
اپنے بچوں کی حفاظت کیجے
......
اُس نے پیاس میں کروٹ بدلی
اور گھڑے میں جاگا پانی
......
جب میرا جسم کٹ گیا مجھ سے
میرا سایا لپٹ گیا مجھ سے
خواب تھے رات کے پیالے میں
اور پیالہ الٹ گیا مجھ سے
......
روشنیوں میں رنگ ملاتے رہتے ہیں
ہم تیری تصویر بناتے رہتے ہیں
......
وہ آگئی تو کمرے کی تزئین کے لیے
کھڑکی میں آدھا چاند سجانا پڑا مجھے
......
رنگ و خوشبو میں ہے صبا میں ہے
تو مری صبح کی دعا میں ہے
......
جاگتے ہیں سوتے ہیں
حرف آنکھیں ہوتے ہیں
......
کھڑکی کھول کے میں نے اُسے پکارا قیصر
ایک پرندہ ایک ستارہ واپس آیا
......
گھر میں سب سامان پڑا ہے
لیکن گھر ویران پڑا ہے
......
آسماں آسماں بھٹکتا ہوں
میں زمیں کا سوتیلا بیٹا ہوں
......
آدمی آسماں تھادھول ہوا
پھر خدا بھی بہت ملول ہوا
......
حرف کونپلیں نکل آئیں
میرا لکھا پڑھا قبول ہوا
......
بادبانوں پہ پہلی رات اُتری
پہلا تارا مرا رسول ہوا
......
خالی دعا سے کیا ہوتا ہے
اچھا خیال دعا ہوتا ہے
......
پائوں اتارے پانی میں
چمکے تارے پانی میں
ایک بوند کی خاموشی
گونجی سارے پانی میں
......
سرِ دشتِ بلا کوئی نشانی چھوڑ جائوں گا
میں تشنہ لب مشکیزے میں پانی چھوڑ جائوں گا
......
رنگ و خوشبو کی کہانی دے رہی ہیں
لڑکیاں پھولوں کو پانی دے رہی ہیں