بہت اچھا ہوا کہ میاں محمد نواز شریف کو احتساب کورٹ اسلام آباد سے سات سال قید با مشقت اور ڈیڑھ ارب روپے ادا کرنے کی سزا کے خلاف ان کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے دائر کی جانے والی اپیل کو تیسرے ہی دن سماعت کیلئے منظور کر کے دو رکنی بنچ قائم کرتے ہوئے نیب کو 9 جنوری کیلئے نوٹس جاری کر دیا گیا تھا۔ یہی انصاف کا تقاضا ہوتا ہے کہ کسی بھی سائل کی داد رسی کیلئے انتظار کی طویل سرنگوں میں بٹھا ئے رکھنے کی بجائے کوئی وقت ضائع کئے بغیر اسے جلد از جلد سنا جائے ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس بہترین اقدام کی جانب دیکھتے ہیں تو فخر بھی ہوتا ہے کہ ہماری عدلیہ اب پرانی روش سے ہٹ کر فوری انصاف کی راہ پر چل نکلی ہے۔ابھی اسی فخر کے نشے میں مست تھا کہ استادِ محترم گوگا دانشور نہ جانے کہاں سے اچانک ہی تشریف لے آئے۔خوشی سے میرے لال سرخ ہوتے ہوئے چہرے کو دیکھ کر بولے: کیا کوئی لاٹری واٹری نکل آئی ہے شاگرد جی؟ جب میں نے انہیں بتایا کہ لاٹری کی بات چھوڑیں اب ہمارے ملک میں ہونے والی تبدیلیوں کی جانب دیکھیں کہ کل اپیل دائر ہوئی اور آج منظور ہو کر کل کیلئے سماعت شروع کرنے کا حکم جاری ہو گیا۔جب میں نے باچھیں کھلاتے ہوئے عدلیہ کی آزادی اور تیز ترین انصاف کی جانب ان کی توجہ دلائی تو نہ جانے کیوں خوش ہونے کے بجائے وہ مجھے گھورنا شروع ہو گئے۔ میرے لئے استاد محترم کا یہ رویہ حیران کن ہی نہیں بلکہ مایوس کن بھی تھا کہ ان سے میری یہ ننھی سی خوشی بھی برداشت نہیں ہو رہی۔ مجھے اس طرح حیران ہوتا دیکھ کر انہوں نے کہا: خوش ہونے سے پہلے ایک بھولا بسرا قصہ سنو۔ ان کے غصے کو دیکھتے ہوئے با ادب ہو کر کان ان کی طرف لگا دیئے۔ ایک لمبا سا کش لگانے کے بعد کہنے لگے: برخوردار یہ غالباً نومبر2015 ء کی ایک صبح کا ذکر ہے جب راولپنڈی کی ایک احتساب کورٹ کے ایک جج کے سامنے سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف اپنی آمدن سے کئی گنا زیا دہ اثاثے بنانے کا مقدمہ پیش ہوا تو زرداری صاحب کے وکیل فاروق نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا ''جناب یہ مقدمہ19سال پرانا ہے جسے میاں نواز شریف نے 1998ء میں سیا سی انتقام اور بد نیتی کے تحت قائم کیا تھا۔اس مقدمے کے بارے میں اتنا ہی کہوں گا کہ اس وقت سے اب تک اس میں چار مزید ضمنی ریفرنس بھی شامل کئے جا چکے ہیں اور اس مقدمے کی لاہور، اٹک اور اب راولپنڈی میں سماعت ہو رہی ہے۔ فاروق نائیک نے مزید کہا : جناب اب تک احتساب بیورو کے 6 چیئر مین ریٹائر ہو چکے ہیں اور لاتعداد پراسیکیوٹر جنرل الگ سے تعینات کئے جا چکے ہیں اور ان ریفرنسز میں پیش کی جانے والی شہادتیں قانونِ شہا دت کی تعریف میں بھی نہیں آتیں۔ میرے کلائنٹ پر الزامات عائد کئے گئے ہیں کہ ان کی لندن اور پاکستان میں انتہائی قیمتی جائیدادیں ہیں لیکن ان جائیدادوں کے ثبوت کے طور پر پیش کی گئی دستاویزات اصلی نہیں بلکہ فوٹو کاپیاں ہیں جن کی قانون کی نظروں میں کوئی وقعت نہیں‘ اس لیے میری اس عدالت سے درخواست ہے کہ کریمنل پروسیجر کوڈ کے سیکشن 103 کے حوالے سے ان کے سائل کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کیا جائے۔
استاد گوگا دانشور کہنے لگے کہ زرداری صاحب کے وکیل فاروق نائیک نے عدالت سے ایک وعدہ معاف گواہ آصف علی آغا کے حوالے سے کہا کہ اس کے مطا بق سکرنڈ شوگر مل، انصاری شوگر مل، بچانی شوگر مل اور مرزا شوگر مل میرے مؤکل آصف علی زرداری کی ملکیت ہیں (جے آئی ٹی کی موجو دہ رپورٹ‘ جس پر بلاول سمیت پوری پی پی پی کا خون کھول رہا ہے ایک مرتبہ غور سے پڑھ لیں تو اس رپورٹ میں بھی اومنی گروپ کے حوالے سے ان شوگر ملوں کا ذکرِ خیر ملے گا)۔ فاروق نائیک نے عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :جبکہ دوسرے بہت سے ریفرنس 2007ء میں جنرل مشرف سے ہونے والے این آر اوکی وجہ سے بند کئے جا چکے ہیں۔2009ء میں سپریم کورٹ نے اپنے حکم کے ذریعے ان تمام این آر اوز کو Null And Void قرار دے دیا ‘لیکن اس وقت تک آصف علی زرداری صدر پاکستان کے عہدہ پر فائز ہو چکے تھے اور آئین کے آ رٹیکل248 کے تحت وہ ہر قسم کی عدالتی کارروائی سے Immunity حاصل کر چکے تھے‘ اس لئے یہ سب ریفرنس اسی طرح ٹھپ رہے‘ لیکن جیسے ہی 2015ء کا سال اپنے اختتام کی جانب بڑھنے لگا تو آصف علی زرداری نے Power of court to acquit accused at any stageسیکشن265k کے تحت خالد محمود رانجھا جج احتساب کورٹ کے سامنے درخواست پیش کرتے ہوئے بری کرنے کی درخواست کی جس پر24 نومبر کو راولپنڈی احتساب کورٹ نے آصف علی زرداری کوSGS, COTECNA ریفرنس میں استغاثہ کی جانب سے مقدمے کے اصل کاغذات ساتھ نہ لگانے پر با عزت بری کر دیا۔
جیسے جیسے استاد گوگا دانشور یہ کہانی سناتے جا رہے تھے ہم پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے۔ ہماری حیرت اور کھلی ہوئی آنکھوں کی جانب دیکھتے ہوئے استادِ محترم گوگا دانشور نے ایک زبردست قہقہہ لگاتے ہوئے کہا: تم کہہ رہے ہو کہ میاں نواز شریف کی سزا کے خلاف کی جانے والی اپیل کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسی دن منظور کرتے ہوئے اگلے دن اس کی با قاعدہ سماعت مقرر کر کے ملک میں سپیڈی ٹرائل کا آغاز کر دیا ہے تو غور سے سنو‘ راولپنڈی احتساب کورٹ سے آصف علی زرداری کو جب مقدمے میں ثبوت کے طور پر فوٹو کاپیاں پیش کرنے پر بری کیا گیا تو دسمبر2016ء میں اس کے خلاف اپیل دائر کرتے ہوئے کہا گیا: ملزم کے وکیل کی جانب سے سیکشن265k کے تحت دی گئی در خواست پر انتہائی عجلت میں اور نیب کو سنے بغیر فیصلہ دیا گیا ہے۔ گوگا دانشور نے مزید بتایا کہ '' احتساب بیورو نے اس فیصلے کے خلاف اپنی دائر کی گئی اپیل میں لکھا تھا '' جناب والا: ملزم کے وکیل کی جانب سے یہ کہنے پر کہ پیش کئے گئے یہ کاغذات اصلی نہیں بلکہ سب فوٹو کاپیوں پر مشتمل ہیں جو قانونِ شہادت کے تحت کسی ملزم کو سزا دینے کیلئے قابل قبول نہیں‘ عدالت کو چاہئے تو یہ تھا کہ وہ اصل کاغذات پیش کرنے کا حکم دیتی جو سپریم کورٹ آف پاکستان میں موجود تھے‘‘۔
جیسے ہی استاد گوگا دانشور کے منہ سے اصل کاغذات کے سپریم کورٹ میں موجودگی کے الفاظ نکلے ہم سب بے یقینی کی حالت میں گوگا دانشور کی جانب دیکھنے لگے ۔ ہمیں شک ہونے لگا کہ استاد محترم بڑھاپے‘ موٹاپے اور سگریٹ مہنگے ہونے کی وجہ سے کچھ سٹھیا سے گئے ہیں۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اصل کاغذات ملک کی سب سے اعلیٰ کورٹ میں محفوظ ہوں اور آصف علی زرداری یا کسی بھی دوسرے ملزم کو اس بنیاد پر بری کر دیا جائے کہ ان کے خلاف ریفرنس میں فوٹو کاپیاں کیوں لگائی گئی ہیں؟ جبکہ رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ کے 19 فروری 2000ء کو انگریزی میں لکھے گئے خط کے یہ الفاظ اپنی اصل حالت میں پیش کر رہا ہوں‘ جس میں لکھا ہے:
Original record of SSD case along with other documents were sent to the apex court in an appeal filed by the accused in the case
جیسے ہی استاد گوگا دانشور کے منہ سے اصل کاغذات کے سپریم کورٹ میں موجودگی کے الفاظ نکلے ہم سب بے یقینی کی حالت میں گوگا دانشور کی جانب دیکھنے لگے ۔ ہمیں شک ہونے لگا کہ استاد محترم بڑھاپے‘ موٹاپے اور سگریٹ مہنگے ہونے کی وجہ سے کچھ سٹھیا سے گئے ہیں۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اصل کاغذات ملک کی سب سے اعلیٰ کورٹ میں محفوظ ہوں اور آصف علی زرداری یا کسی بھی دوسرے ملزم کو اس بنیاد پر بری کر دیا جائے ۔
کہ ان کے خلاف ریفرنس میں فوٹو کاپیاں کیوں لگائی گئی ہیں؟