تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     16-04-2013

لوگ جل جائیں گے …

منتخب حکومت کے پانچ سال پورے ہوئے تو اہل وطن سے اظہار یکجہتی کے طور پر ہم نے بھی سُکون کا سانس لیا تھا۔ مگر دِل میں تھوڑی سی کسک بھی تھی۔ ’’ہر دِل عزیز‘‘ وزیر داخلہ رحمٰن ملک کے بچھڑنے کا زیادہ دُکھ تھا کہ اب دِل کو بہلانے والی باتیں کون کرے گا! ساتھ ہی ساتھ منظور وسان کے رخصت ہونے کا بھی رنج تھا کہ اب کون ہمیں اپنے خواب سُناکر کچھ دیر کے لیے دُنیا کے غموں سے دور کیا کرے گا! اب احساس ہو رہا ہے کہ ہم ایسے بدنصیب بھی نہیں کہ ’’نابغوں‘‘ سے زیادہ دور رہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ منظور وسان کی کمی پوری کرنے کے لیے عمران خان نے خوابوں کا قلمدان سنبھال لیا ہے! اور ہمیں یقین ہے کہ اُن کے بیان کردہ پہلے خواب ہی نے منظور وسان کے اوسان خطا کردیئے ہوں گے! جہاں امن بحال کرنے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے ہماری فورسز کو سَر دَھڑ کی بازی لگانی پڑی ہے اُسی سوات کے صدر مقام مینگورہ میں گزشتہ دنوں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے تحریکِ انصاف کے سربراہ نے ایک خواب عوام سے شیئر کیا۔ عمران خان نے بتایا کہ اُنہوں نے خواب میں تحریکِ انصاف کو کلین سوئیپ کرتے دیکھ لیا ہے، چند ہفتوں بعد وہ وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھاکر حکومت تشکیل دیں گے۔ خواب دیکھنے پر تو شاید دُنیا بھر میں کہیں بھی پابندی نہیں مگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں تھوڑی بہت پابندی عائد کی جانی چاہیے۔ بات یہ ہے کہ لوگ خواب دیکھنے کے معاملے میں منطق کے تقاضوں کو بھی بُھلا دیتے ہیں۔ لاٹری کا ایک ٹکٹ یا ٹکٹوں کی ایک سیریز خرید کر بمپر پرائز کا خواب دیکھنا بُری یا غیر منطقی بات نہیں۔ مگر صاحب! ٹکٹ خریدے بغیر لاٹری جیتنے کا خواب کِس طور دیکھا جاسکتا ہے؟ اگر خواب دیکھنے پر پابندی عائد کرنا ممکن نہ ہو تو کم از کم اُن کے بیان کرنے ہی کی کچھ حُدود مقرر کردی جائیں۔ لوگ آخر کب تک اور کِتنا ہنسیں! ممکن ہے سیاست دان اپنے عجیب و غریب خواب یہ سوچ کر بیان کرتے ہوں کہ قوم کو اِتنے دُکھ دیئے ہیں تو تھوڑا بہت سُکھ بھی دیا جائے! اگر واقعی اُن کی سوچ یہ ہے تو ہم اُن کے جذبے کی قدر کرتے ہیں مگر وہ بھی تو ذرا سوچیں کہ قوم کِتنی کامیڈی برداشت کرسکتی ہے! عمران خان نے زندگی بھر خواب دیکھے ہیں۔ کینسر اسپتال کا خواب دیکھا اور پھر اُسے شرمندۂ تعبیر بھی کیا۔ اِس سے پہلے کرکٹ ٹیم کو بلندی پر پہنچانے کا خواب دیکھا اور اُس خواب کے مقدر میں بھی تعبیر لِکھ دی۔ ورلڈ کپ جیتا۔ مگر ہم یہ بھولتے ہیں کہ سیاست اور کرکٹ میں بہت فرق ہے۔ ورلڈ کپ ٹیم ورک کا نتیجہ تھا۔ جب ٹیم ورک غائب ہوا تو ہماری کرکٹ ٹیم ہی نہیں خود کرکٹ بھی خواب ہوکر رہ گئی! عمران کو صفِ اول کے کرکٹرز ملے تھے جنہوں نے ٹیم کے لیے رفعت یقینی بنائی۔ کیا تحریکِ انصاف میں صفِ اول کے ایسے سیاسی کھلاڑی ہیں جو میچ کا پانسا پلٹنے کی صلاحیت رکھتے ہوں؟ خواب بھی بڑے ستم ظریف ہوتے ہیں۔ اِدھر آنکھ کُھلی اور اُدھر سب کچھ غائب۔ خوابوں کی بسی بسائی جنت پلک جھپکتے میں اُڑن چُھو ہو جاتی ہے۔ اِنسان تِلمِلاکر رہ جاتا ہے اور پھر انتقاماً خواب کو بیان کرکے اپنے دِل کو ٹھنڈک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ عمران خان کو یاد رکھنا چاہیے کہ سیاست خواب دیکھتے رہنے کے سِوا کچھ نہیں۔ مگر ہر خواب بیان نہیں کیا جاتا۔ کچھ خواب تُرپ کے پتّے کے طور پر بچاکر بھی رکھے جاتے ہیں تاکہ مناسب ترین موقع پر بیان کئے جائیں! خواب اِس لیے بھی بیان نہیں کرنے چاہئیں کہ حاسدوں کی نظر لگ جاتی ہے! ؎ دیکھ لو خواب، مگر خواب کا چرچا نہ کرو لوگ جل جائیں گے، سورج کی تمنا نہ کرو! آپ کو یاد ہوگا کہ 2002ء کے انتخابات میں عمران خان قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ اور اُس ایک سیٹ کی بنیاد پر بھی اُنہوں نے وزارتِ عظمٰی کا خواب دیکھا تھا۔ لوگ حیران ہوئے کہ اگر کرکٹ ٹیم کے ارکان کی طرح گیارہ نشستیں بھی تحریکِ انصاف نے جیتی ہوتیں تو خواب دیکھنے میں کچھ مضائقہ نہ تھا۔ جمہوریت میں تو اکثریت والوں کی چلتی ہے۔ اگر ایک نشست کی بنیاد پر بھی عمران خان وزیر اعظم بننا چاہتے تھے تو ذرا یہ بھی فرمائیں کہ کیا ایسا کرنا چور دروازے سے اقتدار میں آنے کے مُترادف نہ ٹھہرتا! غیر منطقی خواب کا نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہیے تھا۔ سورج چُھونے کی کوشش میں پنچھی کے پَر جل گئے! ایسی ہی کیفیت کو غالبؔ نے یوں بیان کیا ہے۔ ؎ تھا خواب میں خیال کو تُجھ سے معاملہ جب آنکھ کُھل گئی تو زیاں تھا نہ سُود تھا! سوات کی حسین وادیوں میں عمران نے جو خواب دیکھا ہے اُسے شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے چولستان کے ریگ زار کی سی تپش سے نبرد آزما ہونا پڑے گا۔ شاہ محمود قریشی نے بظاہر پارٹی لائن کے خلاف جاکر چولستان کی تپش بڑھادی ہے! قیادت کی سطح پر یہ نیم دِلی کِسی بھی اعتبار سے اچھا شگون نہیں۔ بعض خواب ٹاس کی طرح بھی ہوسکتے ہیں۔ مگر محض ٹاس جیت لینے سے میچ ہاتھ میں نہیں آ جاتا۔ ہر گیند پر پانسا پلٹتا رہتا ہے۔ رَسّے پر چلنا بڑی فنکاری ہے۔ مگر خیر، رَسّا تنا ہوا ہو تو مشق کے ذریعے اُس پر چلنا سیکھا جاسکتا ہے۔ اور اگر رَسّا ڈھیلا ہو تو؟ ہماری سیاست بھی ڈھیلا رَسّا ہے۔ ہچکولے کھاتے رہیے۔ اب گِرے کہ تب گِرے! سیاسی خواب واقعی بہت سیاسی ہوتے ہیں۔ اِن پر بھروسہ کرنے والوں کو بالآخر خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنی پڑتی ہے اور پھر واپسی کے لیے این آر او کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ خواب دیکھنا اِنسان کی فطرت ہے۔ اور اگر اِنسان سیاست دان بھی ہو تو خوابوں کا لطف دو بالا سمجھیے۔ وہ خواب دیکھنے پر آتے ہیں تو عقل اور منطق کے حلقے کی حد بندی بھی بھول جاتے ہیں! خواب میں سیاست دان پتہ نہیں کون کون سی آرزوؤں کو تکمیل سے ہمکنار ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اگر تمام خواب بیان کردیئے جائیں تو جلسہ گاہ میں قیامت برپا ہو جائے! ہماری سیاست خوابوں سے عبارت رہی ہے۔ بیشتر سیاست دان سوتے بھی تو خواب میں تاکہ سُندر سپنا ٹوٹ بھی جائے آنکھ کھلنے پر خود کو خواب ہی میں پائیں! بقول غالبؔ ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب! اقتدار کے خواب کم بخت ہوتے ہی ایسے ہیں کہ حواس اور اعصاب سبھی کچھ مَسخ کر ڈالتے ہیں! یہ خواب اچھے خاصے اِنسان کو منظور وسان اور عمران بناکر دَم لیتے ہیں! تحریکِ انصاف کے چیئرمین کو ہمارا مشورہ ہے کہ جو کام کرنے کا ہے وہ کریں۔ خوابوں کی ڈگڈگی بجانے سے تماشا زیادہ دیر چلے گا نہیں۔ یہ اچھی بات نہیں کہ خود تو ہنستے نہیں اور قوم کو ہنسا ہنساکر بے حال کرنے پر تُل گئے ہیں! اور یہ بھی تو سوچیے کہ سویا ہوا شیر جاگ گیا یعنی منظور وسان بھی خواب بیان کرنے پر تُل گئے تو قوم اِتنی کامیڈی کِس طرح برداشت کر پائے گی! الیکشن کمیشن کے جارہ کردہ ضابطۂ اخلاق میں اِس کی بھی کچھ صراحت ہونی چاہیے تھی!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved