کسی بھی معاملے میں شکست و فتح کا مدار صرف اِس بات پر ہے کہ آپ کیا اور کیسے سوچتے ہیں ... اور یہ کہ اُس پر عمل بھی کرتے ہیں یا نہیں۔ جو کچھ آپ سوچیں گے وہی ہوگا۔ اور یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں۔ ہر دور میں اور ہر معاشرے میں یہی ہوتا رہا ہے۔ اِس اصول سے ہمیں بھی استثناحاصل نہیں۔ ہار جیت کا معاملہ بہت عجیب دکھائی دیتا ہے مگر یہ کسی بھی درجے میں عجیب نہیں ہوتا۔ بات کچھ یوں ہے کہ ہم بہت کچھ دیکھتے ہوئے بھی اَن دیکھا کرنا چاہتے ہیں۔ خوش فہمی اور خوش خیالی کی دنیا میں جینے والوں کا یہی معاملہ ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ خرابی کیا ہے‘ کہاں ہے اور کس حد تک ہے مگر اس کے باوجود وہ زمینی حقیقت سے آنکھیں چُراتے رہتے ہیں۔
زندگی ہم سے بہت کچھ طلب کرتی ہے۔ مقدار اور معیار‘ دونوں معاملات میں توازن لازم ہے۔ ہمیں بہت کچھ کرنا ہوتا ہے اور جو کچھ بھی کرنا ہوتا ہے اُس کے معیار کا بلند رہنا لازم ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو زندگی عدم توازن کا شکار ہو جاتی ہے۔
دنیا میں صرف دو آپشن ہیں ... کچھ کرنا یا کچھ بھی نہ کرنا۔ جو لوگ کچھ کرنا چاہتے ہیں اُن کے لیے سو طرح کے چیلنج ہوتے ہیں۔ ہر معاملہ انہیں للکارتا ہے‘ آواز دیتا ہے کہ آگے بڑھو‘ کچھ کرکے دکھاؤ۔ وہ آگے بڑھتے ہیں‘ اپنی صلاحیت اور سکت کے مطابق کچھ نہ کچھ کرتے ہیں تاکہ فکر و عمل کا حق ادا ہو اور زندگی کا معیار کسی نہ کسی حد تک ضرور بلند ہو۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو یہ طے کرلیتے ہیں کہ انہیں کسی بھی معاملے میں ایک خاص عمومی حد سے بڑھ کر کچھ نہیں کرنا۔ ایسوں کے لیے زندگی کسی بھی مرحلے پر کوئی چیلنج پیش نہیں کرتی۔ وہ زندگی بھر پُرسکون رہتے ہیں۔ سُکون ہر اُس انسان کے نصیب میں لکھ دیا جاتا ہے جو کچھ کرنا نہیں چاہتا۔ جب سر پر کوئی بوجھ نہ ہو تو دردِ سر پیدا ہی کیوں ہو؟ کوئی چیلنج درپیش نہ ہو تو انسان کے لیے مضطرب ہونے کی گھڑی آئے ہی کیوں؟ تمام مسائل اُس وقت پیدا ہوتے ہیں جب انسان کو کچھ کرنا پڑتا ہے۔ جب کچھ کرنا ہی نہ پڑے تو کیسی الجھن‘ کیسی پریشانی؟
ہمیں ہر معاشرے میں مختلف المزاج انسان دکھائی دیتے ہیں۔ قدرت نے انسانوں کو اسی طور خلق کیا ہے۔ مزاج کا فرق صلاحیتوں اور رجحان کے فرق کی صورت میں زیادہ پنپ اور اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ یہی معاملہ زندگی کے حوالے سے سوچنے کا بھی ہے۔ عمومی روش یہ ہے کہ زندگی جیسے بھی گزر رہی ہے گزارتے چلے جائیے۔ عام آدمی کی نظر میں یہی زندگی ہے۔ وہ اِس سطح سے بلند ہوکر کچھ سوچنے اور کرنے کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتا۔ خیر‘ اس کا بنیادی سبب یہ نہیں ہے کہ عام آدمی کو فکر و عمل کے محاذ پر سرگرم ہونے پر کچھ ملنے کا یقین نہیں ہوتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ پورے شعور اور سنجیدگی کے ساتھ زندگی بسر کرنا بچوں کا کھیل نہیں۔ اس دنیا میں کوئی بھی نہیں جسے بھرپور کامیابی کی قیمت معلوم نہ ہو۔ یہ قیمت ادا کرنے سے بچنے کے لیے وہ ناکامی کو گلے لگائے رہتے ہیں۔ اور پھر جب انہیں شدید ناکامی اپنی گرفت میں لے لیتی ہے تو وہ کامیاب افراد کے بارے میں اُلٹی سیدھی باتیں کرکے اپنے ضمیر کا بوجھ کم کرتے رہتے ہیں۔ مزاج کا فرق بالآخر پوری زندگی پر محیط ہو رہتا ہے۔ جو لوگ کچھ کرنے کا طے کرتے ہیں اُن کی زندگی کسی اور رنگ اور ڈھنگ کی ہوتی ہے۔ اُن کے شب و روز کسی اور انداز سے بسر ہوتے ہیں۔ زندگی کا حق ادا کرنے کی نیت کے ساتھ جینا بہت کچھ مانگتا ہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم کچھ کرنے کی ٹھانیں اور صلاحیت کے بھرپور اظہار کی مشقّت سے بچ جائیں۔
کامیابی کے لیے صلاحیت‘ محنت اور ولولے کی ضرورت پڑتی ہے۔ صلاحیت ہوگی تو انسان مہارت سے کام کرے گا۔ محنت کرے گا تو کام زیادہ ہوگا اور ولولہ ہوگا تو محنت کا حق ادا کرنے کی راہ نکلے گی۔ یہ سب تو ٹھیک ہے مگر ہم اس حقیقت کو اکثر نظر انداز کردیتے ہیں کہ رجحان یا میلان اکثر ہمیں راہ سے ہٹادیا کرتا ہے۔ ہماری طبیعت کا جھکاؤ ہی شکست و فتح کے حوالے سے ہماری سوچ اور رجحان کی تشکیل و تہذیب کرتا ہے۔
روزانہ دنیا بھر میں لاکھوں نوجوان کیریئر کا آغاز کرتے ہیں۔ عمل کے میدان میں قدم رکھنے کے بعد انہیں ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں‘ دنیا کو کسی حد تک بدلنے کے متمنی ہیں۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ کچھ دنوں میں اُن کا ولولہ کمزور پڑنے لگتا ہے۔ کام کرنے کی لگن دم توڑنے لگتی ہے۔ اور یوں وہ اپنے کیریئر کے حوالے سے ویسی سنجیدگی برقرار نہیں رکھ پاتے جیسی کچھ دن یا کچھ مدت پہلے ہوا کرتی تھی۔ یہ سب کچھ اُس وقت ہوتا ہے جب عمل کے میدان میں کسی خاص ذہنی تیاری کے بغیر قدم رکھ دیا گیا ہو۔ تیاری نہ ہو تو کیریئر کی بات چھوڑیے‘ انسان روزمرّہ کام بھی ڈھنگ سے نہیں کر پاتا۔ ہر کام ایک خاص حد تک تیاری مانگتا ہے۔ ہم مانیں یا نہ مانیں‘ دنیا کا کاروبار اِسی طور چلتا آیا ہے اور اِسی طور چلتا رہے گا۔ اگر کچھ کرنا ہے‘ کچھ پانا ہے تو دُنیا کے طور طریقے اپنانے پڑیں گے۔ دُنیا سے کچھ ہٹ کر تو چلا جاسکتا ہے مگر اِسے یکسر نظر انداز کرکے کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔
شعبہ اور معاملہ کوئی بھی ہو‘ جب بات محنت اور کامیابی کی ہوتی ہے تو تان ٹوٹتی ہے رجحان اور ولولے پر۔ انسان جس مزاج کا ہوتا ہے اُسی کے مطابق کام کرتا ہے۔ مزاج کو ایک خاص سانچے میں ڈھالنے کے حوالے سے ماحول کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ انسان جیسے لوگوں میں اُٹھتا بیٹھتا ہے ویسا ہی ہو جاتا ہے۔ احباب کی اجتماعی سوچ بھی انسان کی فکری ساخت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ انسان غیر محسوس طور پر ویسا ہی سوچنے لگتا ہے جیسا سب سوچ رہے ہوتے ہیں۔
کوئی بھی مسئلہ اگر مسئلہ رہتا ہے تو صرف اُن کے لیے جو اُسے اپنی صلاحیت اور سکت کے لیے آزمائش ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ اگر ہم کسی بھی مسئلے کا ڈٹ کر سامنا کریں اور کچھ کر دکھانے کی ٹھان لیں تو وہ چیلنج بن جاتا ہے۔ اور ہر چیلنج ہمیں کچھ نہ کچھ بامعنی کرنے کی مہمیز دیتا ہے۔ ہمیں قدم قدم پر مان لو یا ٹھان لو کا مرحلہ درپیش رہتا ہے۔ حالات سے لڑنے کے معاملے میں پژمردہ فکر و عمل کے حامل افراد تیزی سے ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ وہ ہار مان لینے میں عافیت محسوس کرتے ہیں کیونکہ ایسی صورت میں کچھ کرنے سے جان چُھوٹ جاتی ہے۔ مگر خیر‘ ایسی صورت میں زندگی کی بساط بھی لپٹ جاتی ہے۔ زندگی وہاں شروع ہوتی ہے جہاں معاملہ ٹھان لینے کا ہو۔ انسان جب ٹھان لیتا ہے کہ کچھ کرنا ہے‘ صورتحال سے ڈرنا نہیں تب ہی کامیابی کی طرف لے جانے والی راہ کے ہموار ہونے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ زندگی کے کسی بھی معاملے میں کوئی پیچیدگی نہیں۔ پیچیدگی اگر پیدا ہوتی ہے تو ہماری سوچ سے‘ کسی بھی معاملے میں فکری و عملی رویّے سے۔ سیدھی سی بات ہے ... مان لو تو ہار ہے‘ ٹھان لو تو جیت ہے۔