تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     12-01-2019

اگر میری نوکری ختم ہو گئی تو ؟

روپے کی قدر گرنے کے ساتھ ہی ملک میں معاشی بحران نے جنم لیا ؛ چنانچہ بے روزگاری کا عفریت بے قابو ہو گیا۔ احتساب کے خوف سے بڑے سرمایہ کاروں نے اپناہاتھ مارکیٹ سے کھینچ لیا ۔ بازار ٹھنڈا پڑاہے ۔ جنرل مشرف کے دور میں میڈیا نے ایک نیا جنم لیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اخبار نویسوں کی تنخواہیں تیزی سے بڑھیں ۔ پہلی بار یہ ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں اور حتیٰ کہ ملینز تک جا پہنچیں۔ میڈیا چینلز کی صورت میں بینکوں اور موبائل کمپنیوں کے بعد ایک نئی جاب مارکیٹ وجود میں آئی ۔ کیمرہ مین ‘ رپورٹر ‘ ٹی وی میزبان ‘ پروڈیوسر‘ ہر پروگرام کی ایک پوری ٹیم ۔
مشرف دور تو میڈیا کی expansionکا دور تھا۔ زرداری عہد میں جب ایک عالمی معاشی بحران نے پاکستان کو بھی متاثر کیا‘ میڈیا والوںکو کوئی فرق نہیں پڑا ۔ آج مگر صحافیوں کوبرطرفی کے پروانے پکڑائے جا رہے ہیں ۔بہت سوں کی نوکریاں ختم ہو گئیں ۔ باقی ‘ بالخصوص درمیانے اور نچلے درجے کا کارکن سوچ رہا ہے کہ اگر میری نوکری ختم ہو گئی تو کیا ہوگا؟
کروڑوں برس کے تجربات کی وجہ سے بھوکا مر جانے کا خوف انسان کے جینز میں ہے ۔ جانور تو کل کی سوچ ہی نہیں سکتا۔ ننانوے فیصد معاملات میں فاقہ کشی کی نوبت نہیں آتی لیکن خوف ہی انسان کو مار ڈالتا ہے ۔ آ ج اس خوفناک صورتحال میں ہم میڈیا والوں کو کیا کرنا چاہیے؟ سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہمیںبدترین (Worst)کے خوف سے گزر جانا چاہیے ۔ ہر بندے کے ذہن میں ایک خوف ہوتاہے کہ اگر میں فیل ہو گیایا اگر میری نوکری ختم ہو گئی تو کیا ہوگا۔ میں آپ سے یہ کہتا ہوں کہ ایک دفعہ اس worstکو ہو جانے دیں ۔ میری زندگی میں ایک دفعہ یہ ہو چکا ہے ۔بندہ خواہ مخواہ ڈرتا ہے کہ آسمان ٹوٹ پڑے گا۔ کچھ بھی نہیں ہوتا۔2008ء میں میں فیل ہو گیا ۔ بات ختم ہو گئی۔خدا نے نئے راستے کھول دیے۔اگر اس وقت میں فیل نہ ہوتاتو میں کبھی بھی وہ سب کچھ نہیں سیکھ سکتا تھا‘ جو میں نے سیکھا ۔میں ایسے کالم کبھی بھی نہ لکھ سکتا ۔ آج صرف 33سال کی عمر میں مجھے دانشور سمجھا جاتا ہے ۔ مجھ سے بڑی عمر کے لوگ میری عزت کرتے ہیں ۔ لوگ کہتے ہیں کہ جو بندہ کما کر نہیں لاتا‘ اس کی عزت نہیں ہوتی ۔ یہ statementغلط ہے ۔ عزت اس کی نہیں ہوتی جو productivelyکام کرنے سے انکار کر دے ۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک بندہ دن بھر اپنی servicesکسی کو دے رہا ہو اور اسے لوگ فارغ سمجھ کر اس کی عزت نہ کریں ۔میں نے تو خیر دورانِ تعلیم ہی کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ کئی دفعہ میں یونیورسٹی سے ایک کلاس لے کر گھر آتا‘ اپنے والد کا کالم کمپوز کرتااور پھر واپس جا کر دوسری کلاس لیتا۔ اسی دوران آسانی سے میں نے لکھنا بھی سیکھ لیا۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کام کے بندے کی عزت نہ ہو ۔
اگر کوئی دیکھنے والی آنکھ رکھتا ہو تو کرنسی نوٹ درحقیقت existہی نہیں کرتے ۔ آپ انہیں کھا نہیں سکتے۔یہ نوٹ صرف اس بات کا سرٹیفکیٹ ہوتے ہیں کہ آپ باعزت طور پر کسی جگہ اپنی سروسز provideکر رہے ہیں ۔ہر شخص کے خاندان میں مختلف لوگ مختلف قسم کے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ ان میں سے کسی کام میں گھس سکتا ہے اگر وہ اپنے آپ کو کار آمد ثابت کر دے ۔اگر فارغ بیٹھے رہنے کی عادت نہ ہو گئی ہو۔
جب بھی پی آئی اے سمیت کسی ادارے کی نجکاری کی بات ہوئی ‘ ایک طوفان اس کے ملازمین نے اٹھادیا۔ نجی اداروں میں بھی ایسا ہوتاہے۔ ایک شخص تھا‘ اس نے ایک ادارہ قائم کیا‘ لوگوں کو نوکریاں دیں‘ اب اگر دس سال بعد وہ یہ کہہ رہا ہے کہ اسے آپ کی ضرورت نہیں‘توہمارے پاس کون سا اخلاقی‘ مذہبی یا قانونی جوا ز موجود ہے کہ ہم اسے روک سکیں ؟ یہ تو ضرورت کی بات ہے ۔ جب اسے ضرورت نہیں تو ہم کیسے اس سے چمٹے رہ سکتے ہیں ؟ 
ہر انسان کی زندگی میں بہت سے راستے ہوتے ہیں ۔ سوا ل یہ ہے کہ آپ قدم اٹھانا چاہتے ہیں یا نہیں ۔میں اپنا ایک تجربہ شیئر کرتا ہوں۔ایک پلمبر جو کہ بہت بوڑھا اور بیمار ہو چکاتھا‘ اس کے بی اے پاس بیروزگار بیٹے کو میں نے دعوت دی کہ وہ ہمارے پاس ڈرائیور کا کام کرے اور کالم کمپوز کر دیا کرے ۔ اس نے انکار کر دیا۔ بعد میں اس کے باپ نے رابطہ کیا کہ اس کے بیٹے کو لیبیا میں ملازمت مل رہی ہے ۔ ویزے اور ٹکٹ کے پیسے چاہئیں۔ لیبیا میں ان دنوں معمر قذافی کی حکومت ختم ہونے کے بعد جنگ ہو رہی تھی ۔ وہ جنگ زدہ ملک میں دھکے کھانے کے لیے تیار تھا ۔ایک شخص کا مرگی کا علاج کرایا۔پھر اسے میں نے کہا کہ وہ گوشت کاٹنا سیکھ لے۔ ہم گوشت کی دکان کھولیں گے۔ اس کے ساتھ ہی وہ غائب ہو گیا۔بعد میں مشیہ میٹ کے نام سے دکان ہم نے بنالی ۔یہ بریک ایون پر بھی آگئی۔ اب اگلے مرحلے میں دیکھیں کتنا وقت لگتاہے ۔ میں نے ایک فارم بنایا ‘ سوموار کے روز جس کے لیے بچھڑوں کی خریداری کرنی ہے ۔دو ملازم دکان پر ‘ دو فارم پر ۔ ان کے کرایے‘ تنخواہیں ‘بجلی کے بل اور دوسرے اخراجات۔ اگر برُا وقت آجاتا ہے تواس کے بہت سے حل ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ بھی ہے کہ ان دونوں پراجیکٹس کو بیچ دیا جائے ۔ 
ہماری انا بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ۔ کسی نہ کسی عزیز رشتے دار کے پاس کسی نہ کسی کام میں joinکرنے کی آپشن ہمیشہ موجود ہوتی ہے لیکن بندہ سوچتاہے کہ یہ میرے شایانِ شان نہیں ۔میں ایم بی اے فائنانس ہوں ۔ میں نے سٹاک ایکسچینج کو بھی پڑھ رکھا ہے لیکن اگر نوکری کرنی پڑے تو ٹیچنگ بہتر ہے ۔ فائنانس میں بوریت بہت ہے لیکن مجبوراً کرنی پڑہی جائے تو کیا حرج ہے ۔ ٹیچنگ میں لطف بہت ہے ۔ طرح طرح کے ننھے منے دماغ آپ کے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں ‘ جن میں ہر ایک چھوٹی سی ایک کائنات ہے ۔ آپ ان کے ساتھ interactکر سکتے ہیں ۔ ہر بچّے کی منفرد صلاحیتوں کو دیکھ کر اس سے محظوظ ہو سکتے ہیں ۔ دنیا کی خوبصورت ترین چیزوں میں سے ایک چھوٹے بچوں کی معصومیت ہے ۔ بڑے ہو کر توآدمی خرانٹ ہی ہو جاتاہے ۔ مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنے کام سے لطف اندوز ہو سکتاہے ‘ بجائے مجبوراً کام کرنے کے۔
آج مجھے کسی چیز کا افسوس نہیں ۔ آج مجھے کسی چیز کا خوف نہیں ۔میں نے فیصلہ کرنے میں کبھی دیر نہیں کی ۔میں تو چلیں امیر باپ کا بیٹا ہوں‘ لیکن ہم میں سے کتنے ہیں ‘ چند مہینوں کی بے روزگاری کے نتیجے میں جنہیں حقیقتاً کھانے کو کچھ بھی نہیں ملے گا ۔ میرے اپنے خاندان میں کئی لوگ بہت غریب ہیں لیکن بھوکے تو وہ بھی نہیں رہتے ۔نوکری ختم ہو گئی تو کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا ؟ ہم انسانوں کو صرف اور صرف اس نیلے سیارے پر اپنی زندگی کا وقت اچھے طریقے سے گزارنے کا ٹاسک دیا گیا ہے ۔ نوکری ختم ہو گئی تو ہمارے دماغ کام کرنا نہیں چھوڑیں گے ۔ ہم بدلتی ہوئی صورتحال کے پیشِ نظر نئے فیصلے کریں گے ! باقی جنہوں نے فیصلے نہیں کرنے‘ ان کا تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ ایسے بھی لوگ دنیا میں موجود ہیں ‘ جنہیں کروڑوں روپے کی جائیدادیں وراثت میں ملیں لیکن وہ اس سے کاروبار کرنے کی بجائے پندرہ بیس ہزار روپے کی نوکریاں کر رہے ہیں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved