ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل محمد ضیاء الحق نے ایوانِ اقتدار سے نکال باہر کیا، تو چودھری ظہور الٰہی کے لیے جیل سے باہر آنا ممکن ہوا۔ وہ کراچی سے رہا ہو کر بذریعہ ٹرین لاہور روانہ ہوئے تو راستے میں جگہ جگہ ان کا خیر مقدم کرنے کے لیے قومی اتحاد کے کارکن موجود تھے۔ مارشل لا نے پختہ ارادہ کر رکھا تھا (یا یہ کہیے کہ اس کا اعلان کر رکھا تھا) کہ عام انتخابات نوے روز کے اندر اندر کرا دیے جائیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی وزارتِ عظمیٰ کے تحت عام انتخابات مارچ 1977ء میں منعقد ہوئے، تو وہ دھاندلی کے شدید الزامات کی زد میں آ گئے۔ قومی اسمبلی کے انتخاب میں پیپلز پارٹی نے 56 فیصد کے لگ بھگ ووٹ حاصل کر لیے تھے۔ اس سے پہلے‘ نہ اس کے بعد پیپلز پارٹی کبھی اتنی بڑی تعداد میں رائے دہندگان کو اپنے صندوقچوں میں بند کر سکی۔ اس کا ووٹ بینک 30 فیصد سے 40 فیصد کے درمیان دوڑ بھاگ کرتا رہا۔ صرف یہی ایک حقیقت ان انتخابات کی قلعی کھول کر رکھ دیتی ہے۔ چودھری ظہور الٰہی لاہور میں گلبرگ کے حلقے سے قومی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لینے کا ارادہ باندھ رہے تھے۔ ہمارے ہفت روزے کے دفتر میں ان کا انتخابی پوسٹر ڈیزائن کیا جا رہا تھا کہ صاحبِ طرز اخبار نویس عباس اطہر مرحوم تشریف لے آئے، مل کر دماغ لڑانا شروع کیا تو ''اللہ کا سپاہی ظہور الٰہی‘‘ کے الفاظ زبان پر جاری ہو گئے۔ چودھری صاحب نے عملی زندگی کا آغاز پولیس سے کیا تھا۔ مخالفین اس حوالے سے طرح طرح کی پھبتیاں کستے رہتے تھے۔ ''اللہ کا سپاہی‘‘ کے سلوگن نے ان کے '' سپاہی پن‘‘ میں نئی معنویت بھر دی، اور طعنہ ایک دم اعزاز بن کر گونجنے لگا۔ یہ نعرہ مقبول ہوا، اور چودھری صاحب کے نام کا حصہ بن گیا۔ انتخابات تو ملتوی ہو گئے، چودھری ظہور الٰہی کو ان میں حصہ لینے کی مہلت نہ ملی۔ وہ چند برس بعد الذوالفقار کے ایک دہشت گرد کی گولی کا نشانہ بن گئے، لیکن آج بھی جب ان کا نام آتا ہے، تو اللہ کے سپاہی کے طور پر ان کی شان دوبالا نظر آتی ہے۔
چودھری رحمت الٰہی جماعت اسلامی کے سرکردہ رہنما تھے، جب مولانا مودودیؒ کی جگہ میاں طفیل محمد امیر جماعت بنے، تو چودھری صاحب نے سیکرٹری جنرل (قیّم) کی ذمہ داری سنبھالی، اور یوں جماعت کی تنظیمی قیادت ان کے سپرد ہو گئی۔ چودھری رحمت الٰہی بھی چودھری ظہور الٰہی کی طرح اونچے قد کے مالک تھے۔ فوج میں خدمات بھی انجام دے چکے تھے۔ جماعت کے نوجوانوں نے ان کے لیے یہی سلوگن اپنا لیا، ان کا نام لے کر وہ ''اللہ کا سپاہی‘‘ کا فلک شگاف نعرہ لگانے لگے۔ چودھری ظہور الٰہی کے برعکس چودھری رحمت الٰہی نے طویل عمر پائی۔ نقاہت نے اُنہیں پہلے گھر اور پھر بستر تک محدود کر دیا۔ ایک عرصہ تک وہ دِل اور گردوں کی بیماری سے لڑتے رہے، بالآخر95 سال کی عمر میں راہیٔ ملکِ عدم ہوئے۔ چند روز پہلے جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ کا یہ چراغ ''طاقِ قبر‘‘ میں محفوظ کر دیا گیا۔
چودھری رحمت الٰہی کا تعلق جہلم کے ایک گائوں سے تھا، گویا ''فوجی علاقے‘‘ سے تعلق رکھتے تھے۔ دوسری جنگِ عظیم سے پہلے (یا دوران) فوج میں سپاہی بھرتی ہوئے اور ترقی کرتے کرتے نان کمشنڈ افسر بن گئے۔ (غالباً) کمیشن کے لیے بھی منتخب ہو چکے تھے کہ اللہ کا سپاہی بننے کا شوق لاحق ہو گیا۔ مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے تعارف ہوا، اور ان کو دِل دے بیٹھے۔ ملایا (اب ملائیشیا) میں تھے کہ ایک دن فوجی مشق کے دوران نمازِ مغرب کا وقت ہو گیا، تو نماز پڑھنے کے لیے چل دیے۔ ڈسپلن کی یہ خلاف ورزی قابلِ قبول نہیں تھی۔ انکوائری کے دوران اس طرح کا کوئی سوال ہوا کہ اگر فوجی حکم کا مذہبی فریضے سے ٹکرائو ہو جائے تو آپ کا انتخاب کیا ہو گا؟ جواب واضح تھا کہ اللہ کے حکم کی بجا آوری کے بعد کسی دوسرے حکم پر عمل ہو گا۔ پس سزا کے مستحق ٹھہرے، اور قید با مشقت نصیب ہوئی۔ مٹی کے ٹوکرے اٹھا کر بھاگنا پڑتا تھا، اور یوں اللہ کے سپاہی بن جانے کا لطف دوبالا ہوتا تھا۔ سزا کاٹ کر وطن واپس آئے، تو پٹھان کوٹ پہنچے، اور خود کو مولانا مودودیؒ اور جماعت اسلامی کے سپرد کر دیا۔ لمبا سفر طے کیا، پاکستان بنا تو لاہور میں مقیم رہے۔ جماعتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے کراچی پہنچے، یہاں وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں کلرکی نصیب ہوئی، لیکن جماعتی سرگرمیوں کی پاداش میں مستعفی ہونے پر مجبور کر دیے گئے۔ اندرون سندھ مقیم رہے، جماعت اسلامی کراچی کے کرشماتی امیر چودھری غلام محمد کے حکم پر وہاں کاشتکاری کا آغاز کیا۔ ہوتے ہواتے جماعت کے صدر دفتر میں پہنچے اور ممتاز ہو گئے۔ مزاج دھیما تھا، ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرتے تھے، لیکن سطحیت نام کو نہیں تھی۔ معاملات پر اچھی طرح غور کرتے، اور دلیل کے ساتھ رائے کا اظہار کرتے۔ مولانا مودودیؒ اور میاں طفیل محمد کے پسندیدہ افراد میں ان کا شمار ہونے لگا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان مرحوم کے دور میں جماعت اسلامی پر پابندی لگی تو متحدہ حزبِ اختلاف کو توانائی بخشنے میں لگ گئے۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ کی انتخابی مہم کے دوران جماعت کی نمائندگی کا حق ادا کیا۔ برسوں بعد پاکستان قومی اتحاد کی تشکیل میں بھی سرگرمی دکھائی۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ جماعت اسلامی کے فاصلوں کو کم کیا، جماعت اسلامی سے باہر بھی ان کی بات توجہ سے سنی جاتی تھی۔ پاکستان قومی اتحاد نے جنرل ضیاء الحق کی حکومت میں شرکت کا فیصلہ کیا تو چودھری رحمت الٰہی، بجلی اور پانی کے وزیر بنائے گئے۔ ان کی اصابت رائے نے جنرل ضیاء کے ساتھ ساتھ ان سب کو متاثر کیا، جن کو ان سے یا ان کو جن سے واسطہ پڑا۔ ان دنوں واپڈا کے چیئرمین فضلِ رازق تھے، صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) کے منہ زور گورنر لیفٹیننٹ جنرل فضل حق کے منہ زور بھائی، لیکن چودھری صاحب سے معاملہ ہوا تو فضلِ رازق نے ہاتھ باندھ لیے۔ صوبہ سرحد کے دورے پر گئے، تو جنرل فضل حق (اپنے بڑے بھائی کے زیر ہدایت) خصوصی احترام سے پیش آئے اور بصد اصرار گورنر ہائوس میں ٹھہرایا۔ چودھری صاحب کا نرم لہجہ اور میٹھے الفاظ دِل میں اُتر جاتے تھے۔ اُردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں دسترس تھی۔ سرکاری افسران کے نوٹس کی جامعیت پر دم بخود رہ جاتے۔ وہ عداوت نہیں، دعوت کے بندے تھے، اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ کرنے کی آرزو میں سرشار اور اللہ کے بندوں کی محبت میں گرفتار۔
جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ کی تعمیر میں ان کا کردار بنیادی تھا۔ سیکرٹری جنرل کے طور پر نظمِ جماعت کو ڈھیلا نہ پڑنے دیا۔ تعلیمی اداروں کے قیام میں خصوصی دلچسپی لی۔ ان کے بیٹوں صہیب احسن اور زہیر احسن کا کہنا ہے کہ ان کی یادداشتیں قلم بند کی جا چکی ہیں، اپنی زندگی میں اشاعت کی اجازت انہوں نے نہیں دی کہ کہیں کسی آبگینے کو ٹھیس نہ لگ جائے۔ چودھری صاحب اگر فوج میں رہتے تو شاید جنرل موسیٰ خان اور جنرل ٹکا خان کی طرح ایک اور جنرل بھی ایسا ہوتا، جس نے سپاہی کے طور پر زندگی کا آغاز کیا اور چیف آف آرمی سٹاف بن کر ریٹائر ہوا۔ لیکن ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے کارواں میں جگہ خاص کر رکھی تھی۔ وہ اللہ کے سپاہی تھے، اللہ کے سپاہی کے طور ہی پر دُنیا سے رخصت ہوئے؎
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)