پیوند لگانے سے کام نہیں چلے گا۔پیرہن ہی بدلنا ہوگا۔ شاعر نے کہا تھا۔
یہ جامۂ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا
مہلت ہی نہ دی فیضؔکبھی بخیہ گری نے
پنجاب پولیس میں پختون خوا ایسی اصلاحات کیوں نہ ہو سکیں؟
جناب ناصر درّانی سے پوچھا: کیا وہ اختیارات آپ کو حاصل ہیں، 2002ء کے پولیس آرڈر میں جو تجویز کیے گئے تھے؟ انہوں نے کہا: بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ پھر انہوں نے تفصیلات بیان کرنا شروع کیں اور یہ حیرت انگیز تھیں۔ وزیراعلیٰ، وزرا، ارکانِ اسمبلی اور حکمران پارٹی کے سربراہ ہرگز کوئی مداخلت نہیں کرتے۔ مصالحتی کمیٹیاں تھانوں میں قائم ہیں۔ یہ سفارشی لوگوں پہ مشتمل نہیں۔ ممتاز شہری ان میں شامل ہیں۔ صوبے کے ایک سبکدوش چیف جسٹس ایسی ہی ایک کمیٹی کا حصّہ تھے۔ ہائیکورٹ کے کئی ریٹائرڈ جج، کئی سول اور سیشن جج، سرکاری ذمہ داریوں سے جو نجات پا چکے تھے۔
ایک عشرہ پہلے انہی ناصر درّانی نے ، جب وہ اسلام آباد کے ایس ایس پی تھے، سہالہ تھانے کے لیے جو مصالحتی کمیٹی بنائی، اس ناچیز نے، اس میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ اس لئے کہ اس میں ایک ہی آبادی، ماڈل ٹائون کے مکین شریک تھے۔ خاکسار کا اعتراض یہ تھا کہ ستر، اسّی فیصد آبادی رکھنے والی باقی بستیوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے؛اگرچہ نامزد کمیٹی میں کئی بھلے مانس شامل تھے۔اس کے باوجود یہ واضح تھا کہ مطلوبہ نتائج کا حصول ممکن نہیں۔ کورنگ ٹائون کے دو مکینوں میں اگر کوئی تنازعہ اٹھتا تو شاید اس کا اور چھور کمیٹی والے سمجھ نہ پاتے۔
آدمی اپنے تجربات سے سیکھتا ہے۔درّانی نے سیکھا اور صوبے کو بدل ڈالا۔پنجاب میں انہیں کام کرنے کی اجازت نہ دی گئی۔
نیک طینت اور منکسردرّانی، ذاتی زندگی میں بھی اُجلے آدمی ہیں، اپنے ماتحتوں کو سکھایا کہ مظلوم آدمی کو ایک وی آئی پی کی حیثیت دی جائے گی، تا آنکہ اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا تدارک کر دیا جائے۔ وہی بات جو جانشینِ رسولؐ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اوّلین خطاب میں ارشاد کی تھی: تمہارا طاقتور میرے لیے کمزور ہے، اور تمہارا کمزور میرے نزدیک طاقتور ۔ حتیٰ کہ ان کے درمیان عدل قائم کر دیا جائے۔
تھانوں کی مصالحتی کمیٹیاں کوئی معمولی چیز نہیں۔ پاکستانی عدالتوں کا حال پتلا ہے۔ نظامِ عدل اس قدر ناقص کہ معمولی مقدمات عشروں برقرار رہتے ہیں۔ پولیس ناقص ہے۔ تفتیش وہ کرتی نہیں۔ اخلاقی حالت اس کی خراب ہے اور کیوں نہ خراب ہو۔ حکمران اپنی ذاتی ترجیحات اور مفادات کے لیے، اسے استعمال کرتے ہیں۔ حکمران ہی نہیں تمام با رسوخ اور طاقتور لوگ۔
ناصر درّانی روٹھ کر کیوں چلے گئے؟ اصلاحات کا آغاز کیوں نہ ہو سکا؟ اس لیے کہ پنجاب اسمبلی میں معمولی اکثریت رکھنے والی حکومت کو حلیف لیڈروں کے علاوہ، آزاد ارکان اور خود اپنے لوگوں کی ناراضی کا خطرہ لاحق تھا۔ بے یقینی کی اس فضا میں، جہاں پوری افسر شاہی ہاتھ پہ ہاتھ دھڑے بیٹھی ہے، پولیس کی حالت اور بھی خراب ہے۔ کل دفتر آتے ہوئے، شادمان کالونی کی ایک گلی میں، ایک موٹرسائیکل سوار کو دیکھا، دو پولیس والے جسے گھیرے کھڑے تھے۔ شہری کا رنگ فق تھا۔ اندازہ یہ تھا کہ کاغذات اس کے مکمل نہیں۔ اب وہ سودے بازی میں مصروف تھے۔
جس اقتدار کی بنیاد ناقص ہو، وہ اپنے شہریوں کو انصاف اور قرار عطا نہیں کر سکتا۔ پنجاب کے ووٹروں کا اعتماد تحریک انصاف کو حاصل نہیں۔ اندر سے وہ کھوکھلی اور کمزور ہے۔ توہمات اور اندیشوں کا شکار۔ خوف سے دل دھڑکتے رہتے ہیں۔ اس پر آئندہ الیکشن کے اندیشے۔ قوّتِ فیصلہ سے خوف زدہ لوگ محروم ہوتے ہیں۔ کوئی کارنامہ اور انقلاب تو کجا، معمول کے فرائض بھی ڈھنگ سے ادا نہیں کر سکتے۔
معاشرہ بیمار ہے اور سیاست دان نا اہل۔ ایسا نہیں کہ وہ صلاحیت سے بہرہ ور نہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کی تشکیل ناقص ہے۔ چند شاہی خاندان ان پہ مسلّط ہیں یا کہیں کوئی ایک شخصیت۔ زرداری خانوادہ، شریف لوگ، محمود خان اچکزئی، مولانا فضل الرحمن، باچا خان کا گھرانا، وغیرہ وغیرہ۔ الطاف حسین سے ایم کیو ایم نے پنڈ چھڑایا تو اس کی حالت بیوہ عورت اور بے آسرا خاندان کی سی ہو گئی۔ نچلی سطح تو کیا، پارٹی سربراہ کے سوا کسی کو بھی اختیار برتنے اور پالیسیاں تشکیل دینے کا تجربہ نہیں تھا۔ امن و امان کے ذمہ دار کراچی کے ایک فوجی افسر سے پوچھا: یہ لوگ ٹامک ٹوئیاں کیوں مار رہے ہیں۔ فاروق ستّار ہوش مندی کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے کہا: یہ محتاج لوگ تھے، انحصار کرنے والے، قیادت کا ہنر ان میں اجاگر ہی نہیں ہو رہا۔ ممکن ہے کہ رفتہ رفتہ ہو سکے۔ بچگانہ حرکات نے جناب فاروق ستّار کو تنہا کر دیا، حتیٰ کہ پارٹی سے نکال پھینکے گئے۔
ہم ایک بوسیدہ نظام میں جی رہے ہیں۔ فرض کیجئے وہ بہت مخلص بھی ہو۔ گیارہ کروڑ کے پنجاب کا وزیراعلیٰ ایک ایسا شخص ہے، جسے ایک چھوٹی سی وزارت چلانے کا تجربہ بھی نہیں۔ سندھ کا وزیراعلیٰ قہر مان آصف علی زرداری کا محض ایک کارندہ ہے۔ پختون خوا کے وزیراعلیٰ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بعض اوقات وہ غائب ہو جاتے ہیں۔ ڈھونڈنے سے بھی ملتے نہیں۔ بلوچستان والے جام صاحب سے ان کے ساتھی نا خوش ہیں۔ جام صاحب کے مشیروں سے پوچھا جائے تو وہ کہتے ہیں : اس لئے کہ وزیراعلیٰ ادنیٰ اور ذاتی فرمائشیں پوری نہیں کرتے۔ ناراض ارکان کا مؤقف یہ ہے کہ وزیراعلیٰ من مانی کے مرتکب ہیں۔ ان کی بات نہیں سنتے۔
نئے نظام کی بات کیجئے۔ چھوٹے صوبوں اور صدارتی نظام کی بات کیجئے تو دانشوروں اور اخبار نویسوں کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کا تصور ہے۔ خدا کے بندو، کسی خیال کو اس لیے قبول یا مسترد نہیں کیا جاتا کہ فلاں یا فلاں اس کا موید ہے۔ بلکہ اس لیے کہ وہ موزوں ہے یا نا موزوں۔ اس ناچیز سمیت، بہت سے لوگ یقین رکھتے ہیں کہ محض لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پشاور سے کاروبارِ حکومت چلایا نہیں جا سکتا۔ طاقتور اور با اختیار بلدیاتی ادارے قائم کرنا ہوں گے ۔ اس لیے کہ آخری تجزیے میں سیاست ایک مقامی چیز ہے۔ رحیم یار خان شہر کے ترقیاتی منصوبے اس کی بلدیہ ہی بنا سکتی ہے۔ اپنے لوگوں کو وہ جواب دہ ہوتے ہیں۔ روز ان کا سامنا کرتے ہیں۔ تاریخ کا تجربہ یہ ہے کہ چھوٹے صوبوں کا نظم چلانا سہل ہوتا ہے۔ اسی لیے ہوش مند لوگ تجویز کرتے ہیں کہ ہر ڈویژن کو صوبہ بنا دیا جائے۔ جہاں کہیں آبادی کم ہے، دو ڈویژنوں کو ملا کر۔ سب جانتے ہیں کہ بہاولپور اور سوات ایسی ریاستوں میں انصاف کا حصول آسان تھا۔ سرکاری ملازم زیادہ مستعدی سے کام کیا کرتے۔ حکمرانوں تک رسائی سہل تھی۔ اب آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ خلق پریشان ہے اور روشنی کی کرن دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔
اس بوسیدہ نظام سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ لازم ہے کہ متبادل نظام اور ترجیحات پر کھلے دل سے بحث کی جائے۔ اوپر سے، طاقت کے بل پر مسلّط کردہ کوئی نیا ڈھانچہ نہیں بلکہ برسوں کی ریاضت سے تشکیل پانے والا ایک قومی اتفاق رائے ۔ دلدل سے وہی نکال سکتا اور ادبار سے نجات دے سکتا ہے۔ بہترین قومی ذہانت کو مباحثے میں شریک ہونا چاہئے۔
پیوند لگانے سے کام نہیں چلے گا۔پیرہن ہی بدلنا ہوگا۔ شاعر نے کہا تھا۔
یہ جامۂ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا
مہلت ہی نہ دی فیضؔکبھی بخیہ گری نے