تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     13-01-2019

اٹھارہویں آئینی ترمیم‘ پھر نشانے پر

سینیٹر رضا ربانی اُن سیاسی قائدین میں سے ہیں‘ جنہیں خدشہ ہے کہ 2010 میں منظور ہونے والی اٹھارہویں آئینی ترمیم کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تخت ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں وہ اپنے خدشات کو برملا بیان کرتے رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک حالیہ بیان میں انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ نہ صرف اٹھارہویں آئینی ترمیم کو ختم کیا جا رہا ہے بلکہ پاکستان میں ایک دفعہ پھر موجودہ پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظامِ حکومت قائم کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ اپنے موقف کے حق میں سینیٹر رضا ربانی‘ جو ایوانِ بالا کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں، نے حکومت کے تین حالیہ اقدام کا حوالہ دیا ہے۔ ایک وفاقی کابینہ کی توانائی کے بارے میں کمیٹی کا فیصلہ ہے، جس کے تحت شمسی توانائی اور ہوا کی طاقت سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کی مدت کو 20سے 15برس تک کم کر دیا گیا ہے۔ جناب رضا ربانی کے مطابق وفاقی حکومت کا یہ اقدام صوبائی خود مختاری کے خلاف اور آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے کیونکہ بجلی کی پیداوار فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ پارٹ II- میں شامل ہے اور اس وجہ سے اس آئٹم پر کوئی تبدیلی مشترکہ مفادات کی کونسل (سی سی آئی) کے ذ ریعہ ہی کی جا سکتی ہے۔ دوسرا اقدام تعلیم کے بارے میں ہے۔ وفاقی وزارت برائے تعلیم نے حال ہی میں قومی نصاب کمیٹی کا اجلاس بلایا۔ اس اجلاس کا مقصد ملک کے تمام صوبوں اور حصوں کیلئے یکساں نصاب تعلیم تشکیل دینا ہے تاکہ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کے مطابق، نظام تعلیم میں ناانصافیوں کو دور کیا جا سکے‘ بلکہ اس کے ذ ریعہ قومی اتحاد اور یک جہتی کو فروغ دیا جا سکے۔ جناب رضا ربانی کے مطابق وفاقی حکومت کا یہ اقدام بھی غیر آئینی اور صوبائی خودمختاری کے منافی ہے کیونکہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت تعلیم کے شعبے کو مکمل طو پر صوبوں کی تحویل میں دے دیا گیا ہے اور اس آئینی ترمیم پر عمل درآمد کے ذریعے تعلیم سے متعلق تقریباً تمام امور اور ذمہ داریاں صوبوں کے کنٹرول میں دے دی گئی ہیں۔ تعلیم کا شعبہ شروع سے ہی صوبائی دائرہ اختیار میں رہا ہے‘ اور اس عمل میں اگر کوئی خامیاں تھیں، تو وہ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت دور کر دی گئی تھیں۔ یعنی تعلیم کے تمام ادارے اور اختیارات و محکمے، صوبوں کو منتقل کر دیئے گئے تھے۔ مگر عملی طور ایسا نہیں کیا گیا اور بعض امور کو وفاقی حکومت نے اپنی تحویل میں رکھنے پر اصرار کیا ہے۔ اس میں قومی سطح پر یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے کا اختیار بھی شامل ہے۔ صوبوں کو مرکز کے اس موقف سے اتفاق نہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ وفاق کی طرف سے نصاب تعلیم کی تشکیل کے اختیارات کو اپنے ہاتھ میں رکھنے پر اصرار 18ویں آئینی ترمیم سے روگردانی ہے۔ 
سینیٹر رضا ربانی نے سندھ اور کراچی میں گیس کی سپلائی معطل ہونے کا بھی ذکر کیا اور الزام عائد کیا ہے کہ گیس کے بحران کو پیدا کر کے مرکز سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ سینیٹر رضا ربانی کے ان بیانات کو اگر موجودہ حکومت کے بعض اراکین کی طرف سے 18ویں آئینی ترمیم کے بارے میں ریمارکس کے ساتھ ملا کر زیر غور لایا جائے تو رضا ربانی کے خدشات کو بے بنیاد قرار نہیں دیا جا سکتا۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کہہ چکے ہیں کہ 18ویں آئینی ترمیم پر نظرثانی ہو سکتی ہے۔ خود وزیراعظم عمران خاں بھی کہہ چکے ہیں کہ 18ویں آئینی ترمیم وفاق پر ایک بوجھ ہے۔ اس طرح ملک کے مقتدر حلقوں کی طرف سے اس ترمیم کے بارے میں منفی رائے کا اظہار کیا جا چکا ہے کیونکہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس کے تحت کنکرنٹ لسٹ ختم اور بہت سے محکموں کو مرکز سے صوبوں کو منتقل کر کے صوبائی خود مختاری کا دائرہ بڑھا دیا گیا ہے۔ اس ترمیم کے تحت ٹیکسوں سے وصول ہونے والی کل آمدنی سے صوبوں کو ملنے والے حصے میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے اب مرکز اور مرکز کے تحت چلنے والے چند محکمے خصوصاً دفاع، مالی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کی طرف سے صوبوں کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ فنڈز ملنے کی برملا مخالفت کی جا رہی ہے‘ لیکن اٹھارہویں ترمیم کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ اس کے تحت 1973ء کے آئین کی پارلیمانی نوعیت کو بحال کیا گیا ہے۔ وہ اختیارات جو سب سے پہلے جنرل ضیاء الحق نے آٹھویں آئینی ترمیم (1985) اور جنرل مشرف نے سترہویں ترمیم (2002) کے تحت وزیراعظم سے صدر مملکت کو منتقل کیے تھے، واپس پارلیمنٹ یعنی وزیراعظم کے سپرد کر دیئے گئے ہیں۔ بعض عناصر کے لیے یہ تبدیلی اُن کے عزائم کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اس لیے وہ سرے سے ہی پارلیمانی نظام کی بساط لپیٹ کر ملک میں صدارتی نظام قائم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں جس تواتر اور زور و شور سے بعض بااثر حلقوں اور ان کی سوچ کی نمائندگی کرنے والی شخصیتوں نے پارلیمانی نظام کی مخالفت اور صدارتی طرز حکومت کے حق میں مہم میں چلا رکھی ہے، اس کے پیش نظر سینیٹر رضا ربانی کے ان خدشات کو بے جا قرار نہیں دیا جا سکتا کہ پارلیمانی کی جگہ صدارتی طرز حکومت کو قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ لیکن ایسا کرنا آسان نہیں۔ اس کے لیے ایک نئی آئین ساز اسمبلی یا موجودہ آئین میں وسیع پیمانے پر ترامیم کی ضرورت ہوگی۔ موجودہ حکمران پارٹی کو چونکہ ان تبدیلیوں کو لانے کیلئے مطلوبہ ارکان پارلیمنٹ کی حمایت حاصل نہیں، اس لیے اس مقصد کیلئے کوششوں کا مرکز پارلیمنٹ نہیں ہوگی بلکہ یہ جنگ پارلیمنٹ سے باہر سے لڑی جائے گی۔ اس میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کے علاوہ ان سیاسی پارٹیوں کو ٹارگٹ کیا جائے گا، جو بوجوہ پارلیمانی نظام کی حامی اور صدارتی نظام کی مخالف ہیں۔ اس کے ساتھ ہی این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ رقوم ملنے کی بھی اس دلیل کے ساتھ مخالفت تیز کر دی جائے گی کہ صوبوں کے پاس ان رقوم کو استعمال میں لانے کیلئے ضروری استعداد (Capacity)نہیں ہے۔ 
سینیٹر رضا ربانی اور ان کی طرح کی سوچ کے حامل دیگر لوگ ان خدشات کو بھانپ کر صوبائی خود مختاری پر ممکنہ حملے کے خلاف دفاعی لائن قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے بہت سے حلقے ہیں‘ کیونکہ ہمارے ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ صوبائی خود مختاری کی حدود کو جب بھی محدود کرنے کی کوشش کی گئی، تو عوام کی بھاری اکثریت نے بالآخر اُن کوششوں کو ناکام بنا دیا‘ اور صوبائی خودمختاری کے ساتھ پارلیمانی نظام کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس کا ثبوت ہمیں 1956ء اور پھر1973ء کے آئین کی تشکیل کے موقعہ پر مل گیا تھا۔ ان دونوں مواقع پر ملک کی بیشتر سیاسی پارٹیوں نے عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے 1935ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کی اُن دفعات کو حذف کیا جو صوبوں کے مقابلے میں مرکز کے ہاتھ میں ارتکازِ اختیارات کا باعث تھیں‘ یا وزیراعظم اور پارلیمنٹ کو سربراہ مملکت (گورنر جنرل) کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا موجب تھیں۔ 1962ء کے آئین کو عوام نے محض اس لیے مسترد نہیں کیا تھا کہ یہ ایک فرد (جنرل ایوب) کی طرف سے ایک یک طرفہ اقدام کی پیداوار تھا، بلکہ اس کے مسترد کیے جانے کی اصل وجہ یہ تھی کہ عوام اور ان کی نمائندگی کرنے والی سیاسی پارٹیاں صدارتی حکومت کے حق میں نہیں تھیں‘ کیونکہ ان کی آنکھوں کے سامنے ایک آمرانہ نظام وفاقِ پاکستان کی جڑوں خصوصاً مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان اتحاد کی بنیاد کو کمزور کر رہا تھا۔ پارلیمانی نظام کے مخالف اور صدارتی نظام کے حامیوں کو تاریخ کے ان واقعات سے سبق سیکھنا چاہئے کیونکہ خواہ یہ زمانہ تقسیم ہند سے پہلے کا ہو یا آزادیٔ پاکستان کے بعد کا، صوبائی خود مختاری کا مسئلہ برصغیر کا ہمیشہ نمبر ون سیاسی مسئلہ رہا ہے۔ اسے نظر انداز کرنے کے نتائج ہمیشہ تباہ کن ثابت ہوئے ہیں۔ خواہ یہ تقسیم ہند ہو یا 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی۔ دونوں کا بنیادی سبب صوبائی خود مختاری کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکامی تھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved