ہر انسان اپنی مادی اور تعلیمی ضروریات کے لیے سفر کرتا ہے اور ان سفروںکے دوران بہت سے تجربات اور مفید معلومات کو بھی حاصل کرتا ہے‘ لیکن زندگی میں جب بھی کبھی انسان کو حجازِمقدس کا سفر کرنے کاموقع میسر آتا ہے وہ جس روحانی کیفیت سے گزرتا ہے اس کا باقی سفروں میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے مجھے بچپن ہی میں ولد صاحب کی ہمراہی میں حجاز مقدس میں سفر کرنے کا موقع میسر آیا اور اس کے بعد بھی وقفے وقفے سے مجھے عمرہ اور حج بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوتی رہی۔آج سے اڑھائی برس قبل بھی مجھے بیت اللہ کی زیارت اور عمرے کی ادائیگی کا شرف حاصل ہوا۔ اس کے بعد ایک مرتبہ پھر طبیعت حجاز مقدس کی زیارت کے لیے بے تاب ہوئی۔ اپنے دوست ملک عبدالحفیظ تبسم اور خالد عمر بھائی کے ہمراہ حجاز مقدس کے سفر کا پروگرام مرتب کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے 8 جنوری کو لاہور ائیر پورٹ سے سعودی گلف ائیرلائن کی فلائٹ پر سعودی عرب کے لیے روانگی ہوئی۔ 4 گھنٹے کی مسافت کے بعد طیارہ سعودی عرب کے شہر دمام کے ائیر پورٹ پر اتر گیا۔ وہاں پر ایمیگریشن کے مراحل سے گزرنے کے بعد احرام کو باندھا ۔ دمام سے جدہ کے سفر کا دورانیہ اڑھائی گھنٹے کا تھا۔ لینڈنگ سے کچھ دیر قبل طیارہ میقات کی حدود میں داخل ہوا۔اور مسافروں نے بلند آواز سے تلبیہ کہنا شروع کیا۔
اس موقع پر میرے دماغ نے عمرے کی ادائیگی کے طریقے کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور میں نے تلبیہ کے الفاظ کے ترجمے پر غورکرنا شروع ہو گیا۔ تلبیہ کے الفاظ کاسلیس ترجمہ یہ ہے: ''حاضر ہوں اے اللہ ‘ میں حاضر ہوں ‘ تیرا کوئی شریک نہیں ہے‘ بے شک ہر قسم کی تعریف اور نعمت تیری ہی ہے اور بادشاہت بھی تیری ہی ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں ہے ‘‘۔ تلبیہ پڑھنے کے بعد انسان کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اورجنت کا سوال کرنا چاہیے اور آگ سے پنا ہ مانگنی چاہیے‘ اس لیے کہ یہ عمل مسنون ہے۔ بلند آواز سے تلبیہ پڑھنے سے حج اورعمرے کے اجر وثواب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
مسجد الحرام میں داخل ہوتے ہوئے وہی دعا مانگنی چاہیے ‘جو رسول اکرمﷺ مساجد میں داخل ہوتے ہوئے مانگتے کہ'' اللہ کے نام سے داخل ہوتا ہوں‘ اللہ کے رسول ﷺ پر سلام ہو۔ اے اللہ میرے گناہوں کو معاف فرما اور اپنی رحمت کے دروازے میرے لیے کھول دے‘‘۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم شریف میں روایت ہے کہ حضرت عروہ بن زبیرؓکہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے حج کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے بتایا کہ جب رسو ل کریم ﷺ مکہ میں تشریف لائے تو سب سے پہلے آپ ﷺ نے وضو کیا پھر بیت اللہ شریف کا طواف کیا۔ طواف کی ابتداء حجر ِاسود کو بوسہ دینے‘ چھونے یا اس کی طرف اشارہ کرنے سے ہوتی ہے۔ طواف سات چکروں میں مکمل کیا جاتا ہے اور یہ سات چکر گھڑی کی سوئیوں کی حرکت سے الٹی جہت پر لگائے جاتے ہیں۔ طواف کا سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلے تین چکر تیزی سے اور باقی چکر عام رفتار سے مکمل کیے جائیں۔ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان '' ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاٰخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار‘‘ کا کثرت سے ورد کرنا چاہیے۔ جب سات چکر مکمل ہوجائیں تو اس کے بعد مقام ابراہیم پر آکر دو نوافل ادا کرنے چاہئیں اوراگر مقام ابراہیم پر جگہ نہ مل سکے تو اس جگہ کے دائیں‘ بائیں یا عقب میں جہاں بھی جگہ ملے دو نوافل ادا کرلینے چاہئیں۔مقام ابراہیم حضرت ابراہیمؑ کی عظیم شخصیت کی یاد کو تازہ کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے ۔ آپ ؑ نے اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی توحید کی سربلندی کے لیے بے مثال کردار ادا کیا۔ آپؑ نے وقت کے حاکم نمرود کا مقابلہ کیا۔ بستی والوں کی مخالفت کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ بت کدے میں جاکر کلہاڑے کو چلا دیا۔ اپنی شریک زندگی سیدہ ہاجرہ کو وادیٔ بے آب وگیاہ میں چھوڑ دیا۔ جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے لیے آب زم زم کو رواںفرما دیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کچھ دوڑ دھوپ کے قابل ہوئے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے خواب میں آپ کو اس بات کا حکم دیا کہ آپؑ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری کو چلائیں۔ حضرت ابراہیمؑ نے جب حضرت اسماعیلؑ کو اپنے خواب سے آگاہ کیا تو انہوں نے عرض کی اے میرے بابا ! آپ کو جس بات کا حکم دیا گیا آپ اس پر عمل کر گزریے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپؑ کی قربانی کو قبول ومنظور فرما کر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بچا لیا اور جنت کے مینڈھے کو ان کی جگہ پر ذبح کر وا دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بیت اللہ کی عمارت کو تعمیر کیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے اس گھر کی تعمیر کے وقت جس خلوص نیت کا مظاہرہ کیا ا للہ تبارک وتعالیٰ نے اسے قبول ومنظور فرماتے ہوئے بیت الحرام کی سرزمین کو مرجع الخلائق بنا دیا۔ یقینا حج اور عمرہ کے لیے آنے والے لوگ جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی اور عبادات کو بجا لاتے ہیں وہیں پر وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے خانوادے کی قربانیوں کی یاد کو بھی زندہ وتابندہ کرتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ مبارک پر بھی عمل کرتے ہیں۔
طواف مکمل کرنے کے بعد عمرہ کرنے والے کو صفا پہاڑی کا قصد کرنا چاہیے اور صفا پہاڑی پر پہنچ کر وہ دعا مانگنی چاہیے جو نبی کریمﷺ نے مانگی تھی۔ حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ فرماتے ہیں کہ آپﷺباب الصفا سے صفا پہاڑی کی طرف نکلے۔ جب پہاڑی کے قریب پہنچے تو آپﷺ نے سورہ بقرہ کی اس آیت کی تلاوت فرمائی: ''بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیاں ہیں‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا میں سعی کی ابتدا اسی پہاڑی سے کرتا ہوں‘ جس کے ذکر سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ابتدا کی ہے۔ پس آپ ﷺ نے سعی کی ابتدا صفا سے کی۔ آپﷺ صفا پہاڑی کی اتنی بلندی پر چڑھے کہ بیت اللہ شریف نظر آگیا پھر قبلہ رخ ہوئے اور اللہ کی توحید اور تکبیر ان الفاظ میں بیان فرمائی:''اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ اکیلا ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں بادشاہی اور حمد اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس نے وعدہ پورا کیا‘اپنے بندے کی مدد فرمائی اور تمام لشکروں کو تنہا شکست دی‘‘۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے دعا فرمائی اور یہ عمل آپﷺ نے تین مرتبہ یہ عمل کیا۔ صفا پر کی جانے والی دعائوں سے سعی کا آغاز ہوتا ہے اور عمرہ کرنے والامروہ تک جاتا ہے۔ صفا کی طرف جاتے ہوئے جب نشیبی علاقہ آئے تو عمرہ کرنے والے کو تیز قدم اٹھانے چاہئیں اور جب نشیبی علاقہ ختم ہوجائے تو عمرہ کرنے والے کو رفتار دوبارہ معمول پر لے آنی چاہیے۔ تیز رفتار سے چلنے والے علاقے کے تعین کے لیے صفا اور مروہ کے درمیان چھت پر سبز نشان لگا دیے گئے ہیں‘ ان نشانات کے درمیان تیز چلنا چاہیے اور باقی حصے میں آرام سے چلنا چاہیے۔ اگر بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے کوئی تیز نہ چل سکے تو آرام سے چلنا بھی درست ہے۔ صفا سے مروہ تک ایک چکر اور مروہ سے صفا تک دوسرا چکر مکمل ہوتا ہے۔ ان چکروں کے درمیان عمرہ کرنے والے کوکثرت سے اللہ کا ذکرکرنا چاہیے۔ جب سات چکر مکمل ہوجائیں تو عمرہ کرنے والے کو اپنے بال منڈوانے یا کتروانے چاہئیں اور خواتین کو سر کے بال اکٹھے کرکے آخر سے کاٹ یا کٹوا لینے چاہئیں۔ بال کٹوانے کے بعد عمرہ مکمل ہوجاتا ہے اور عمرے کا احرام اتارکر احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔
فلائٹ اڑھائی گھنٹے کے بعد جدہ ائیر پورٹ پر اتری تو سوچ کا سفر رک گیا۔ ہم تینوں ساتھیوں نے جدہ ائیر پورٹ پر اترنے کے بعد مکہ کا قصد کیا اور وہاں پر ہوٹل میں جاکر کچھ دیر آرام کرنے کے بعد رات کے آخری حصے میں عمرے کے لیے طواف کا آغاز کیا۔ اور نماز فجر کے بعد سعی کی سعادت کو حاصل کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یوں عمرے کی ادائیگی مکمل ہوئی۔
عمرے کی ادائیگی کے دوران اللہ تعالیٰ کی بندگی کو بجا لاتے ہوئے اگر انسان حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ کو سامنے رکھے تو اس کو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہمار ا جینا ‘ مرنا‘ چلنا ‘ پھرنا اور جملہ عبادات فقط ذات الٰہی کے لیے ہونی چاہئیں اور اگر ہم یہ کام کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یقینا ہم اپنے مقصد حیات کو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔اسی حقیقت کو سورہ ذاریات کی آیت نمبر 56میں اللہ تبارک وتعالیٰ یوں بیان فرماتے ہیں:''اور میں نے نہیں بنایا جنات اور انسان کو مگر اپنی عبادت کے لیے ۔‘‘ حجاز مقدس کے زیارت کے دوران انسان کو درحقیقت اپنے مقصد حیات کو پانے اور سمجھنے کا موقع میسر آتا ہے۔ اور ان سفروں کے دوران انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی کبریائی اور عظمت کو سمجھنے کے بھی مواقع ملتے ہیں۔ان سفروں میں یکسوئی اور مخلوق سے کٹ کر اللہ تبارک وتعالیٰ سے رابطہ کرنے کا موقع ملتا ہے تو انسان کی سوچ وفکر کی اصلاح ہوتی ہے اور انسان اس حقیقت کو بھانپ جاتا ہے کہ زندگی کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جستجو کرنا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا کے لیے جستجو کرنے کی توفیق دے ۔ (آمین )