ہمیں زندگی بھر صبر کی تلقین کی جاتی ہے۔ عام آدمی صبر کے مفہوم پر غور کرتا ہے۔ وہ یہی سمجھتا رہتا ہے کہ صبر سے مراد یہ ہے کہ انسان ہر طرح کی صورتِ حال میں چُپ سادھے رہے‘ خون کے گھونٹ پی کر رہ جائے اور کسی بھی سطح پر ایسا ردعمل ظاہر نہ کرے جس سے ''سسٹم‘‘ میں کوئی گڑبڑ واقع ہو۔ مفہوم سے واقف نہ ہونے کے باعث عام آدمی زندگی بھر صبر کی حقیقی کیفیت کو محسوس کرنے سے دور رہتا ہے اور یوں زندگی کسی بڑی اور حقیقی تبدیلی سے بھی دور رہتی ہے۔
صبر کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ انسان کسی بھی صورتِ حال میں اور کسی بھی نوع کے اعمال کا سامنا کرنے کے معاملے میں استقامت کا مظاہرہ کرے‘ ہر متعلقہ زمینی حقیقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھے‘ ڈٹا رہے‘ صورتِ حال کو سمجھنے کی پوری کوشش کرے اور ساتھ ساتھ ہی معاملات کو بہتر بنانے کی طرف بھی متوجہ رہے۔
عام آدمی مثبت سوچ کے حوالے سے بھی غلط فہمی یا خوش فہمی کا شکار رہتا ہے۔ مثبت سوچ یہ نہیں ہے کہ زمانے کی غلط باتوں کو بھی ہنستے ہوئے قبول کیا جائے اور پھر اُسے تقدیر گردانتے ہوئے پُرسکون ہوکر بیٹھا جائے۔ ایسا کرنا کسی بھی درجے میں مثبت سوچ نہیں کہلاتا۔ ایسی نام نہاد مثبت سوچ انسان کو یکسر ناکارہ بنادیتی ہے‘ جو سوچ اصلاحِ حوال کے حوالے سے کچھ کرنے کی تحریک نہ دے ‘وہ کسی بھی درجے میں مثبت نہیں کہی جاسکتی۔
مثبت سوچ کی تحریک دینے والے اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہمارے ساتھ ہوتا ہے‘ جن واقعات کا ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ہم پر غیر معمولی حد تک اثر انداز بھی ہوتے ہیں۔ اِن اثرات کا دائرہ محدود رکھنے کی ایک بہتر صورت یہ ہے کہ انسان اپنے پورے ماحول کو قبول کرے‘ اُسے سمجھنے کی کوشش کرے‘ تفہیم کی منزل سے گزرنے کے بعد تجزیے کے موڑ تک پہنچے اور وہاں سے اپنے لیے موزوں ترین طرزِ عمل کا انتخاب کرے۔ ایپکٹیٹس اور روم کے فلسفی شہنشاہ مارکس آریلیس نے اپنے عظیم تفکر کے ذریعے دنیا کو بتایا کہ انسان اُسی وقت کچھ کرسکتا ہے‘ آگے بڑھ سکتا ہے جب وہ اپنے ماحول اور حالات کو قبول کرے۔ ماحول میں جو لوگ پائے جاتے ہیں اُنہیں نظر انداز کرکے یا اُن کی نفی کرکے انسان کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ ایسی حالت میں وہ کسی بھی معاملے کو کماحقہ سمجھنے میں ناکام ہی رہے گا۔
لاطینی زبان کے ایک ''اظہاریے‘‘ Amor Fati کا شخصی ارتقاء کے حوالے سے لکھنے والے خوب حوالہ دیتے ہیں۔ ان دو الفاظ کا محتاط ترین ترجمہ ''حُبِ تقدیر‘‘ ہوسکتا ہے۔ ہمیں جس افراد اور معاملات کے ساتھ خلق کیے گئے ہیں وہی ہماری تقدیر ہیں۔ اور اِس تقدیر سے محبت کیے‘ بغیر چارہ نہیں۔ تقدیر سے محبت کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے وجود سے متعلق تمام معاملات کو کھلے دِل سے قبول کرے اور تفہیم کی منزل سے گزرنے کے بعد اصلاح یعنی بہتری کی طرف مائل ہو۔
انکار کی حالت میں انسان کسی بھی معاملے کو قبول ہی نہیں کرتا۔ جب قبول نہیں کرتا تو سمجھے گا کیسے؟ جرمن فلسفی فریڈرک نطشے نے بھی اِس نکتے پر خوب زور دیا ہے کہ انسان کو اپنے تمام معاملات سے محبت محسوس کرنی چاہیے اور جن لوگوں سے واسطہ پڑے اُنہیں بھی اُن کے تمام افکار و اعمال کے ساتھ قبول کیا جائے۔ اس کے بعد ہی کسی بھی نوع کی اصلاح ممکن ہوسکتی ہے۔ 1882 میں شائع ہونے والی کتاب ''دی گے سائنس‘‘ (Die frohliche Wissenchaft) میں نطشے نے لکھا ''ہمیں ہر شے میں چھپے ہوئے حُسن کو شناخت کرنے کا ہنر سیکھنا چاہیے۔ اِسی صورت ہم اپنی زندگی اور دنیا کو مزید حسین بناسکتے ہیں۔ جو کچھ بھی میرے لیے یا میرے ماحول میں بد صورت اور بُرا ہے میں اُس کے خلاف کوئی جنگ نہیں چھیڑنا چاہتا اور کسی کو موردِ الزام ٹھہرانے کا ارادہ بھی نہیں۔ اگر کسی چیز یا شخص کو قبول کرنے میں تامّل ہو تو اُسے براہِ راست ٹھکرانے کے بجائے صرفِ نظر کرنا بھی انتہائی کافی ہے۔ کسی بھی چیز کو بدلنے یا ہٹانے کے لیے پہلے اُسے قبول تو کرنا ہی پڑے گا۔‘‘
نطشے نے یہ بھی لکھا کہ جب انسان دنیا کو قبول کرتا ہے‘ تب اس کی خرابیاں محسوسات پر اثر انداز ہوتی ہیں اور شدید ترین درد یا اذیت بھی محسوس ہوئے بغیر نہیں رہتی ... اور یہ کہ کسی بھی حوالے سے محسوس ہونے والی شدید ترین اذیت روح کو نجات‘ بالیدگی اور بلندی بھی عطا کرتی ہے۔ نطشے ہی نے یہ بھی لکھا کہ شدید ترین اذیت ہمیں بہتر بنائے یا نہ بنائے‘ مضبوط تر تو بناتی ہی ہے یعنی جینے کا نیا شعور اور حوصلہ ملتا ہے۔ نطشے نے اس نکتے پر بہت زور دیا ہے کہ انسان کو ہر حقیقت جوں کی توں تسلیم کرنی چاہیے ... اور یہ کہ کسی بھی حقیقت کا ادراک و اعتراف اُس کے حوالے سے صورتِ احوال کو درست کرنے کی طرف پہلا قدم ہے۔
آسٹریا سے تعلق رکھنے والے معروف ماہرِ نفسیات وکٹر فرینکل کی کتاب ''مینز سرچ فار میننگ‘‘ (مفہوم کی تلاش) اُن تخلیقات میں سے ہے جنہیں دنیا بھر میں غیر معمولی دلچسپی سے پڑھا گیا ہے۔ وکٹر فرینکل آسٹریا ہی میں تھے کہ نازی جرمنوں نے اُن کے ملک پر قبضہ کرلیا۔ پانچ سال کے بعد وکٹر فرینکل‘ اُن کے والدین‘ بیوی اور دیگر اہلِ خانہ کو بدنامِ زمانہ عقوبتی مرکز آشوِز بھیج دیا گیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران نازی جرمنوں کے مظالم سے صرف وکٹر فرینکل بچ پائے اور ایک بہن سلامت رہی۔ بیوی اور والدین سمیت باقی پورا گھرانہ موت کی نذر ہوا۔ کسی عام آدمی کی زندگی میں اِتنا بڑا سانحہ گزرے تو صدمہ ہی لے ڈوبتا ہے۔ اگر وہ کسی نہ کسی طور زندہ رہ بھی لے تو نارمل بہرحال نہیں رہ پاتا ‘مگر اس عظیم سانحے نے بھی وکٹر فرینکل کی ذہنی ساخت اور محسوسات و جذبات کو تباہ کن حد تک متاثر نہیں کیا‘ اُن میں چڑچڑاپن پیدا نہیں ہوا! سبب اِس کا یہ تھا کہ ماہرِ نفسیات کی حیثیت سے اُن کی علمی اور فکری بنیاد بہت مضبوط تھی۔ وہ اس نظریے کے حامل تھے کہ کسی بھی انسان کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اُن پر اُس کا کوئی اختیار نہیں ہوتا‘ تاہم اُن حالات سے متعلق محسوسات اور اِس حوالے سے جو بھی کچھ کرنا ضروری ہو اُسے قابو میں رکھنا یقیناً اُس کے بس میں ہوتا ہے۔ یہ معاملہ ادراک پر اختیار کا ہے۔ وکٹر فرینکل ادراک پر اختیار کے ہنر کی بدولت ہی نازی عقوبت خانے سے بچ نکلنے اور باقی زندگی متوازن ذہن کے ساتھ بسر کرنے کے قابل ہوسکے۔
ہم جو کچھ بھی ہیں اُس سے بہتر ہوسکتے ہیں اور جہاں بھی ہیں‘ وہاں سے آگے جاسکتے ہیں۔ اِس کے لیے لازم ہے پہلے ہم اشیاء کی حقیقت کو سمجھیں‘ واقعات کی نوعیت اور اصل پر غور کریں۔ اشیاء کی حقیقت کا عرفان ہی ہمیں اپنی اور باقی دنیا کو بہتر بنانے کی تحریک دیتا ہے۔ ہر حقیقت جب ہم پر پوری طرح منکشف ہوتی ہے تو اذیت ہی سے دوچار نہیں کرتی‘ اداس بھی کردیتی ہے۔ ذہن کی تربیت ناقص ہو تو یہ اُداسی زندگی کے ہر معاملے پر محیط ہوکر معاملات کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے۔ مثبت رہنا ہے تو اپنے ماحول اور اُس میں پائے جانے والے افراد کو وسعتِ قلب کے ساتھ قبول کرنا پڑے گا۔ اپنی ذات تک پہنچنے کی راہ میں یہ سب بڑا پڑاؤ ہے!