جب تک روئے ارض پر وقت گزارنا ہے تب تک ہر انسان کو کچھ نہ کچھ کرنا ہے‘ یعنی جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے معاشی سرگرمی میں حصہ تو لینا ہے۔ معاملات پر طائرانہ سی نظر ڈالیے تو لگتا ہے کہ یہ سب کچھ زندگی کے لیے بہت بڑا دردِ سر ہے۔ ہمیں کچھ کمانے کے لیے جو کچھ کرنا پڑتا ہے وہ بوجھ ہی تو لگتا ہے۔ زمینی حقیقت کی روشنی میں منطق کہتی ہے کہ یہ بوجھ ہی ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ معاشی سرگرمیوں کو احسن طریقے سے جاری رکھنے میں قدرت نے غیر معمولی لطف بھی رکھا ہے۔ یہ لطف سب محسوس نہیں کر پاتے۔ کریں بھی کیسے؟ کسی سرگرمی کو دردِ سر سمجھ کر قبول کیا جائے تو اُس میں سے لطف کس طور کشید ہوگا؟
ہم زندگی بھر جو کچھ بھی کرتے ہیں ‘اُس کا ایک بڑا حصہ معاشی سرگرمیوں پر مشتمل ہوتا ہے اور ان سرگرمیوں کے معیار ہی سے طے ہوتا ہے کہ ہم کیا کرپائیں گے‘ کیا حاصل کر پائیں گے اور زندگی کا معیار کس حد تک بلند کرپائیں گے۔ معاشی سرگرمیوں کا معیار ہی یہ بات بھی طے کرتا ہے کہ ہم روئے ارض پر بسر کرنے کے لیے بخشی جانے والی میعاد‘ یعنی زندگی کو کس حد تک پُرسکون رکھ پائیں گے۔
جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے معاشی جدوجہد کے مرحلے سے گزرنا‘ بلکہ گزرتے رہنا ہر انسان کا مقدر ہے‘ جو اس مرحلے سے احسن طریقے سے گزرتے ہیں اُن کی زندگی میں حقیقی ذہنی سُکون بھی پایا جاتا ہے۔ معاشی سرگرمیوں کو وسعتِ قلب کے ساتھ قبول نہ کرنے والوں کی زندگی میں الجھنوں کا تناسب زیادہ ہوتا ہے۔ یہ حقیقت تسلیم کرتے ہی بنے گی کہ آخری سانس تک جس قدر بھی معاشی جدوجہد کرنی ہے‘ اُسے وسعتِ قلب کے ساتھ قبول کرنے کی صورت ہی میں زندگی متوازن رہتی ہے‘ کام کرنے میں جی لگتا ہے‘ معاوضے سے کماحقہ مستفید ہونے کی راہ نکلتی ہے؛ اگر معاشی جدوجہد بجھے ہوئے دل سے‘ پژمردہ انداز سے کی گئی ہو تو اچھا خاصا معاوضہ ملنے پر بھی دل کو زیادہ خوشی نہیں ہوتی اور زندگی مجموعی طور پر اضمحلال کی گرفت میں رہتی ہے۔
ہم سب ایک خاص ترتیب سے پروان چڑھتے ہیں اور بچپن کے بعد لڑکپن سے گزرتے ہوئے جوانی کی حدود میں قدم رکھتے ہیں اور پھر عملی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔ عملی زندگی کو مستحکم کرتے ہوئے ہم پختہ جوانی تک پہنچتے ہیں اور پھر ادھیڑ عمر کی منزل سے گزرتے ہوئے بڑھاپے کی طرف چل دیتے ہیں۔ کم و بیش ہر انسان کا یہی حال ہے۔ مالی حیثیت خواہ کچھ ہو‘ انسان کو اسی ترتیب سے جینا پڑتا ہے۔ یہ ترتیب بگڑے تو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں‘ مثلاً: اگر عہدِ شباب کی آمد سے قبل ہی معاشی سرگرمیوں سے وابستہ ہونا پڑے تو شخصیت غیر متوازن ہو جاتی ہے۔ لڑکپن کا خوبصورت زمانہ اگر کمانے کی فکر کی چوکھٹ پر قربان ہو جائے‘ تو بہت کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔ ایسی حالت میں انسان میں وہ بھرپور اعتماد پیدا نہیں ہو پاتا جو زندگی کو متوازن رکھنے کے لیے درکار ہوا کرتا ہے۔
زندگی حقیقی مفہوم میں متوازن اُسی وقت رہتی ہے جب ہر کام اپنے موزوں ترین مرحلے میں یا وقت پر ہو۔ خرابی اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب فطری طور پر متعین ہو جانے والی ترتیب بگڑ جائے۔ بچپن اور لڑکپن کے بے فکری سے آراستہ زمانے کو گزارنے کے بعد اُٹھتی جوانی میں انسان کو مستقبل کی تیاری کے حوالے سے سنجیدہ ہونا پڑتا ہے۔ یہ زمانہ کمانے کا نہیں‘ بلکہ کمانے کی تیاری کرنے کا ہوتا ہے۔ کیریئر کا تعین اسی مرحلے میں ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں عمومی طور پر اور ترقی یافتہ معاشروں میں خصوصی طور پر کیریئر کاؤنسلنگ کے ذریعے نئی نسل کو آنے والے دور کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ‘ چونکہ تحقیق اور مشق کا نتیجہ ہوتا ہے‘ اس لیے مستند سمجھا جاتا ہے اور اس پر عمل کرنے سے نئی نسل کو باقی زندگی کے لیے احسن طور پر تیار کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
نئی نسل کے لیے عملی زندگی ایک بہت بڑی آزمائش کے روپ میں سامنے آتی ہے۔ دوسروں کو اچھی طرح دیکھنے‘ یعنی اُن کی صلاحیت‘ سکت‘ معمولات اور کام کرنے کے انداز کا بھرپور جائزہ لینے کے بعد بھی وہ خود کو اچھی طرح تیار کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہو پاتی اور جب عملی زندگی میں قدم رکھنے کا مرحلہ آتا ہے‘ تب اُس کے حواس اور اعصاب پر شدید دباؤ مرتب ہوتا ہے۔ نئی نسل میں کام کرنے کی صلاحیت کم اور سکت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ صلاحیت کی کمی کو سکت کے ذریعے پورا کرنا چاہتی ہے‘ یعنی ولولے کو بروئے کار لاکر سکت کو کلیدی کردار ادا کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ نئی نسل جب عملی زندگی کا آغاز کرتی ہے تو ابتدائی لمحات میں اُس سے کوتاہیاں بھی سرزد ہوتی ہیں‘ قدم ڈگمگاتے ہیں‘ بہت آسان سا عمل بھی دشوار دکھائی دیتا ہے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ عملی زندگی کی ابتداء میں لغزشیں فطری ہوا کرتی ہیں۔ انسان خواہ کوئی شعبہ اختیار کرے‘ ایسا ہی ہوتا ہے۔ انسان اپنی اغلاط‘ کوتاہیوں اور لغزشوں سے سیکھتا ہے۔ قدرت نئی نسل کو چھوٹی چھوٹی ناکامیوں کی مدد سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع عطا کرتی ہے۔ بہت سی کوتاہیوں کا خمیازہ بھگتنے کے بعد ہی وہ سیکھ پاتی ہے کہ کب کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔
عملی زندگی کا آغاز کرتے وقت ایک بنیادی مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ کسی کی ملازمت اختیار کی جائے یا اپنے طور پر کچھ کیا جائے۔ بہت سوں کے نزدیک ملازمت میں انسان محدود رہتا ہے اور اُسے ملنے والا معاوضہ بھی ایک خاص تک ہوتا ہے۔ بات درست ہے۔ ہر معاملے کے کچھ فوائد اور کچھ نقصانات ہوتے ہیں۔ ملازمت کی صورت میں ذمہ داریاں بھی محدود ہوتی ہیں۔ خسارے کا بوجھ بھی نہیں اٹھانا پڑتا۔ نئی نسل کو ملازمت سے لگاؤ اس لیے ہوتا ہے کہ ذمہ داری کا بوجھ بھی کم ہوتا ہے اور نقصان کی صورت میں اپنی جیب سے کچھ نہیں جاتا۔ اس کے برعکس کاروبار یا سیلف ایمپلائمنٹ کی صورت میں زیادہ آمدن یقینی بنانے کا موقع ملتا ہے۔ ''اپنا کام‘‘ انسان کو زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی تحریک بھی دیتا ہے اور گنجائش بھی۔ ہاں‘ خطرات بھی ہوتے ہیں۔ ایک بڑا خطرہ یہ ہوتا ہے کہ نقصان کی صورت میں کوئی بھی اس بوجھ شیئر نہیں کرتا‘ مگر خیر اس ایک خطرے کی بنیاد پر ذوق و شوقِ عمل سے دست کش ہوکر نہیں بیٹھا جاسکتا۔
جن میں کسی بھی شعبے کے حوالے سے مہارت پائی جاتی ہے وہ ملازمت اختیار کرتے ہیں۔ کاروبار اس سے بہت آگے کا معاملہ ہے۔ کاروبار یا اپنا کام وہی لوگ کرتے ہیں‘ جنہیں محض مہارت پر نہیں‘ بلکہ اپنے پورے وجود پر بھروسہ ہو۔ نئی نسل کو اس حوالے سے خصوصی راہ نمائی کی ضرورت ہے‘ تاکہ وہ اپنے لیے بہترین فیصلہ کرے۔ ملازمت کو وجود پر اعتماد کا مظہر قرار دینے کا مطلب یہ نہیں کہ ہے ملازمت کوئی بُری حقیقت ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں اور اُن کے مطابق مصروفِ عمل رہنے سے متعلق ہماری ذہنی تیاری کیا ہے‘ ولولہ کتنا ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ نوکری میں انسان محدود رہتا ہے؟ نئی نسل کو یہ بتانا اور سمجھانا لازم ہے کہ معاملہ نوکری کا ہو‘ کاروبار کا یا پھر سیلف ایمپلائمنٹ کا ... سوچ مثبت ہو تو یافت کا گراف بلند ہوگا اور زندگی پُرسکون انداز سے گزرے گی‘ ورنہ نہیں۔