تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     15-01-2019

کواڈرینگل ہوسٹل کے یادگار دن

گورنمنٹ کالج لاہور کے عقب میں پرانا ہوسٹل ہے جو چوکو رڈیزائن کا ہے اسی وجہ سے اسے کواڈر ینگل کا نام دیا گیا تھا۔ اس ہوسٹل کا بڑا اعزاز یہ ہے کہ علامہ اقبال اپنے زمانۂ طالب علمی میں یہاں مقیم رہے۔ اس مناسبت سے اس ہوسٹل کا نام بعد میں اقبال ہوسٹل رکھ دیا گیا‘ لیکن وہاں کے پرانے مکین اب بھی اسے کواڈر ینگل ہی کہتے ہیں ہمارے نطق پر نیا نام چڑھتا ہی نہیں۔
ہم 1961ء میں بطور فرسٹ ایئر فول جی سی میں وارد ہوئے تو بتایا گیا کہ یہ نہ صرف برصغیر بلکہ ایشیا کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے۔ یہ بھی تکرار سے سنا کہ راوین روایات عظیم ہیں ‘جو کسی اور کالج میں کہاں۔ ہم بڑے فخر سے کالج کا میرون بلیزر پہن کر پھرتے تھے‘ جس پر کالج کا موٹوCourage to Knowعلم کی شمع کے نیچے لکھا ہوتا تھا۔ کالج میں آتے ہی احساس ہوا کہ یہاں بعض سٹوڈنٹ فر فر انگریزی بولتے ہیں۔ سینئر کلاسوں میں لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ پڑھتی ہیں‘ ہم جسے پینڈوؤں کے لئے یہ باتیں ذرا حیران کن تھیں۔ ہوسٹل میں فرسٹ ایئر کے طالب علموں کو مشترکہ کمرہ ملتا تھا۔ ایک کمرے میں پانچ لڑکوں کی چارپائیاں ہوتی تھیں اور اسی میں پانچ ٹیبل اور پانچ کرسیاں۔ سُنا ہے کہ ایک زمانے میں جی سی میں بھی زیادہ سٹوڈنٹ متمؤل گھروں سے آتے تھے۔ داخلہ کے لئے انٹرویو لازمی تھا اور داخلے کا کُلی اختیار پرنسپل کے پاس تھا‘ لیکن جب میں داخل ہوا تو ایڈمیشن میرٹ کی بنیاد پر ہونے لگا تھا‘ لہٰذا پورے مغربی پاکستان اور بیرونی ممالک سے لائق لڑکوں کو ہی یہاں داخلہ ملتا تھا۔
گوجرہ جیسے چھوٹے قصبے سے لاہور شفٹ ہونا میرے لئے کلچرل جھٹکا تھا۔ گھر کے محفوظ ماحول سے نکل کر یکدم ہوسٹل میں آنا بھی ایک صدمہ تھا۔ شروع کے چند ماہ اُداسی اور بے کلی کی کیفیت میں گزرے لیکن آہستہ آہستہ ایڈجسٹمنٹ ہوتی گئی۔ پورے یورپ اور نارتھ امریکہ میں تعلیمی اداروں میں ماہرین نفسیات ہوتے ہیں جو سٹوڈنٹس کو گائیڈ کرتے رہتے ہیں‘ لیکن ہمارے ہاں 1960ء کی دہائی تک ایسا کوئی بندوبست نہ تھا‘ حالانکہ مشہور ماہر نفسیات ڈاکٹر اجمل کواڈرینگل میں ہمارے سپرنٹنڈنٹ تھے۔ہوسٹل میں داخل ہونے کے بعد پہلا اہم واقعہ فرسٹ ایئر کے نمائندے کا الیکشن تھا۔ کینیا سے آئے ہوئے نذیر سلیانی کا کوٹ مومن سے تعلق رکھنے والے قابل طالب علم اورنگزیب سے تھا نذیر سلیانی فرفر انگریزی بولتا تھا اور بہت ملنسار تھا۔ اُس نے بھانپ لیا کہ شاید غیر ملکی ہونا اس کی جیت کے راستے میں حائل نہ ہو جائے؛ چنانچہ نذیر سلیانی نے فائنل تقریر میں کہا کہ میں آپ میں سے ہوں‘ میرے آبا و اجداد برصغیر سے کینیا گئے تھے اور اب میں اپنے اجداد کی سرزمین میں حصولِ علم کے لئے آیا ہوں۔ نذیر نے وہ الیکشن جیت لیا۔
گورنمنٹ کالج لاہور دراصل جمہوریت کی ایک نرسری تھا اور کواڈر ینگل ہوسٹل بھی کالج کے مجموعی ماحول کی عکاسی کرتا تھا۔ فرسٹ ایئر کے نمائندے سے زیادہ دلچسپ الیکشن کواڈر ینگل کے پریذیڈنٹ کا تھا۔ یہاں مخدوم احمد عالم انور اور اختر جوڑہ مدمقابل تھا۔ الیکشن سے پہلے ہر امیدوار تقریر کرتا تھا جو عمومی طور پر انگریزی میں ہوتی تھی۔ یہ بات بھی بہت اہم ہوتی تھی کہ کس امیدوار کی کیا کوالی فیکیشن ہے۔ اس کا درسی کیریئر کیسا رہا ہے۔ غیر نصابی سرگرمیوں مثلاً سپورٹس یا ڈیبیٹنگ میں اُس کا کیا مقام رہا ہے۔ مخدوم عالم انور صادق پبلک سکول بہاولپور سے آئے تھے‘ لہٰذا سپوکن انگلش ان کی بہتر تھی لیکن اختر جوڑہ بہت ملنسار اور خوش اخلاق تھا ۔وہ خوش رہتا تھا اور دوستوں کو اپنی حسِ مزاح سے مسرور رکھتا تھا۔ الیکشن ہوا تو دونوں امیدواروں کے ووٹ برابر نکلے۔ اتنے میں پتہ چلا کہ لطیف کھوسہ نے ابھی ووٹ کاسٹ نہیں کیا اور ووٹ ڈالنے کا وقت بھی ختم نہیں ہوا؛ چنانچہ لطیف کھوسہ کے اکلوتے ووٹ سے عالم انور منتخب ہوئے اور اختر جوڑہ کے لئے وائس پریذیڈنٹ کا نیا عہدہ تخلیق کیا گیا۔ عالم انور کا تعلق رحیم یار خان سے ہے اور کواڈرینگل کے اسی فیصد باسی سنٹرل پنجاب اور پوٹھو ہار سے تھے۔ میرا کہنے کا مقصد ہے کہ اُس وقت کے جی سی میں علاقائی سوچ نہ ہونے کے برابر تھی۔
کوئی چھ بجے بیرے آ کر لڑکوں کو جگاتے تھے۔ فجر کی نماز پڑھنے والے پہلے سے اُٹھے ہوتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد لڑکے کندھوں پر تولئے رکھے‘ ہاتھوں میں صابن دانی‘ ٹوتھ پیسٹ اور برش پکڑے واش رومز کی جانب رواں دواں نظر آتے تھے۔ پھر نارمل کپڑے پہن کر ریڈنگ روم آ جاتے۔ یہاں دنیا جہاں کے اچھے سے اچھے اخبار اور تازہ ترین میگزین پڑھنے کو ملتے تھے۔ ریڈیو سیلون سے بناکا گیت مالا کا پروگرام چل رہا ہوتا تھا۔ پروگرام کے ہوسٹ امین سیانی گانوں کا یہ پروگرام اپنے مخصوص انداز میں کرتے تھے۔ موسیقی کا ایسا شاندار ریڈیو پروگرام اس کے بعد سننے کو نہیں ملا۔ ریڈنگ روم میں لائف ٹائم نیوز ویک اور ریڈرز ڈائجسٹ سب میگزین موجود ہوتے تھے ‘لیکن مجھے یاد ہے طلبا میں سب سے پاپولر میگزین فلم فیئر ہوتا تھا۔ یہ رسالہ انڈیا سے آتا تھا اور جوہر صاحب اس کے ایڈیٹر تھے۔ کواڈرینگل میں سب سے دلچسپ اور کسی حد تک پراسرار شخصیت امان اللہ خان کی تھی۔ امان اللہ انگریزی ایسے بولتا تھا جیسے اس کے گھر کی زبان ہو۔ ہم شروع میں اس کی انگریزی سے بڑے مرعوب تھے۔ وہ ریڈنگ روم کا انچارج بھی تھا ‘جو شاندار طریقے سے چل رہا تھا۔ لاہور میں یونائیٹڈ سٹیٹس انفارمیشن سروس والوں سے امان اللہ کے اچھے تعلقات تھے۔ وہ کبھی کبھی یو ایس آئی ایس کے ذریعے ہوسٹل میں امریکن دستاویزی افلام بھی سکرین کرواتا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ امان اللہ صاحب تو بہت بڑے خلیفے ہیں یعنی امتحان پاس کرنے سے انہیں کوئی غرض نہیں وہ بس جی سی میں رہنا چاہتے ہیں۔ کچھ لوگ ان کے امریکن سنٹر سے تعلقات کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ کئی سال لگا کر 
جی سی سے گریجویشن کیا۔ گورنمنٹ کالج کا یہ دور پڑھاکو اور قابل طالب علموں کا دور تھا لہٰذا امان اللہ کو کالج کو خیر باد کہنا ہی پڑا‘ بعد میں پیپلز پارٹی جوائن کی اور کھدر پوش بن گئے۔ بہت نظریاتی قسم کے جیالے تھے۔ گورنر غلام مصطفی کھر کے پریس سیکرٹری مقرر ہوئے‘ لیکن پارٹی کے وڈیروں سے ان کا نباہ مشکل تھا‘ لہٰذا علیحدگی اختیار کرلی۔ اب معلوم نہیں کہاں ہوتے ہیں۔
کواڈرینگل میں ایک گروپ ان لڑکوں کا بھی تھا جو تبلیغی جماعت جوائن کر چکے تھے اور ویک اینڈ پر رائے ونڈ جاتے تھے۔ ان لڑکوں کی تعداد دس سے زائد نہ تھی لیکن ہوسٹل کے لان میں یہ باجماعت نماز کا اہتمام ضرور کرتے تھے۔ صبح سویرے مولوی رؤف اذان فجر دیتا تھا اور مولوی شمشاد امامت کے فرائض سرانجام دیتا تھا۔ ہوسٹل کے کمرہ نمبر ایک میں ہیڈ پریفیکٹ اقبال صاحب مقیم تھے۔ وہ علی الصبح اذان کی آواز سے ڈسٹرب ہوتے تھے۔ اب وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتے تھے کہ اذان نہ دی جائے ‘ایک دن اقبال صاحب نے مولوی شمشاد کو بلایا اور کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اذان کا مقصد لوگوں کو نماز کے لئے بلانا ہے ‘لیکن معاف کیجئے آپ کے موذن اذان کچھ اس طرح سے دیتے ہیں کہ جس نے نماز کا قصد کیا بھی ہو وہ بھی نہیں آتا۔ آپ مولوی رؤف کو کہیں کہ اچھے سُر سے اذان دیا کرے ورنہ کسی اور موذن کا بندوبست کر لیں۔ مولوی شمشاد کا جواب تھا کہ سر پھر آپ انڈیا سے محمد رفیع کو بلا لیں کہ وہ کواڈر ینگل میں آ کر اذان دیا کرے۔ اقبال صاحب کو شمشاد کا گستاخانہ جواب پسند نہیں آیا‘ ایک دن شمشاد رات کو ہوسٹل پانچ منٹ لیٹ آیا اور اسے بیس روپے جرمانہ ہو گیا جو اُس زمانے میں خاصی رقم تھی۔بعد میں مولوی شمشاد نے انگلینڈ سے پی ایچ ڈی کی۔ داڑھی منڈوا لی‘ خیالات میں بھی بڑا انقلاب آیا‘لیکن کواڈرینگل کے اُن کے ساتھی آج بھی انہیں مولوی شمشاد ہی کہتے ہیں۔ مولوی رؤف‘ شاہد محمود ندیم کے بڑے بھائی ہیں‘ ڈاکٹر بن کر زیادہ عرصہ سعودی عرب رہے سُنا ہے اب لاہور میں ہوتے ہیں۔کواڈر ینگل میں ہر سال ایک بڑا ہی دلچسپ مقابلہ ہوتا تھا اور یہ میس چیمپئن شپ کا مقابلہ تھا۔ مجھے یاد ہے 1962ء کا مقابلہ لطیف کھوسہ نے جیتا تھا اور انہوں نے سترہ روٹیاں کھائی تھیں۔ یہی لطیف کھوسہ بعد میں گورنر پنجاب بنے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved