تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     15-01-2019

امینہ سید: تمنا کا دوسرا قدم

مظفرآباد کاپرل کانٹی نینٹل ہوٹل سطح سمندرسے کئی ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ طرزِتعمیر دلفریب اوراردگرد فطرت کے حسن کی فراوانی۔ بلندی سے دیکھیں تودریائے جہلم کے پانی کا تندوتیز بہائو نظرآتا ہے۔ مجھے یہاں ایک تعلیمی کانفرنس کے حوالے سے مدعو کیاگیا تھا‘ جو21ویں صدی میں تعلیمی مہارتوں کے حوالے سے تھی۔ اس کانفرنس کااہتمام آکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے کیا تھا۔ پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں کے اساتذہ یہاں جمع تھے۔ تین روزہ کانفرنس کا یہ دوسرا دن تھا۔ رات کے کھانے کااہتمام لان میں کیاگیاتھا۔ کھانے کے بعد دن بھر کے تھکے ہوئے کانفرنس کے شرکا اپنے اپنے کمروں میں جاچکے تھے۔ میں ہوٹل کے اندر ڈائنگ ہال میں آگیا اورگلاس وال کے قریب میزپربیٹھ گیا۔کچھ دیرمیں امینہ سید ‘ بیلا رضاجمیل اورنسرین اقبال بھی اسی میزپرآبیٹھیں۔ تینوں خواتین کی تعلیم کے میدان میں قابل ذکرخدمات ہیں۔ نسرین ایک معروف سکول کی سی ای او ہیں۔ بیلاادارہ تعلیم وہ آگہی اور سنجن نگر سکول لاہورکی کرتادھرتا ہیں اور امینہ سید آکسفرڈیونیورسٹی پریس کی منیجنگ ڈائریکٹر۔ ہم نے گرین ٹی کاآرڈر دیا ۔میںنے گلاس وال کے باہر دیکھا۔ دور پہاڑوں پربنے گھروں میں چراغ جل رہے تھے‘ یوں لگتا تھا ستارے زمین پراترآئے ہیں۔ مجھے میرامن کی کتاب''باغ وبہار‘‘ یاد آگئی ‘ جس میں چار درویش ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اورپھر ہردرویش اپنی کہانی سناتا ہے میںنے کہا :کتنے عرصے کے بعدہم ایک جگہ جمع ہوئے ہیں‘ رات ابھی باقی ہے کیوں نہ آج سب اپنی اپنی کہانی سنائیں۔سب نے کہا:واہ کیا اچھا خیال ہے ۔نسرین نے کہا: سب سے پہلے امینہ کی کہانی سنتے ہیں۔ میںنے اوربیلانے نسرین کاساتھ دیا۔ ویٹر نے گرین ٹی سرو کر دی تھی۔ امینہ نے پہلے تو ٹال مٹول کی‘ لیکن جب دیکھا کہ بچنے کی کوئی صورت نہیں تو اس نے آہستہ آہستہ بولنا شروع کیا۔ کہاں سے شروع کروں‘اس نے گلاس وال کے باہردور پہاڑوں پر جھلملاتے چراغوں کو دیکھتے ہوئے کہا: میںجس گھرمیں پیداہوئی ‘وہاں علم وادب کی فضا تھی ‘والدہ شاعرہ تھیں‘ والدہ کی کزن اردو کی مشہور ادیبہ قرۃ العین حیدرجنہوں نے آگ کا دریا اورآخرشب کے ہم سفر جیسے شاہکار تخلیق کئے۔ والد صاحب اردو‘ ہندی اورانگریزی تینوں زبانوں کے شناورتھے۔ ہم سات بہن بھائی تھے‘ میرا نام آخرسے دوسراتھا۔ بھائیوں میں میرے آئیڈیل مجاہدبھائی تھے‘ خوب شرارتی تھے‘ اسی لیے میرے ہیروبھی تھے۔ وہ میرے رول ماڈل تھے‘ کھیل کود میں میرا خوب دل لگتا ‘درختوں پرچڑھنا میرا محبوب مشغلہ تھا۔ میں پڑھاکوبچی نہیں تھی‘ لیکن پڑھائی میں اتنی کمزور بھی نہیں تھی۔ بھائیوں کے ہمراہ کھیل کود میں ان کے برابر شریک ہوتی۔ سچ پوچھوتو میں ٹام بوائے تھی۔پیچھے رہ جانا یاہارمان لینا میری فطرت میں نہیں تھا۔ چیلنج قبول کرنے میںمجھے خاص مزاآتاتھا۔ ایک بار بھائی نے مذاق میں کہا: تم اس مکان کی چھت سے چھلانگ مار کے دکھائو تومانیں۔ میں تیارہوگئی۔ مکان کے قریب ایک کھمبا تھا‘ میں اس کھمبے پرچڑھ کرمکان کی چھت پراترگئی ۔ میرے بھائی نے جب دیکھا کہ میں چھلانگ مارنے کے لیے تیار ہوں تووہ پریشان ہوگیا اورکہنے لگے: منی واپس آجائو میں تویوں ہی مذاق کررہاتھا‘ لیکن میں ارادہ کرچکی تھی ‘ میںنے چھت سے چھجے پر چھلانگ لگادی ذرا لڑکھڑائی پھرسیدھی کھڑی ہوگئی‘ پھرچھجے سے لان میں چھلانگ لگائی۔ یوں میں نے جان کی پروا کئے بغیر چیلنج قبول کیا۔ مجھے اسی طرح کاایک اور واقعہ یاد آرہاہے۔ اسی طرح دوستوں کے درمیان کسی نے کہا:تم سب سے اونچے ڈائیونگ بورڈ(Diving Board)سے چھلانگ مارسکتی ہو؟ میںنے آئودیکھا نہ تائو اورجھٹ سے چیلنج قبول کرلیا۔ سب سے بلند ڈائیونگ بورڈ پرچڑھ گئی اوروہاں سے چھلانگ ماردی۔ چوٹ توآئی‘ لیکن میں خوش تھی کہ میں نے چیلنج قبول کیا۔ خطروں سے کھیلنے کی عادت بعدمیں بھی میرے ساتھ رہی‘ سچ بات تو یہ ہے کہ زندگی میں مجھے جوکامیابیاں ملیں ان میں میری خطر پسند طبیعت کا بڑا ہاتھ تھا۔میرے والد فارن سروس میں تھے‘ ا س لیے مجھے بیرون ملک رہنے کااتفاق ہوا۔ مجھے نیویارک میںاپنا سکول اب بھی یاد ہے‘ واپس آکے کراچی گرامر سکول میں پڑھی۔1979ء میںمجھے لاہورمیں آکسفرڈ یونیورسٹی پریس میںجاب مل گئی۔ وہ ایک طرح سے مارکیٹنگ کی جاب تھی‘ جس میں میرے حوالے پنجاب اور خیرپختونخوا کے تعلیمی ادارے کئے گئے تھے ۔یہ آسان کام نہیںتھا‘ لیکن میں نے اسے چیلنج سمجھ کر قبول کیا‘ مختلف دکانوں اورتعلیمی اداروں میں جانا ہوتا اورانہیں آکسفرڈیونیورسٹی پریس کی کتابوں کے بارے میں قائل کرنا ہوتاتھا۔ پشاور میں کئی بار دکان دار کہتے: بی بی کسی مرد کوبھیجیں۔ میں تن تنہا پبلک ٹرانسپورٹ پرسفرکرتی۔ تعلیمی اداروں میں دکانوں کی نسبت بہتر سلوک ہوتا۔ آہستہ آہستہ میں پبلشنگ کے اسرارورموز سے آشناہوتی گئی‘لیکن آہستہ آہستہ مجھے دفترکے محدود دائرہ کار سے اکتاہٹ ہونے لگی‘ پھرمیری خطرپسندطبیعت نے ایک فیصلہ کیا‘ میںنے آکسفرڈ یونیورسٹی پریس کی نوکری چھوڑکر سیدبکس کے نام سے اپنا کام شروع کیا۔ میرادفتر میری والدہ کے گھرکاایک کمرہ تھا۔ الحمدللہ یہ کام چل نکلا‘معاشی حوالے سے آسودگی تھی‘ لیکن میرے دل کے اندر ایک خواہش جاگ رہی تھی کہ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ معیار کی کتابیں چھاپی جائیں۔ مجھے اپنے کام کوشروع کئے دوسال ہوگئے تھے کہ ایک دن آکسفرڈ یونیورسٹی پریس کی مینجمنٹ نے رابطہ کیااور مجھے واپس اویوپی میں آنے کی پیش کش کی۔ میںنے کہا:میں ایک ادارے کی سربراہ ہوں اور اسی حیثیت میںواپس آناچاہوںگی‘ میراتجربہ اورکارکردگی دیکھ کرمجھے منیجنگ ڈائریکٹرکی پوزیشن پررکھ لیاگیا۔ یہ ایک غیرمعمولی بات تھی‘ میں پاکستان کی پہلی عورت تھی جوکسی بھی ملٹی نیشنل کمپنی میں سربراہ تھی۔اب میں کتابیں شائع کرنے کی اپنی دیرینہ خواہش پوری کرسکتی تھی۔آکسفرڈ یونیورسٹی پریس کی سربراہ کے طورپرمیںنے بہت سے پراجیکٹس کئے‘ جن میں مختلف طرح کی ڈکشنریاں‘ اٹلس‘ بچوں کی کہانیاں ‘ اُردو کے ممتاز شاعروں اور ادیبوں کی نگارشات اور انگریزی میں پاکستانی لکھنے والوں کی کتب شامل ہیں۔ ان سب کتابوں کی اشاعت میں ایک خاص معیار کوسامنے رکھاگیا۔ میں نے امینہ سے پوچھا: اتنے مصروف شب و روز میں گھر کی زندگی تو متاثر نہیں ہوئی؟ امینہ نے مسکراتے ہوئے کہا ایک طرف تویہ سب چل رہاتھا ‘ دوسری طرف میرے گھر کی دنیاتھی۔ یہ دودنیائیں آپس میں گڈ مڈ ہوتی رہتی تھیں۔میرے شوہرکویہ کریڈٹ جاتاہے کہ انہوںنے مجھے پورا سپورٹ کیا۔ میراایک بیٹا اوردوبیٹیاں ہیںشیما میری بڑی بیٹی ہے ‘میرا آرٹ کا شوق اسے منتقل ہوا ہے ا ۔اس نے کلاسیکل ڈانس اور گلوکاری کی باقاعدہ تربیت حاصل کی ہے۔ وہ آج کل کینیڈا کے شہرٹورونٹومیں ہوتی ہے اورپاکستان آتی جاتی رہتی ہے۔ دوسری بیٹی شہربانو پر میری خطرپسند طبیعت کااثر ہے‘ اسے پہاڑوں کوسرکرنے کا شوق ہے۔ اس کازیادہ وقت ڈاکومنیٹریز بنانے میں گزرتا ہے۔بیلا نے کہا: امینہ کتابوں کے علاوہ او یو پی میں کوئی اور کام جس پر تمہیں فخر ہے؟ امینہ نے کچھ دیر سوچا اور بولی : کتابیں توچھپناشروع ہوگئی تھیں‘ لیکن مجھے اس بات کا احساس تھا کہ ہمارے ادیبوں اورشاعروں کووہ عزت نہیں ملتی‘ جو باہر کے ممالک میں ملتی ہے۔ اس احساس میں شدت تب آئی جب میں بھارت کے شہر جے پور میں کتاب میلے میں گئی۔ واپس آکر میں نے تہیہ کرلیا کہ پاکستان میں بھی کتاب میلوں کاکلچرلایاجاناچاہیے‘ سو2010ء میں پہلاکراچی لٹریچر فیسٹیول ہوا جس میں پانچ ہزار افراد آئے۔2018ء تک میلے کا حجم لاکھوں افراد تک جاپہنچاتھا ۔ اب ادب میلے ایک تحریک کی صورت پاکستان کے مختلف شہروں میں پھیل گئے ہیں۔ ہم امینہ کی داستان سن رہے تھے اور حیرت زدہ تھے ۔یہ پاکستان میں ایک عورت کی عزم وہمت کی انوکھی داستان تھی‘ جس نے راستے کی تمام مشکلات کے باوجود ایک ادارے کوبامِ عروج تک پہنچادیا۔امینہ نے ہمارے چہروں کو دیکھا اور بولی :لیکن ابھی اس کہانی میں ایک اہم موڑباقی ہے‘ ہم سب کی آنکھوں میں حیرت دیکھ کر وہ بولی: میںنے اویوپی سے استعفیٰ دے دیاہے۔ ہم سب چونک پڑے۔ ہم میں سے کوئی بھی کہانی میں اس ڈرامائی موڑ کی توقع نہیںکررہاتھا۔ کیوں؟ اب کیاہوگا؟ بے ساختہ ہماری زبانوں پریہ سوال آگئے۔ امینہ کے چہرے پر شانتی تھی ‘ ہونٹوں پر مسکراہٹ اور آ نکھوں میں ایک نئے یقین کی روشنی۔تمنا کا دوسرا قدم اسے اپنی طرف بلا رہا تھا۔ مجھے یوں لگا وہ ایک بار پھر سب سے اونچے ڈائیونگ بورڈپرکھڑی ہے اور نیچے گہرے پُرشور پانیوں کابہائو ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved